کرپشن پرسیپشن انڈیکس جاری، پاکستان دنیا کا 46واں کرپٹ ملک قرار
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2024 جاری کردیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں 2024 میں کرپشن میں اضافہ جبکہ ملک میں جمہوریت کی صورتحال میں تنزلی دیکھنے میں آئی ہے۔
کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کا 46واں کرپٹ ترین ملک بن گیا ہے جبکہ 180ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا 135واں نمبر ہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا اسکور100 میں سے 27 ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق ایک سال میں کرپشن میں میں اضافے کی وجہ پاکستان کے نمبروں میں 2 درجے تنزلی دیکھنے میں آئی۔ 2023 میں پاکستان کا 180 ممالک میں 133واں نمبر تھا جبکہ 2024 میں پاکستان 180 ممالک میں سے 135واں نمبر پر آگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا میں کرپشن ہورہی ہے، سربراہ احتساب کمیشن قاضی انور کا انکشاف
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے انڈیکس کے مطابق 2023 میں پاکستان دنیا کا 48واں کرپٹ ترین ملک تھا۔
ورائٹیر آف ڈیموکریسی پروجیکٹ میں پاکستان کی تنزلی ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل
دوسری جانب اکنامکس انٹیلی جنس یونٹ میں بھی پاکستان کا اسکور 20 سے کم ہوکر 18 ہوگیا ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پی ڈی ایم دور میں پاکستان کا 180 مملک میں 140واں نمبر تھا اور پاکستان کرپٹ ممالک میں نیچے سے 41ویں نمبر پر تھا۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ڈنمارک کو سب سے کم بدعنوان ممالک میں سرفہرست رکھا ہے جبکہ سب سے کم کرپشن والے ممالک میں فن لینڈ دوسرا اور سنگاپور تیسرے نمبر پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پشاور ہائیکورٹ کا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو کرپشن پر رپورٹ دوبارہ شائع کرنے کا حکم
بھارت کرپٹ ممالک کی فہرست میں 96 نمبر پر ہے جو پاکستان سے 39 درجے بہتر ہے۔
سب سے کم کرپٹ ممالک میں جنوبی سوڈان ،صومالیہ اوروینرویلا سرفہرست ہیں جبکہ ایران، عراق اور روس میں بھی کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق روس کا کرپشن میں 154، افغانستان کا 165 جبکہ 151 نمبر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جمہویت کرپشن کرپشن پرسیپشن انڈیکس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: میں پاکستان کا ممالک میں کے مطابق
پڑھیں:
دنیا مضر ماحول گیسوں کا اخراج روکنے کی قانونی طور پر پابند، عالمی عدالت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے قرار دیا ہے کہ کرہ ارض کے ماحول کو گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) سے تحفظ دینا، اس معاملے میں ضروری احتیاط سے کام لینا اور باہمی تعاون یقینی بنانا تمام ممالک کی اہم ذمہ داری ہے۔
عدالت نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے میں کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔
ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔(جاری ہے)
Tweet URLعدالت سے یہ رائے بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک وینوآتو نے مانگی تھی اور اس کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے ایک گروہ نے کام شروع کیا تھا جن کا تعلق الکاہل میں جزائر پر مشتمل ممالک سے ہے۔
ان طلبہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔
پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کا مسئلہعدالت نے یہ فیصلہ ماحول اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا ہے۔
رکن ممالک متعدد ماحولیاتی معاہدوں کے فریق ہیں جن میں اوزون کی تہہ سے متعلق معاہدہ، حیاتیاتی تنوع کا کنونشن، میثاق کیوٹو، پیرس معاہدہ اور دیگر شامل ہیں۔ یہ معاہدے انہیں دنیا بھر کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کی خاطر ماحول کی حفاظت کا پابند کرتے ہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول بہت سے انسانی حقوق سے استفادے کی پیشگی شرط ہے۔
چونکہ رکن ممالک حقوق کے بہت سے معاہدوں کے فریق ہیں اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے اقدامات کے ذریعے اپنے لوگوں کو ان حقوق سے استفادہ کرنے کی ضمانت مہیا کریں۔مشاورتی رائے کی اہمیتاقوام متحدہ کا چارٹر جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کو 'آئی سی جے' سے کسی مسئلے پر مشاورتی رائے طلب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اگرچہ رکن ممالک پر عدالتی آرا کی پابندی کرنا قانوناً لازم نہیں تاہم ان کی قانونی اور اخلاقی اہمیت ضرور ہوتی ہے اور ان آرا کے ذریعے متنازع معاملات کی وضاحت اور ممالک کی قانونی ذمہ داریوں کے تعین کے لیے بین الاقوامی قانون تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔یہ 'آئی سی جی' کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس پر 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے ہیں اور 97 زبانی کارروائی کا حصہ ہیں۔
عالمی عدالت انصاف'آئی سی جے' نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے شہر دی ہیگ میں واقع امن محل میں قائم ہے۔ اس کا قیام 1945 میں ممالک کے مابین تنازعات کے تصفیے کی غرض سے عمل میں آیا تھا۔ عدالت ایسے قانونی سوالات پر مشاورتی رائے بھی دیتی ہے جو اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی جانب سے اسے بھیجے جاتے ہیں۔
اسے عام طور پر 'عالمی عدالت' بھی کہا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں سے ایک ہے۔
دیگر میں جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، معاشی و سماجی کونسل (ایکوسوک)، تولیتی کونسل اور اقوام متحدہ کا سیکرٹریٹ شامل ہیں۔ یہ عدالت ان میں واحد ادارہ ہے جو نیویارک سے باہر قائم ہے۔یورپی یونین کی عدالت انصاف سے برعکس 'آئی سی جے' دنیا بھر کے ممالک کی عدالتوں کے لیے اعلیٰ ترین عدالت کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس کے بجائے یہ صرف اسی وقت کسی تنازع پر سماعت کر سکتی ہے جب ایک یا زیادہ ممالک کی جانب سے اس بارے میں درخواست کی جاتی ہے۔