Jasarat News:
2025-06-11@04:36:34 GMT

جمہوریت میں عوام بھی ہیں یا نہیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

جمہوریت میں عوام بھی ہیں یا نہیں

آئینی لحاظ سے پاکستان کی ریاست اسلامی جمہوریہ ہے۔ آئین ہمیں تسلیم ہے، سیاسی لحاظ سے اس کا احترام بھی ہر پاکسانی شہری پر لازم ہے۔ ریاست سے وفاداری ہر شہری پر لازم قرار دی گئی ہے یہ آئین کے آرٹیکل5 کا تقاضا ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف عام شہری تک محدود ہے؟ آئین کا احترام کرنا ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے لیے لازم کیوں نہیں سمجھا جاتا یا ان لوگوں نے خود کو آئین سے بالاتر کیوں سمجھا؟ تاریخ بھی خاموش ہے اور مورخ بھی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر جمہوریت کی گلیوں میں بنجارہ بن کر گھوم رہے ہیں۔ چند روز حکومت نے آٹھ فروری کو یوم تعمیر و ترقی منایا گزشتہ سال آٹھ فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوئے اور پوری قوم فارم پینتالیس اور فارم سینتالیس میں تقسیم ہوکر رہ گئی، اکثریت کے پاس فارم پینتالیس ہیں اور اقلیت کے پاس فارم سینتالیس ہیں مگر وہ اقتدار میں ہیں۔ جمہوریت تو کہتی ہے کہ اکثریت کا فیصلہ مانا جائے گا اور وہی حق حکمرانی بھی کریں گے۔ اقبال نے بھی کچھ کہا تھا، جمہوریت میں گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا، حالیہ اہل اقتدار تو کہاں گنے گئے ہیں اور کہاں تولے گئے ہیں عوام یہ سب کچھ جاننے کے خواہش مند تو ہیں مگر اسے اس راستے کی جانب جانے کی اجازت نہیں ہے کہ یہ شاہراہ عام نہیں ہے۔ آگے راستہ بند ہے، کا بورڈ لگا ہوا ہے۔

بہر حال آٹھ فروری کی مناسبت سے حکومت نے تو یوم تعمیر و ترقی منالیا، اور اس روز کی مناسبت سے قوم کے اس حصے نے جسے انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے یوم سیاہ منایا، اور سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کرکے اور ریلیاں نکال کر اہل اقتدار سے سوال پوچھا کہ وہ کس بنیاد پر حق حکمرانی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ اہل اقتدار کے کسی بھی ایک شخص کے پاس بھی اس سوال کا مناسب، قانونی اور آئینی جواب ہو تو بتائے؟ کہ جمہوریت دوسرے معنوں میں اکثریت جواب کی منتظر ہے۔ قوم تو اس سوال کا بھی جواب مانگ رہی ہے کہ کون ہے جسے 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھا کر اسلام آباد کے تخت پر بٹھایا گیا تھا، اس کا نام تو بتائیے؟ وہ کون ہے جس نے قوم کے سامنے بزدار کھڑا کیا اور گوگی متعارف کرائی اور کون ہے جسے 2024 کے انتخابات میں فارم سینتالیس کی بنیاد پر حکومت ملی، جو ہر کام کا کریڈٹ جمہوریت سے چھین کر اپنے سرپرستوں کو دیے جارہا ہے، آخر ایسے لوگوں میں کیا خوبی ہے جو جمہوریت پر یقین رکھنے والی پاکستانی قوم کے فیصلوں میں نہیں ہے۔

ہر حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ آئین کی پابند ہے، دعویٰ بھی کرتی رہتی ہے، آئین کیا کہتا ہے؟ آئین کا آرٹیکل 5 ہی کافی ہے، کہ ہر شہری ریاست کا وفادار ہوگا، ہماری کتنی حکومتیں گزری ہیں کہ جنہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیے اور ان معاہدوں کو قوم کے سامنے رکھا، کوئی ایک حکومت، کسی ایک وزیر اعظم کا نام ہی بتا دیں، شہباز حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق بھی قوم کے سامنے نہیں رکھی گئی، تو کیا ریاست کے ساتھ آئین کے آرٹیکل پانچ کے مطابق وفاداری تصور کی جاسکتی ہے؟ یہ ایک سوال ہے محض سادہ سا سوال، کیا اس کا جواب قوم کو مل پائے گا؟

ان دنوں آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان میں ہے، اس کی کیا مصروفیات ہیں؟ پارلیمنٹ بھی اس سے آگاہ نہیں ہے، قوم تو بہت دور کی بات ہے، اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں جمہوریت تو کہتی ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے، اس عوام کو رات بھر اس بات کا علم ہی ہوتا کہ انتخابات کے نتائج کیا ہیں اور کیا حکومت اسی نتیجے کے مطابق بن جائے گی، رات کو نتیجہ کچھ اور ہوتا اور دن میں نتیجہ کچھ اور نکلتا، رات کو بہت سے لوگوں کی مٹھائیاں ضائع ہوجاتی ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے اور کیسی حکومت، جمہوریت یہی ہے کہ جس کو اقتدار مل جائے جمہوریت کا ’’پھل‘‘ بھی اسی کو ملتا ہے، باقیوں کے کھاتے میں دھرنے، مظاہرے، احتجاج رہ جاتے ہیں، یہ کیسا ملک ہے، ایسا ملک دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملے گا، بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں، جو پارلیمنٹ کے اندر بھی پھر بھی نظام کو تسلیم نہیں کر رہی ہیں، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ہر امیدوار کو کامیاب ہونا چاہیے، ان کا کوئی ٹکٹ ہولڈر شکست نہیں کھا سکتا، یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ ایسا ہی ہو مگر سیاسی جماعتوں کی اکثریت اس بات پر بضد رہتی ہے کہ اسے جان بوجھ کر شکست دی گئی، آئین اور ریاست دونوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھیں، اگر کوئی جمہوری ریاست ہو تو وہ بھی اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرے مگر یہاں تو حکومت قبضہ مافیا بنی ہوئی ہیں، لاہور سے شروع ہوجائیں کراچی جا پہنچیں، جگہ جگہ ایسی بے شمار ہزاروں کہانیاں مل جائیں گی، اسی کہانیوں کی پسلی سے ملک میں قبضہ مافیا اور بڑے بڑے پراپرٹی ٹائیکون پیدا ہوئے ہیں، اس کا سد باب کون کرے گا؟ اب یہ بھی سن لیجیے، جس طرح ملک میں فارم سینتالیس کی حکومت ہے بالکل اسی طرح سیاسی جماعتوں میں بھی وہی لوگ اگلی صفوں پر ہیں جن کے ہاتھوں میں اپنی جماعت کی قیادت کی جانب سے تھمائے ہوئے فارم سینتالیس ہیں، آئیے ایک ایک سیاسی جماعت کا تجزیہ کرتے جائیں اور اگلی صفوں میں بیٹھے لوگوں کے چہرے دیکھتے چلے جائیں، ملک ہو یا سیاسی جماعتیں ہوں یا نجی، سرکاری ادارے، حتی کہ صحافتی ادارے بھی، بس ہر جگہ فارم سینتالیس کی ہی کہانیاں مل رہی ہیں، بس یہی سمجھ لیجیے جمہوریت ہے اور نہ جمہوریت میں کہیں عوام ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نہیں ہے قوم کے بھی اس

پڑھیں:

بجٹ متوازن، عوام دوست، حکومتی رہنما: مزدور کش، پی پی، جماعت اسلامی، مرکزی مسلم لیگ

لاہور (خصوصی نامہ نگار+ نامہ نگار) سپیکر پنجاب ملک محمد احمد خان نے کہا کہ موجودہ بجٹ نہ صرف معاشی سمت کا تعین کرتا ہے بلکہ یہ قومی ترقی، عوامی فلاح اور اقتصادی خود مختاری کے اہداف کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ بجٹ پاکستان کی معیشت کو گرداب سے نکال کر ترقی کے واضح راستے پر گامزن کرنے کی سنجیدہ کوشش ہے جس سے متوسط طبقے کو حقیقی ریلیف ملے گا۔ وفاقی بجٹ میں صحت، تعلیم، زراعت اور صنعتی ترقی کیلئے مختص وسائل موجودہ حکومت کے عوام دوست وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت نے معاشی بحالی کو محض  اعداد وشمار تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے ہیں۔ علاوہ ازیں  مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے وزیراعظم  شہباز شریف کو متوازن اور عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ مالی سال 26-2025ء کیلئے سترہ ہزار ارب روپے سے زائد کا عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے جس سے مہنگائی میں کمی۔ روزگار کے مواقع کی فراہمی۔ سماجی تحفظ کے نظام کو وسعت دینے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔ شہبازشیف حکومت نے وفاقی بجٹ میں دفاع کو سب سے بڑھ کر اہمیت دی ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کی دفاع کیلئے 2550 ارب روپے مختص کی تجویز قابل ستائش ہے۔ مسلح افواج  کے افسران اور جے سی اوز کیلئے سپیشل ریلیف الاؤنس دینے کی تجویز بھی ملک کے دفاع کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔ دریں اثناء نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سالانہ بجٹ نے حکومتی معاشی ناکامیوں کو بے نقاب کردیا ہے، ریاستی وسائل اور حکومتی طاقت سے جھوٹ پر مبنی تشہیری مہم معیشت کو بحال نہیں کرسکتا۔ حقائق سچائی ہوتے ہیں اور جھوٹی تشہیری مہم حکمرانوں کو ہی ننگا کردیتی ہے۔ قرض، سود، کرپشن، بدانتظامیوں کے ساتھ معیشت بحال نہیں کی جاسکتی۔ اقتصادی سروے سے واضح ہے کہ غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے گندم، چاول، گنا، کپاس، مکئی جیسی نقد فصلوں کی پیداوار میں گزشتہ سال کے دوران بڑی کمی ہوئی، کسان رْل گیا۔ مسلسل سیاسی بحران کی وجہ سے قومی سیاست و معیشت بے یقینی کا شکار رہے، جس کا براہ راست نقصان غریب عوام کو بھاری بھرکم ٹیکسز کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں پر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے تنخواہ دار غریب طبقہ سے ٹیکس وصولی کو ہی حکومتی ریونیو کا بڑا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس قیمتوں اور شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں ناروا، ہوشربا اضافے کے ذریعے خزانے کا منہ بھرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ علاوہ ازیں  پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے صدر خالد مسعود سندھو نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد ممکنہ اضافہ انتہائی کم، مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے، بجلی کے بلوں میں ٹیکسز ختم، اشرافیہ کی مراعات بند کی جائیں، بجٹ عوام دوست نہ ہوا تو مرکزی مسلم لیگ عوام کی آواز بنے گی۔ خالد مسعود سندھو کا کہنا تھاکہ بجٹ ہمیشہ عوام کی فلاح وبہبود کے لئے ہوتا ہے، ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا، اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھیں، یوٹیلٹی بلز کی وجہ سے شہری پریشان ہیں، وفاقی حکومت  بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دے، تنخواہوں میں  دس فیصد اضافہ کو مسترد کرتے ہیں، کم از کم تیس فیصد اضافہ کیا جائے، بجلی کے بلوں میں تمام ٹیکس ختم کیے جائیں اور ایک ہی ریٹ مقرر کیا جائے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور پیپلز لیبر بیورو پاکستان کے انچارج چوہدری منظور احمد نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس اور سات فیصد کے معمولی اضافے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک عوام دشمن اور مزدور کش بجٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے تنخواہ دار اور محنت کش طبقے کے تحفظات اور اعتراضات ہم پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے پیش کریں گے اور کوشش کریں گے کہ حکومت کا پیش کردہ فنانس بل موجودہ شکل میں پارلیمنٹ سے منظور نہ ہو۔ بجٹ میں محنت کش اور تنخواہ دار طبقے کی امنگوں اور پیپلز پارٹی کی تجاویز کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ای او بی آئی پنشن اور مزدور کی کم از کم اجرت میں بالکل کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ،نہ ہی محنت کش اور تنخواہ دار طبقے کیلئے کسی دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ پنشنر کی وفات کے بعد فیملی پنشن کو دس سال تک محدود رکھنے کی تجویزمضحکہ خیز ہے ، پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی فروخت کے منصوبے جاری رکھنا غیردانشمندانہ فیصلہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بجٹ تجاویز پر نظرثانی کی جائے، تنخواہوں اور پنشن میں کم از کم پچاس فیصد اضافہ کیا جائے اور تمام ایڈہاک الاؤنسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کیا جائے جیسا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر، سابق گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود،چیف کوآرڈینیٹر جنوبی پنجاب عبدالقادر شاہین اور میڈیا کوآرڈینیٹر محمد سلیم مغل نے وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ میں محنت کش اور تنخواہ دار طبقے کی امنگوں سے ہم آہنگ پیپلز پارٹی کی تجاویز اور مطالبات کو نظر انداز کئے جانے پر بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ صرف غریب طبقات کو مشکلات میں مبتلا کرنے کے مترادف، الفاظ کا ہیر پھیر ہے، جس میں عوامی ریلیف سے متعلق کسی چیز کا نام نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیکرٹری اطلاعات ندیم الرحمن کا ڈائریکٹوریٹ انفارمیشن حیدرآباد کا دورہ
  • بجٹ متوازن، عوام دوست، حکومتی رہنما: مزدور کش، پی پی، جماعت اسلامی، مرکزی مسلم لیگ
  • پی ٹی آئی نے وفاقی بجٹ یکسر مسترد کردیا، اشرافیہ نواز، عوام دشمن بجٹ قرار
  • پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر اضافی کاربن لیوی لگانے کی تجویز
  • حکومت کا درآمد شدہ ، سمگل گاڑیوں کو ضبط کرنے کا فیصلہ، بڑی خبر سب نیوز پر
  • یہ بجٹ عوام دوست نہیں عوام دشمن ہے، پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی کی حکومت پر تنقید
  • حکومت نے سارا ریلیف پارلیمنیٹرینز کو دیا جبکہ عام عوام کو کچھ نہیں ملا، بیرسٹر گوہر
  • بلاول بھٹو زرداری نے عالمی فورم پر پاکستان کا سچ پیش کیا، شازیہ مری
  • مودی نے گزشتہ 11 برسوں میں بھارت کی جمہوریت، معیشت اور سماجی تانے بانے کو تباہ کیا، کانگریس
  • افسوس ہے وزیراعلیٰ پنجاب کو گٹر کھلوانے کے لیے خود آنا پڑتا ہے، ترجمان سندھ حکومت