عقیدہ مہدویت، چراغِ امید مگر کیسے؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر دور میں ایسے ادوار ملیں گے، جب ظلم، ناانصافی، جبر اور فساد نے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ طاقتور کمزوروں پر مسلط ہوگئے، انصاف کے دروازے بند ہوگئے اور معاشرے میں اندھیرا چھا گیا۔ ایسے حالات میں مظلوم دلوں کے لیے امید کی ایک کرن ہمیشہ زندہ رہی ہے، جس نے انہیں مایوسی کے اندھیروں میں جینے کا حوصلہ دیا۔ اسلام میں اس امید کا سب سے روشن چراغ "عقیدہ مہدویت" ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ عقیدہ امید کا چراغ کیسے بن جاتا ہے۔؟ یہ سوال صرف ایک عقیدتی نظریئے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی حقیقت کے بارے میں ہے، جو انسان کے دل و دماغ، روح اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ مہدویت صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ انسان کی فطری امیدوں، آرزوؤں اور خوابوں کا ایک مکمل فلسفہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے، جو ہمیں ناامیدی کے گہرے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن دکھاتا ہے اور یہ یقین دلاتا ہے کہ اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، سورج ضرور طلوع ہوگا۔
عقیدہ مہدویت اسلامی تعلیمات کا ایک بنیادی ستون ہے، جس میں یہ یقین شامل ہے کہ آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ، یعنی امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم و جبر سے بھری ہوئی ہوگی۔ یہ عقیدہ ایک ایسے مستقبل کی نوید دیتا ہے، جہاں برائی کی بجائے بھلائی کا راج ہوگا، ظلم کے بجائے انصاف کا نظام قائم ہوگا اور ناامیدی کے بجائے یقین اور سکون کی فضا ہوگی۔ یہی تصور انسان کو امید اور رجاء کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ امام مہدیؑ کا تصور محض ایک روایتی عقیدہ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا نظریہ ہے، جو دلوں کو جلا بخشتا ہے اور انسان کو ناامیدی کی دلدل سے نکال کر جدوجہد کی راہ پر ڈالتا ہے۔
یہ عقیدہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں ظلم کے اندھیرے گہرے ہوسکتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔ آخرکار حق کی روشنی ہر اندھیرے کو مٹا دیتی ہے۔ یہ عقیدہ مظلوموں کے لیے ایک سہارا ہے، ظالموں کے لیے تنبیہ ہے اور ہر حق پرست انسان کے لیے چراغِ راہ ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کے نظام کو دوام نہیں اور ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ انصاف اور عدل کا بول بالا ہوگا۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ مشکلات اور مصائب کے دوران کسی نہ کسی امید کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ جب حالات ناسازگار ہوں، انصاف دب جائے اور طاقتور کمزوروں پر ظلم کریں تو انسان کے دل میں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں عقیدہ مہدویت یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ تاریکی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ وہ انسان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ہر ظالم کا انجام برا ہوگا اور حق و عدل کی فتح یقینی ہے۔
یہی امید انسان کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور اسے حوصلہ دیتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑا ہو، خواہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا یقین مظلوموں کے دلوں میں تسلی بخشتا ہے کہ ان کی صدائیں رائیگاں نہیں جا رہیں اور انصاف کا دن قریب ہے۔ یہ عقیدہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جو قومیں اپنی امیدوں کو زندہ رکھتی ہیں، وہ کبھی شکست نہیں کھاتیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں، جہاں کمزور ترین افراد نے صرف اپنی امید اور ایمان کے سہارے عظیم طاقتوں کو شکست دی۔ مہدویت کا چراغ بھی اسی امید کا استعارہ ہے، جو ظلم و جبر کے طوفانوں میں بھی بجھتا نہیں بلکہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عقیدہ مہدویت صرف منفعل "انتظار" کا نام ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فعال انتظار کا درس دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے اپنی ذات اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی جائے۔ جب انتظار کا حقیقی مفہوم یہ ہے تو تمام منتظرینِ امام کو اپنے آپ سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ کیا ہم اپنے کردار کو بہتر بنا رہے ہیں۔؟ کیا ہم انصاف، سچائی اور دیانت کو فروغ دے رہے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔؟ کیا ہم معاشرتی اصلاح اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔؟ امام مہدیؑ کے سچے منتظر وہی ہیں، جو اپنی زندگیوں میں عدل و انصاف کو اپناتے ہیں اور معاشرے میں بہتری کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔
انتظار کا مطلب صرف مستقبل کی امید نہیں بلکہ موجودہ حالات میں بہتری کے لیے کوشش کرنا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "ظلم کے خلاف خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ عقیدہ مہدویت صرف مکتبِ تشیع کا عقیدہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی پیغام ہے۔ امام مہدی علیہ السلام پوری انسانیت کے نجات دہندہ ہیں، چاہے وہ کسی بھی نسل، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ عقیدہ انسانیت کو فرقہ واریت، تعصب اور نفرت سے نکال کر اخوت، بھائی چارے اور یکجہتی کی راہ دکھاتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں ایک نجات دہندہ کے آنے کا تصور پایا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی فطرت نجات اور امید کے عقیدے سے جڑی ہوئی ہے۔ عقیدہ مہدویت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانیت ایک مشترکہ منزل کی طرف گامزن ہے، جہاں بھائی چارہ اور انصاف غالب ہوگا، عقیدہ مھدویت ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کا سفر کسی ایک قوم یا ملت تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے ہے۔
امام مہدیؑ کا ظہور ایک عالمی انقلاب کی نوید ہے، جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کی روشنی ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ اس کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی اور ایک دن دنیا میں عدل کا سورج طلوع ہوگا تو وہ سخت سے سخت حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارتا۔ امام مہدیؑ کے ظہور کا انتظار ہمیں مسلسل ایک بہتر انسان، بہتر معاشرہ اور بہتر دنیا کی تشکیل کے لیے متحرک رکھتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "جو شخص امام مہدیؑ کے ظہور کا منتظر ہو اور اس دوران حق کے لیے جدوجہد کرے، وہ گویا امام کے ساتھ جہاد میں شریک ہے۔" یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ انتظار محض ایک نظریاتی حالت نہیں بلکہ ایک عملی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہم سچے معنوں میں منتظر امام مھدی بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نہ صرف دعا کرنی ہوگی بلکہ اپنے کردار، رویئے اور معاشرتی اقدامات کے ذریعے اس عظیم مقصد کے لیے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ یقیناً روشنی کبھی نہیں بجھتی، جب تک دل میں امید کا چراغ روشن ہو۔ عقیدہ مہدویت انسانیت کے لئے چراغ امید ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عقیدہ مہدویت علیہ السلام نجات دہندہ نہیں بلکہ کے بجائے انسان کو یہ عقیدہ امید کا یہ یقین دیتا ہے کیا ہم ظلم کے کے لیے ہے اور میں یہ
پڑھیں:
اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟
جب زندگی مصروف ہو جائے اور دباؤ بڑھ جائے تو یہ بالکل عام بات ہے کہ آپ کسی کمرے میں جائیں اور یہ بھول جائیں کہ وہاں کیوں آئے تھے یا بات کرتے ہوئے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جائے یا سادہ سے کاموں پر بھی توجہ مرکوز نہ رکھ پائیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک عام گلے کا انفیکشن بچوں کے دماغ کو کیسے بدل سکتا ہے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق خاص طور پر ویک اینڈ کے بعد دوبارہ کام یا پڑھائی کی روٹین میں واپس آنا مشکل محسوس ہو سکتا ہے۔ اس ذہنی دھند کو عام طور پر ’برین فوگ‘ یا دماغی دھند کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ ایسی علامات کا مجموعہ ہے جیسے توجہ مرکوز کرنے میں دشواری، بھول جانا اور دماغی سستی یا سست روی۔
برین فوگ کی ممکنہ وجوہاتبرین فوگ کی ممکنہ وجوہات میں ذہنی دباؤ یا کام کا بوجھ، ہارمونی تبدیلیاں (جیسے مینوپاز یا پیری مینوپاز)، لانگ کوویڈ اور آٹو امیون بیماریاں (مثلاً لیوپس) شامل ہیں لیکن یہ اس وقت بھی ہو سکتا ہے جب دماغ پر بہت زیادہ بوجھ ہو۔
مزید پڑھیے: آوازیں سننا ذہنی بیماری یا روحانی رابطہ؟
ماہر ڈاکٹر تھاراکا اس حوالے سے 4 مشورے دیتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
خود سے سختی سے گریز کریںیاد رکھیں برین فوگ کوئی کمزوری نہیں بلکہ یہ دماغ کا ایک سگنل ہوتا ہے کہ وہ تھکا ہوا یا زیادہ دباؤ میں ہے۔ لہٰذا کاموں کو کم کریں، مددمانگیں اور خود پر سختی نہ کریں۔ اگر علامات برقرار رہیں تو اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
دن کی ترتیب بنائیںہر دن کی ایک روٹین بنائیں تاکہ دماغ بار بار فیصلے کرنے سے بچ سکے۔
صبح و شام کی روٹین جیسے کہ کپڑے پہلے سے نکال لینا اور ناشتہ پہلے سے تیار کرنا یہ چھوٹے قدم دماغ کو تھکن سے بچاتے ہیں۔
وقفہ لینا نہ بھولیںاگر دن بھر کام، میٹنگز، سماجی تقریبات اور ذمہ داریاں ہوں تو دماغ کو ’ری سیٹ‘ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
مزید پڑھیں: ڈی ایل ڈی ایک چھپی ہوئی بیماری جو 10 فیصد بچوں میں ہوتی ہے، حل کیا ہے؟
ہر سرگرمی کے درمیان 5–10 منٹ کا مختصر وقفہ لیں اور اس دوران تھوڑی اسٹریچنگ کی جاسکتی ہے، پانی پیا جاسکتا ہے، کھڑکی سے باہر دیکھا جاسکتا ہے اور خاموشی بھی بیٹھا جاسکتا ہے۔ یہ وقفے دماغ کے لیے دم لینے کا موقع ہوتے ہیں۔
کیلنڈر اور ریمائنڈرز کا استعمال کریںہر کام کو دماغ میں یاد رکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ فون یا کیلنڈر میں یاددہانی لگا لیں۔
روزانہ کے کام خودکار طریقے سے شیڈول کریں مثلاً دوپہر کے کھانے کا وقت، بلز ادا کرنے کی یاددہانی، ہفتہ وار کام وغیرہ۔ یہ آپ کا ذہنی بوجھ کم کرتا ہے۔
برین فوگ سے چھٹکارے کے لیے ڈاکٹر تھاراکا کی ٹپسبرین فوگ سے چھٹکارے کے لیے ڈاکٹر تھاراکا نے کچھ تراکیب بتائی ہیں جو جو کچھ اس طرح ہیں۔
نیندہر رات 7–9 گھنٹے کی نیند لیں تاکہ دماغ آرام کرے اور یادداشت بہتر ہو۔
پانیپانی کی معمولی کمی بھی توجہ کو متاثر کرتی ہے لہٰذا دن بھر پانی پیتے رہیں۔
سرگرمیچلنا، ہلکی ورزش یا کھینچاؤ خون کے بہاؤ کو بہتر بناتا ہے اور دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے۔
غذاپروسیسڈ کھانوں کی جگہ مکمل اور قدرتی غذا لیں۔چولین جیسے غذائی اجزا (انڈے، مچھلی، بادام وغیرہ) دماغ کے لیے مفید ہیں۔
اسٹریسمسلسل تناؤ کورٹیسول کی زیادتی سے دماغ کو دھندلا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا بار بار اعضا کی پیوندکاری سے انسان امر ہو سکتا ہے؟شی جن پنگ اور پیوٹن کےدرمیان غیر متوقع گفتگو
سانس کی مشقیں، مائنڈفولنیس، یا پسندیدہ مشغلوں سے تناؤ کم کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بار بار بھولنا برین فوگ دماغی دھند صحت