ہائی کورٹ نے ٹیلی فون اور ای ملاقات کی سہولیات واپس لینے کے خلاف دائر درخواست پر جیل حکام اور بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت میں دلی ہائی کورٹ نے نئی دلی کی تہاڑ جیل میں غیر قانونی طور پر نظربند کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما نعیم احمد خان کی طرف سے ٹیلی فون اور ای ملاقات کی سہولیات واپس لینے کے خلاف دائر درخواست پر جیل حکام اور بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائی کورٹ کے جج جسٹس سچن دتا نے این آئی اے اور تہاڑ جیل حکام کو درخواست پر جواب دینے کیلئے نوٹس جاری کئے ہیں۔ ایڈووکیٹ تارا نرولا نے نعیم احمد خان کی طرف سے پیروی کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سال نومبر میں این آئی اے کی طرف سے این او سی فراہم نہ کئے جانے کا جواز بنا کر ان کے موکل کو جیل حکام نے ٹیلی فون پر اہلخانہ سے بات کرنے کی سہولت جبری طور پر واپس لے لی ہے۔ نعیم خان کو جولائی 2017ء میں ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد سے ان کیخلاف مقدمے کی سماعت ابھی تک مکمل نہیں کی گئی ہے۔ عدالت نے این آئی اے کے وکیل سے ٹیلی فون کال کی سہولت کی عدم فراہمی پر سوال کیا جبکہ جیل یں کال ریکارڈ کرنے جیسے حفاظتی اقدامات موجود ہیں۔ این آئی اے کے وکیل نے جواب پیش کرنے کیلئے مہلت طلب کر لی۔نعیم خان نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ تہاڑ جیل کے قوانین کے تحت دیگر قیدیوں کو فراہم کی جانے والی اس سہولت سے انہیں انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ این آئی اے نے این او سی جاری نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔ ہائی کورٹ نے مقدمے کی سماعت 18مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آئی اے ہائی کورٹ ٹیلی فون جیل حکام

پڑھیں:

نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر

سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر ذاکر جعفر نے سزائے موت کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت نے مجرم کی ذہنی حالت کا تعین نہیں کروایا، حالانکہ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

درخواست کے مطابق عدالت نے اس متفرق درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا اور ویڈیو ریکارڈنگ پر انحصار کرتے ہوئے سزائے موت دی، حالانکہ وہ ویڈیوز نہ تو ٹرائل کے دوران درست ثابت کی گئیں اور نہ ہی وہ ملزم کو فراہم کی گئیں۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ویڈیوز عدالت میں کبھی چلائی بھی نہیں گئیں، اور فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔ اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ وہ 20 مئی کو سنائے گئے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ اس کے لیے ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔

یاد رہے کہ نور مقدم کو 2021 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا تھا۔ اسلام آباد کی عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی، جسے اسلام آباد ہائیکورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سپریم کورٹ ظاہر جعفر نورمقدم کیس

متعلقہ مضامین

  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • لاہور کے 9 مئی مقدمات میں ضمانت منسوخ ہونے پر بانی پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
  • تہاڑ جیل میں شبیر شاہ کی صحت تیزی سے گر رہی ہے
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • لیویز فورس کا پولیس میں انضمام: بلوچستان ہائیکورٹ کا سخت نوٹس، اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری
  • شراب و اسلحہ برآمدگی کیس ؛ علی امین گنڈاپور کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت ملتوی
  • پریس کانفرنس کرنے والوں کو9مئی مقدمات میں معاف کرنا انصاف کے دوہرے معیار کی واضح مثال ہے
  • شبلی فراز کی نو مئی کے کیسز یکجا کرنے کی درخواست پر سماعت (کل )تک ملتوی
  • نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر
  • بینک فراڈ کیس، نادیہ حسین کے شوہر کی درخواست ضمانت پر سماعت ملتوی