صوابی جلسے کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی بہت خوش تھے: بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ صوابی جلسے پر بانی پی ٹی آئی عمران خان بہت خوش تھے۔
راولپنڈی میں اڈیالا جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ووٹ اور مینڈیٹ جمہوریت کی بنیاد ہے، آٹھ فروری کو جو مینڈیٹ چوری ہوا اس پر کوئی کمیشن نہیں بن سکا۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی بہت زیادہ تعداد تھی جلسے میں، پرامن طریقے سے ہم اس عمل کو آگے بڑھاتے رہیں گے، دھیمے انداز سے آگے بڑھتے تو سیاسی حل ڈھونڈا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوابی کا جلسہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا، رابطے نہیں ختم ہونے چاہئیں، اپوزیشن پارٹیز سے ہمارا رابطہ ہوگا، مولانا فضل الرحمان ہمارے ساتھ ابھی تک الائنس میں نہیں۔
بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ عمران خان نے کہا 8 فروری عام انتخابات کے بعد پہلی دفعہ اتنے لوگ نکلے، ہم اپنا مینڈیٹ کبھی نہیں بھولیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی ہے، ہم سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے،نہ 26 ویں ترمیم کا کوئی فیصلہ ہو رہا ہے نہ کمیشن میں نئے ممبران کا فیصلہ ہو رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر
پڑھیں:
ہواؤں کا رخ
قومی سیاسی زندگی میں صبر، تحمل، برداشت، رواداری، سنجیدگی، عزت و احترام اور افہام و تفہیم کے رویے عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ عدل و انصاف، احتساب، قانون اور آئین کے ساتھ کھلواڑ مزاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ مہذب جمہوری معاشروں میں حکومت اور اپوزیشن افہام و تفہیم سے مل جل کر امور سلطنت چلانے، ملکی سلامتی کو یقینی بنانے اور قومی مفادات کے تحفظ کو ہر صورت مقدم رکھتے ہیں۔
آئین مستند، مقدس اور سپریم ہوتا ہے۔ ملک کے تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ ایوان عدل میں پورا پورا انصاف ہوتا ہے اور ایوان نمایندگان میں تمام معاملات آئین کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔
سر ونسٹن چرچل سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک صحافی نے جب یہ سوال کیا کہ ’’مسٹر چرچل! تم جنگ کیسے جیتو گے؟‘‘ تو اس موقع پر چرچل نے تاریخی جملہ کہا کہ ’’اگر عدالتیں عوام کو انصاف دے رہی ہیں تو ہم جنگ ضرور جیت جائیں گے۔‘‘ یہی نظام کی مضبوطی کی دلیل ہے اور یہی جمہوریت اور انصاف کی اصل روح بھی ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں نظام عدل پر روز اول سے سوالیہ نشانات لگتے رہے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ برسر اقتدار آئے حکمرانوں نے ایسے قوانین بنائے اور ایسی ترامیم پارلیمنٹ سے منظور کرائی گئیں جس نے نہ صرف 1973 کے اصل آئین کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ اس کے مضر اثرات سے ایوان عدل سے لے کر پارلیمنٹ تک سب کا وقار اور اعتبار مجروح ہوا اور آج تک ہو رہا ہے ان نام نہاد ’’اصلاحات‘‘ کا مقصد صرف ایک تھا کہ مخالف سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا جائے یا میدان سیاست سے باہر کر دیا جائے۔
احتساب کے نام پر انصاف کا خون ہوتا چلا آ رہا ہے، لیکن سیاسی پابندیوں نے زبان بندی اور مفادات کی زنجیروں نے سب کے پاؤں جکڑ رکھے ہیں۔ آج بھی کم و بیش قوم کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی عدالتی فیصلوں پر سوالات و اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی حکمراں عدالتی فیصلوں کی تعریف و تحسین کرتے ہیں اور انھیں انصاف کی سربلندی، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قرار دیتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے حق میں فیصلہ آ جائے تو سب صحیح ہے اور اگر کسی جرم پر سزا ہو جائے تو عدالتوں پر تنقید شروع ہو جاتی ہے ۔آج تحریک انصاف عدالتی فیصلوں پر معترض اور شکوہ طراز ہے جس کی تازہ ترین مثال 9 مئی کیس میں انسداد دہشت گردی عدالتوں سے پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کو دس دس سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
9 مئی کے واقعات کی کوئی محب وطن حمایت نہیں کر سکتا، ایسے واقعات ہر حوالے سے قابل مذمت ہیں۔ سیاست میں آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ قانون سے بالاتر ہیں جہاں آپ کو ہر جر م کرنے کا لائسنس مل گیا ہے اور آپ اس حد تک چلے جائیں کہ ریاست کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیں اور سیاسی انتقام اور غصے میں سنگین جرائم کے مرتکب ہوں اور جب آپ کو اس جرم پر سزا ملے تو آپ اسے سیاسی انتقام قرار دے دیں۔
حکومتی اکابرین پی ٹی آئی رہنماؤں کو سنائی گئی سزاؤں کے فیصلے کو خوش آیند اور انصاف کا بول بالا قرار دے رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ 5 اگست سے پی ٹی آئی اپنی احتجاجی تحریک کو مہمیز کرنے جا رہی ہے۔
شنید ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے بیٹے قاسم و سلمان بھی اپنے والد کی رہائی کے لیے احتجاج کو پرجوش بنانے کے لیے پاکستان آنے والے ہیں۔ سزائیں انھیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی طرف مائل کر سکتی ہیں اور ممکن ہے کہ وہ پاکستان آنے کا اپنا ارادہ ملتوی کردیں۔ ہماری ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ عدالتوں سے ملنے والی سزائیں کچھ عرصے بعد انھی عدالتوں سے کالعدم قرار دی جاتی رہی ہیں اور سیاسی رہنماؤں پر قائم مقدمات ختم کیے جاتے رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کو چار دہائیوں کے بعد عدالت عظمیٰ نے غلط قرار دیا۔ (ن) لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف، موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف سمیت متعدد رہنماؤں کی سزائیں انھی عدالتوں نے کالعدم قرار دیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب طاقت کے اصل مراکز میں ہواؤں کا رخ بدلتا ہے تو سارا منظرنامہ تبدیل ہو جاتا ہے۔