متنازعہ قانون پیکا عدالت میں زیر سماعت ہونے کی بنا پر پارلیمانی کارروائی کے دوران احتجاج اور واک آؤٹ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک موخر کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے فیصلے تک پارلیمان میں کارروائی کا بائیکاٹ موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر پی آر اے پاکستان عثمان خان، سیکرٹری نوید اکبر اور تمام باڈی نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ پیکا ایکٹ باالخصوص ترمیمی ایکٹ 2025 ایک ڈریکونین قانون ہے جس پر پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان مختلف طریقوں سے تاحال احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔
پی آر اے پاکستان یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ حکومت کی جانب سے متنازعہ قانون کی منظوری کسی صورت قبول نہیں اور اس کے خلاف احتجاج جاری رکھا جائے گا.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی آر اے پاکستان
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔