اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 ججز کی کازلسٹ منسوخ، جسٹس اعجاز ایک بار پھر رخصت پر
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 ججز کی کازلسٹ منسوخ، جسٹس اعجاز ایک بار پھر رخصت پر WhatsAppFacebookTwitter 0 11 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 ججز کی کازلسٹ منسوخ کردی گئی جب کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان ایک بار پھر رخصت پر چلے گئے۔
رپورٹ کے مطابق جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان 11 فروری سے 17 فروری تک دستیاب نہیں ہوں گے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت میں زیر سماعت کیسز کی کازلسٹ بھی منسوخ کردی گئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب آج دستیاب نہیں ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو گذشتہ روز سپریم کورٹ کا عارضی جج تعینات کیا گیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسی ایم جی لالٹین فیسٹیول گالا کی پروموشنل ویڈیو جاری کر دی گئی۔ سی ایم جی لالٹین فیسٹیول گالا کی پروموشنل ویڈیو جاری کر دی گئی۔ ایم ڈی آئی ایم ایف اور وزیر اعظم شہباز شریف آج دبئی میں ملاقات کریں گے حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی روکنے کے اعلان پر اسرائیل نے فوج کو ہائی الرٹ کردیا ترک صدر رجب طیب اردوان 2 روزہ دورہ پر 12 فروری کو پاکستان پہنچیں گے پاکستان فٹ بال فیڈریشن نے ایشین کپ کوالیفائرز سے دستبرداری کا اعلان کردیا شہباز شریف کا دبئی میں پاکستانی کاروباری شخصیات و سرمایہ کاروں سے خطابCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد کی کازلسٹ
پڑھیں:
مستقل بنیادوں پر ججز ٹرانسفر کر کے جوڈیشل کمشن کے اختیار کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس شکیل
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کے دوران ججوں نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا مستقل بنیادوں پر ججز ٹرانسفر کرکے جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔ ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا ہے؟۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی۔ ججز ٹرانسفر پر آئے ہیں تو نئے حلف کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔ جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ سیکرٹری لا نے ٹرانسفرنگ ججز کے حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وضاحت کی وجہ یہ تھی کہ ایڈوائز کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہو۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا۔ جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، چار ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ پانچ ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلہ پر درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلہ کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی استدعا کیا تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز ٹرانسفر کا پورا عمل عدلیہ نے کیا ایگزیکٹو کا کردار نہیں تھا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا۔ جسٹس ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں 15نمبر تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیارٹی کیسے اور کس اصول کے تحت دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب ایک جج ایڈیشنل جج کے طور پر حلف لیتا ہے تو اس کی سینارٹی شروع ہو جاتی ہے، ججز کتنا وقت اپنی ہائیکورٹس میں گزار چکے، ٹرانسفر کے بعد ان کی میعاد بھی جھلکنی چاہیے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ پینشن اور مراعات انہیں مل جائیں گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو آرٹیکل 200 مکمل طور پر غیر موثر ہو جائے گا، کس جج کی سنیارٹی کیا ہوگی، یہ اس ہائی کورٹ نے طے کرنا ہوتی ہے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے سوال پوچھا کہ ٹرانسفر ہوکر آنے والے ججز کہاں کے ججز ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ ججز اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ابھی طے ہونا باقی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ مستقل ججز کی تعیناتی تو جوڈیشل کمیشن کرتا ہے۔ کیا مستقل بنیادوں پر ججز ٹرانسفر کرکے جوڈیشل کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے، کہا گیا سندھ رورل سے کوئی جج نہیں اس لیے لایا گیا۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کیا سندھ سے کوئی جج اسلام آباد ہائی کورٹ میں نہیں تھا، بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک ایڈیشنل جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ لایا گیا، بلوچستان ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر آنے والے ایڈیشنل جج کی کنفرمیشن کون سی ہائیکورٹ کرے گی، کون سی ہائی کورٹ کارکردگی کا جائزہ لے گی۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر وہاں ہو سکتے ہیں جہاں فرض کریں اسلام آباد ہائی کورٹ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹیکس کیسز سننے کیلئے ماہر جج چاہیے تو اس کیلئے عارضی جج لایا جا سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ امید ہے آئندہ سماعت پر کیس کی سماعت مکمل ہو جائے گی۔