Islam Times:
2025-11-03@19:12:05 GMT

عقیدہ مہدویت، چراغِ امید مگر کیسے؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

عقیدہ مہدویت، چراغِ امید مگر کیسے؟

اسلام ٹائمز: عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر دور میں ایسے ادوار ملیں گے، جب ظلم، ناانصافی، جبر اور فساد نے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طاقتور کمزوروں پر مسلط ہوگئے، انصاف کے دروازے بند ہوگئے اور معاشرے میں اندھیرا چھا گیا۔ ایسے حالات میں مظلوم دلوں کے لیے امید کی ایک کرن ہمیشہ زندہ رہی ہے، جس نے انہیں مایوسی کے اندھیروں میں جینے کا حوصلہ دیا۔ اسلام میں اس امید کا سب سے روشن چراغ "عقیدہ مہدویت" ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ عقیدہ امید کا چراغ کیسے بن جاتا ہے۔؟ یہ سوال صرف ایک عقیدتی نظریئے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی حقیقت کے بارے میں ہے، جو انسان کے دل و دماغ، روح اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ مہدویت صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ انسان کی فطری امیدوں، آرزوؤں اور خوابوں کا ایک مکمل فلسفہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے، جو ہمیں ناامیدی کے گہرے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن دکھاتا ہے اور یہ یقین دلاتا ہے کہ اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، سورج ضرور طلوع ہوگا۔

عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ امام مہدیؑ کا تصور محض ایک روایتی عقیدہ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا نظریہ ہے، جو دلوں کو جلا بخشتا ہے اور انسان کو ناامیدی کی دلدل سے نکال کر جدوجہد کی راہ پر ڈالتا ہے۔

یہ عقیدہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں ظلم کے اندھیرے گہرے ہوسکتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ آخرکار حق کی روشنی ہر اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ یہ عقیدہ مظلوموں کے لیے ایک سہارا ہے، ظالموں کے لیے تنبیہ ہے اور ہر حق پرست انسان کے لیے چراغِ راہ ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کے نظام کو دوام نہیں اور ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ انصاف اور عدل کا بول بالا ہوگا۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ مشکلات اور مصائب کے دوران کسی نہ کسی امید کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ جب حالات ناسازگار ہوں، انصاف دب جائے اور طاقتور کمزوروں پر ظلم کریں تو انسان کے دل میں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں عقیدہ مہدویت یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ تاریکی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ وہ انسان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ہر ظالم کا انجام برا ہوگا اور حق و عدل کی فتح یقینی ہے۔

یہی امید انسان کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور اسے حوصلہ دیتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑا ہو، خواہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا یقین مظلوموں کے دلوں میں تسلی بخشتا ہے کہ ان کی صدائیں رائیگاں نہیں جا رہیں اور انصاف کا دن قریب ہے۔ یہ عقیدہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جو قومیں اپنی امیدوں کو زندہ رکھتی ہیں، وہ کبھی شکست نہیں کھاتیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں، جہاں کمزور ترین افراد نے صرف اپنی امید اور ایمان کے سہارے عظیم طاقتوں کو شکست دی۔ مہدویت کا چراغ بھی اسی امید کا استعارہ ہے، جو ظلم و جبر کے طوفانوں میں بھی بجھتا نہیں بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عقیدہ مہدویت صرف منفعل "انتظار" کا نام ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فعال انتظار کا درس دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے اپنی ذات اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی جائے۔ جب انتظار کا حقیقی مفہوم یہ ہے تو تمام منتظرینِ امام کو اپنے آپ سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ کیا ہم اپنے کردار کو بہتر بنا رہے ہیں۔؟ کیا ہم انصاف، سچائی اور دیانت کو فروغ دے رہے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم معاشرتی اصلاح اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔؟ امام مہدیؑ کے سچے منتظر وہی ہیں، جو اپنی زندگیوں میں عدل و انصاف کو اپناتے ہیں اور معاشرے میں بہتری کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔

انتظار کا مطلب صرف مستقبل کی امید نہیں بلکہ موجودہ حالات میں بہتری کے لیے کوشش کرنا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "ظلم کے خلاف خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ عقیدہ مہدویت صرف مکتبِ تشیع کا عقیدہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی پیغام ہے۔ امام مہدی علیہ السلام پوری انسانیت کے نجات دہندہ ہیں، چاہے وہ کسی بھی نسل، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ عقیدہ انسانیت کو فرقہ واریت، تعصب اور نفرت سے نکال کر اخوت، بھائی چارے اور یکجہتی کی راہ دکھاتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں ایک نجات دہندہ کے آنے کا تصور پایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی فطرت نجات اور امید کے عقیدے سے جڑی ہوئی ہے۔ عقیدہ مہدویت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانیت ایک مشترکہ منزل کی طرف گامزن ہے، جہاں بھائی چارہ اور انصاف غالب ہوگا، عقیدہ مھدویت ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کا سفر کسی ایک قوم یا ملت تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے ہے۔

امام مہدیؑ کا ظہور ایک عالمی انقلاب کی نوید ہے، جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کی روشنی ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ اس کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی اور ایک دن دنیا میں عدل کا سورج طلوع ہوگا تو وہ سخت سے سخت حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارتا۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا انتظار ہمیں مسلسل ایک بہتر انسان، بہتر معاشرہ اور بہتر دنیا کی تشکیل کے لیے متحرک رکھتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "جو شخص امام مہدیؑ کے ظہور کا منتظر ہو اور اس دوران حق کے لیے جدوجہد کرے، وہ گویا امام کے ساتھ جہاد میں شریک ہے۔" یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ انتظار محض ایک نظریاتی حالت نہیں بلکہ ایک عملی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہم سچے معنوں میں منتظر امام مھدی بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف دعا کرنی ہوگی بلکہ اپنے کردار، رویئے اور معاشرتی اقدامات کے ذریعے اس عظیم مقصد کے لیے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ یقیناً روشنی کبھی نہیں بجھتی، جب تک دل میں امید کا چراغ روشن ہو۔ عقیدہ مہدویت انسانیت کے لئے چراغ امید ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عقیدہ مہدویت علیہ السلام نجات دہندہ نہیں بلکہ کے بجائے انسان کو یہ عقیدہ امید کا یہ یقین دیتا ہے کیا ہم ظلم کے کے لیے ہے اور میں یہ

پڑھیں:

خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟

      اگرچہ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی وسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دل بے چین، ذہن پریشان اور زندگی بے سکون نظر آتی ہے۔

جدید معاشرہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔ تعلقات کی کمزوری، اقدار کی پامالی اور دینی شعور کی کمی نے معاشرے کو فکری اور جذباتی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر امن، عدل، شکر اور سادگی پر مبنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 13)۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 1924)۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے اندر احسان، محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ایک خوشحال معاشرہ دراصل امن کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور اسلام نے قرآن اور رسول اللہ ؐ کی سنت کے ذریعے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف انفرادی سکون بلکہ اجتماعی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان کو انصاف، رحم، محبت، اور بھائی چارے کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن و حدیث میں انسانیت کی عظمت اور سب انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔

’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کرو جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی نہ کریں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالیں۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ (60:8)

’’ان سے حسن سلوک کے ساتھ بات کرو۔ شاید اللہ ان میں سے کوئی ہدایت یافتہ کرے یا وہ خوف سے ڈریں۔‘‘ (سورۃ النحل 16:125)

نبی ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘

یقیناً! ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد معافی، درگزر، نرم دلی، اور باہمی احترام پر قائم ہوتی ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اگر ہم ایک پرامن اور خوبصورت معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا، برداشت کرنا اور اصلاح کی نیت سے خیرخواہی کرنا سیکھنا ہوگا۔

’’اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہے، مگر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(سورۃ الشوریٰ 42:40)

معاف کرنا نہ صرف اخلاقی برتری ہے، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔

’’اور تم میں سے جو صاحبِ فضل اور کشادگی والے ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجرین کو کچھ نہیں دیں گے۔ بلکہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟‘‘

(سورۃ النور 24:22)

جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، وہی اللہ سے معافی کے حق دار بنتے ہیں۔

جب طائف کے لوگوں نے نبی ؐ کو پتھر مارے اور زخمی کر دیا، تو فرشتے نے عرض کی کہ ان پر پہاڑ گرا دوں؟ نبی ؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث 1759)

ایک مثالی معاشرے کی قیادت وہی کرتا ہے جو درگزر کو اپنی طاقت بناتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ظلم کے نظام کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2442)۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری: حدیث 2448 / صحیح مسلم: حدیث 19)

انسانی جان کا تقدس اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، سوائے حق کے‘‘ (سورۃ الاسراء ، آیت: 33)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی نفس کو ناحق قتل کرے گا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 10)۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 93)۔ ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ناحق قتل کو بدترین جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت میں شدید بتائی گئی ہے۔

غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے اور یہیں سے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جو مال تم خرچ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں کیا جائے گا‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 272)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 261)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دنیاوی مشکل کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکلات کو دور فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2699) غریبوں کی مدد سے معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تفریق ختم کر کے انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے کے درد کو محسوس کرے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرے، اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، وہی حقیقی خوبصورت معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کھانا کھلانا اسلام میں ایک عظیم عمل اور خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود خواہش کے کہ خود انہیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (سورۃ الانسان، آیت: 8)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5081)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بھوکے کو کھانا کھلایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5545)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر جان پہچان والے اور نا جاننے والے کو سلام کرنا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6236)۔

رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو (سورۃ النسآء، آیت: 1)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور رشتہ دار اپنے حق میں ایک دوسرے پر (دوسروں سے) زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال، آیت: 75)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت دی جائے، وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1961)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکا دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع تعلقی کرنے کے باوجود تعلق جوڑے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5991)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)۔ جب ہم رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں گے، خاندانی نظام کو مضبوط کریں گے، اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پرسکون اور خوبصورت بنے گا۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد محفوظ اور خوش ہو، وہی حقیقی اسلامی معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔

ہمارے قریب رہنے والا اور دفتر میں ساتھ کام کرنے والا دونوں ہی ہمارے پڑوسی ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرو‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 36)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کو بارہا واضح فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1125)۔ ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کا پڑوسی اس کی اذیتوں (اور شر) سے محفوظ نہ رہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5665)۔

اگر ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا پرامن، خوشحال اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بے چینی، اضطراب، ذہنی دباؤ اور انتشار سے پاک ہو۔ یہ اعمال درحقیقت ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہمیں انسانی ہمدردی سکھاتے ہیں، اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ایک خاص قسم کی تسلی اور سکون نازل فرماتے ہیں جو دنیاوی comforts سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ روحانی سکون ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔

ایلن مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور دیگر ارب پتی افراد انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرکے ایک قسم کا ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ ایلن مسک خلائی ٹیکنالوجی اور پائیدار توانائی کے ذریعے، بل گیٹس صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، اور مارک زکربرگ طبی تحقیق اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کی خدمت کے ذریعے اطمینانِ قلب کی تلاش میں ہیں۔ بلاشبہ دولت، شہرت اور عیش و آرام کی فراوانی ذہنی سکون کے حصول کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ یہ سب فانی اور عارضی ہیں۔ خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے اگر مندرجہ بالااصولوں پر عمل کیا جائے، تو ایک خوبصورت اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو سکون قلب سے بھی مالا مال ہو۔

(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے ہیں۔)

متعلقہ مضامین

  • جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا
  • ایکسکلیوسیو سٹوریز اکتوبر 2025
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
  • خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟