اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدلیہ، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو سب  زمین بوس ہو چکے ہیں، اب امیدیں صرف نوجوان نسل سے ہیں۔ عدالت عالیہ نے فیڈرل پبلک سروس کمشن کو سی ایس ایس  کے نتائج جاری کرنے سے پہلے نئے امتحانات سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں رہنا مستقل لڑائی ہے، 24 سے 25 کروڑ لوگ ہیں، لڑائی کرنے والے زیادہ اور بچنے والے کم ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدلیہ ریاست کا ستون ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریاست کا ستون عدلیہ تو ہوا میں ہی ہے، پھر بھی مایوس نہیں ہیں۔ مجھ سمیت 45 سال سے زائد عمر کے لوگ ناکارہ ہیں، نوجوانوں نے ہی اس ملک کے لیے کچھ کرنا ہے۔ دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے جسٹس محسن کیانی کے ریمارکس پر ردعمل میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پارلیمنٹ کا نام استعمال کیا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ اور جیوڈیشری کے بارے میں کہا ہے کہ یہ زمین بوس ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی پارلیمنٹ کے بارے میں بیان دینے کا حق نہیں رکھتا۔ مہربانی کر کے معزز جج تک یہ بات پہنچائی جائے کہ یہ پارلیمنٹ کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ سال 2014ء میں بھی یہ ڈرامہ ہوا تھا جو کہتے تھے جعلی پارلیمنٹ ہے، جب 2018ء کی پارلیمنٹ آئی تو جعلی نہیں تھی۔ 2013ء کی بھی جعلی تھی اور 2024ء کی بھی جعلی ہے۔ اس طرح سسٹم نہیں چلتا۔ میں یہ برداشت نہیں کروں گا، یہ اس پارلیمنٹ پر حملہ ہے۔ سپیکر ایاز صادق نے وفاقی وزیر قانون کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ جج کو یہ پیغام پہنچائیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر سوال اٹھا دیا
  • عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتائیں وہ کام کر رہا ہو جو اس کو کرنا چاہیے، جسٹس محسن اخترکیانی
  • مالدیپ کے سپیکر کی سربراہی میں وفد کی ایاز صادق سے ملاقات
  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز  ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہو گئے: جسٹس محسن کیانی
  • ایاز صادق کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے . جسٹس محسن اختر کیانی
  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے، جسٹس محسن کیانی
  • جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری کیس میں بڑی پیشرفت
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ