کراچی میں دو قیمتی کتے چوری ہونے کی انوکھی واردات
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
شہر کراچی میں ویسے تو ہر طرح کے جرائم ہوتے ہیں لیکن تھانہ درخشاں میں دو روز قبل نیلسن خورشید نامی شہری نے ایک مقدمہ کا اندراج کرایا، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ڈی ایچ اے کے ایک تاجر کے گھر میں عرصہ 12 سال سے ملازم ہیں اور ان کے کتوں کا خیال رکھتے ہیں۔
مدعی مقدمہ نے پولیس کو بتایا کہ ہاشم نامی شخص 10 سے 12 بار کتوں کے بال کاٹنے سمیت دیگر کاموں کے لیے آتا رہتا تھا لیکن آخری بار 4 فروری کو وہ جب آیا تو کتوں کو واک کراتے کراتے ساتھ ہی لے گیا۔
یہ بھی پڑھیں کراچی ایئرپورٹ: منشیات کا سراغ لگانے والے تربیت یافتہ کتے کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا
مقدمہ کے مطابق کتے ہاشم سے مانوس ہو چکے تھے، ایک کتا سفید رنگ کا ’حسکی‘ جبکہ دوسرا بھورے رنگ کا ’شیزو‘ تھا، انہیں تلاش کیا جائے۔
مدعی مقدمہ نیلسن خورشید نے ’وی نیوز‘ کو بتایا کہ ان کتوں کی مالیت 60 ہزار روپے تک بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کتے گھر پر ہی پیدا ہوئے تھے خریدے نہیں تھے۔ ان کی ماں زندہ ہے جو خرید کر لائی گئی تھی۔
مبینہ چور کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہم 10 سال سے اس کو جانتے تھے، درمیان میں یہ غائب ہوا پھر آگیا اور یہ کتوں کی گرومنگ کے لیے آتا تھا۔
نلیسن کے مطابق ان کتوں کی عمر زیادہ تھی، چور لے تو گیا مگر ان کی قیمت اتنی نہیں لگے گی کم عمر ہوتے تو شاید مہنگے بک جاتے۔
ان کے مطابق چور یہاں ملازم نہیں تھا لیکن کبھی کبھار آتا تھا۔ اس بار یہ چوکیدار کو میرا نام لے کر گھر میں آیا اور چوںکہ کتے مانوس تھے اس سے تو ساتھ چلے گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب صرف ان کتوں کی ماں رہ گئی باپ پہلے ہی مر چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں کراچی میں پنکھا چوری کرتے ہوئے مبینہ چور عمارت سے گر کر ہلاک ہوگیا
پولیس کے مطابق مقدمہ اندراج کے بعد مبینہ ملزم کو پکڑنے کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور جہاں اس کی رہائش تھی وہاں بھی تفتیش کی جارہی ہے اور بہت جلد کتوں کو برآمد کرلیا جائےگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انوکھی واردات پولیس چھاپے چور کتے چوری کراچی مدعی مقدمہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انوکھی واردات پولیس چھاپے چور کتے چوری کراچی وی نیوز کے مطابق کتوں کی کے لیے
پڑھیں:
پاسپورٹ دفاتر سے ہزاروں پاسپورٹس چوری ہونے کا انکشاف
اسلام آباد – پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر سے ہزاروں سرکاری پاسپورٹس کے چوری ہونے کا حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے، جس پر کمیٹی ارکان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اجلاس کی صدارت طارق فضل چوہدری نے کی، جہاں ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹس مصطفیٰ قاضی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک کے 25 مختلف پاسپورٹ دفاتر سے گزشتہ چند سالوں کے دوران ہزاروں پاسپورٹس چوری ہوئے۔
ڈی جی پاسپورٹس کے مطابق، چوری شدہ تمام پاسپورٹس کو سسٹم میں بلاک کر دیا گیا ہے، اور ان کی تجدید ممکن نہیں۔
آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ صرف ایبٹ آباد سمیت چند دفاتر سے ہی 32,674 پاسپورٹس چوری ہوئے۔
پاسپورٹس کا ممکنہ غلط استعمال، کمیٹی کی شدید تشویش
اس موقع پر کنوینر طارق فضل چوہدری نے معاملے کو انتہائی تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ موجودہ سیکیورٹی صورتحال میں ان پاسپورٹس کا غلط استعمال قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
ڈی جی پاسپورٹس نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ کچھ غیر ملکی شہری چوری شدہ پاسپورٹس کے ذریعے پاکستان سے سعودی عرب گئے تھے، جہاں وزارت داخلہ کی مدد سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
سعودی حکام نے ان افراد کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر کی، اور انہیں ملک بدر کر دیا۔
پاسپورٹ سسٹم کی ڈیجیٹائزیشن مکمل، فراڈ اب مشکل: ڈی جی
ڈی جی مصطفیٰ قاضی کے مطابق، اس واقعے کے بعد نادرا اور پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کا پورا نظام مکمل ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے، جس کی بدولت اب کسی قسم کی جعل سازی یا چوری کا امکان انتہائی محدود ہو چکا ہے۔
کمیٹی نے ڈی جی پاسپورٹ سے معاملے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ جلد پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
نیو دہلی ہائی کمیشن میں مشینری خریدی، مگر 18 سال بعد بھی غیر فعال
اجلاس کے دوران وزارت داخلہ کے آڈٹ اعتراضات پر بھی غور کیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاکستان ہائی کمیشن نیو دہلی نے 54 ہزار ڈالر کی لاگت سے مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ (MRP) مشینری خریدی، مگر 18 سال گزرنے کے باوجود یہ نظام کام شروع نہ کر سکا۔
اس حوالے سے سیکرٹری داخلہ خرم آغاز نے وضاحت دی کہ مشینری خریدنے کے فوراً بعد بھارت نے پاکستانی عملے کو واپس بھیج دیا، کیونکہ دہلی حکومت کسی بھی آن لائن سسٹم کی اجازت نہیں دیتی۔
پاسپورٹ حکام نے مزید بتایا کہ نیو دہلی میں حالات ایسے ہیں کہ وہاں وائی فائی تک ٹھیک سے نہیں چلتی۔ انٹرنیٹ لگانے کی صورت میں ڈیٹا لیک ہونے کا خدشہ رہتا ہے، جس کے باعث رابطے کے لیے صرف ان کا اپنا نیٹ ورک استعمال کیا جاتا ہے۔
اب مشینری واپس لانے کا فیصلہ
کمیٹی کنوینر نے سوال اٹھایا کہ مشینری خریدنے سے قبل تحقیقی جائزہ کیوں نہیں لیا گیا؟
پاسپورٹ حکام نے تسلیم کیا کہ موجودہ حالات میں مشینری کا استعمال ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے بتایا کہ صرف 71 پاسپورٹس جاری کیے گئے، اور اب واحد حل یہ ہے کہ مشینری کو واپس پاکستان منتقل کر لیا جائے۔
کمیٹی نے اس تجویز کو منظور کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ مشینری جلد از جلد واپس لائی جائے۔ اس موقع پر آڈٹ حکام کی سفارش پر متعلقہ آڈٹ پیرا سیٹل کر دیا گیا۔
Post Views: 6