غیر ملکی شپنگ پر انحصار، پاکستان کو اربوں ڈالرز کا نقصان
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
غیر ملکی شپنگ کمپنیوں پر انحصار کی وجہ سے پاکستان فریٹ چارجز کی مد میں سالانہ 6 سے 8 ارب ڈالرز خرچ کرتا ہے، ملک کی واحد شپنگ کمپنی پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن صرف 12 پرانے جہاز چلاتی ہے جبکہ کمپنی کے پاس ایک بھی کارگو کنٹینر جہاز نہیں۔ غیر ملکی بحری جہازوں پر انحصار کی وجہ سے پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہو جاتا ہے، جس سے ملک کے معاشی چیلنجز بڑھ جاتے ہیں۔ وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق، میری ٹائم سیکٹر میں اصلاحات کیلئے قائم ٹاسک فورس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس رجحان کو تبدیل کرنے کیلئے پی این ایس سی نے کراچی شپ یارڈ میں مقامی طور پر پاکستان کے پہلے 1120 ٹوئنٹی ایکویولنٹ یونٹ (TEU) صلاحیت کے حامل کنٹینر جہاز کی تعمیر کیلئے ایک زبردست اقدام شروع کیا تھا اور اس منصوبے پر 24 ارب روپے خرچ ہونا تھے۔ اس طرح کی ساخت کے غیر ملکی جہاز کی لاگت 32 ارب روپے کے مقابلے میں مقامی پروجیکٹ بیحد سستا تھا تاہم، اس پروجیکٹ کو ایک سال قبل اچانک روک دیا گیا۔ اس تاخیر کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کا مقامی سطح پر استعداد بڑھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا موقع ضایع ہوا بلکہ اس کا نتیجہ آمدنی میں نمایاں حد تک نقصان اور پروجیکٹ کی لاگت میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن، اب اس پروجیکٹ ایک مرتبہ پھر بحال کر دیا گیا ہے جس سے ملک کے میری ٹائم سیکٹر میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، پی این ایس سی کے اس اقدام پر پہلے عمل ہو جاتا تو یہ مقامی جہاز سازی کی جانب ایک تاریخی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا، غیر ملکی شپنگ کمپنیوں پر پاکستان کا انحصار کم ہوتا جبکہ فریٹ چارجز کی مد میں بھی اربوں کی بچت ہوتی۔پروجیکٹ کیلئے ادائیگی کا ایک بڑا حصہ ملکی کرنسی (روپیہ) میں ہونا تھی، جس سے زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ میں کمی آتی لیکن پروجیکٹ پر عمل میں تاخیر سے نہ صرف آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ لاگت میں اضافے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اس سے ملک کے مالی شعبے پر دباؤ بڑھے گا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ کسی دور میں عالمی سطح پر صف اول کی صنعت سمجھی جانے والی پاکستان کی شپ بریکنگ انڈسٹری بھی ڈرامائی طور پر زوال پذیر ہے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ، جو 1980ء کی دہائی میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا یارڈ تھا، اب صرف 0.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: میری ٹائم سیکٹر پاکستان کا غیر ملکی کے مطابق گیا ہے
پڑھیں:
چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ
چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
بیجنگ :اگر آپ نے کبھی یہ سوچا ہو کہ چین کس طرح محض چند دہائیوں میں اتنی حیران کن ترقی اور تبدیلی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، تو ایک کلیدی لفظ شاید آپ کی الجھن دور کر دے یعنی “پانچ سالہ منصوبہ”۔ یہ سننے میں بظاہر سرکاری اور کچھ خشک سا لگ سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ چین کی طویل المدتی اور پائیدار ترقی کا ایک اہم “خفیہ ہتھیار” ہے۔سوچیے آپ ایک کپتان ہیں جو ایک بڑے بحری جہاز کو ایک وسیع مگر متغیر سمندر سے گزارنے جا رہے ہیں۔ اگر آپ کے ہاتھ میں ایک واضح طویل المدتی سفر کا نقشہ موجود ہو، جس میں آئندہ طویل عرصے کے لیے راستے، ہوا کی سمت اور سپلائی پوائنٹس نشان زد ہوں ، تو آپ کا سفر کتنا پُراعتماد اور محفوظ ہوگا۔ چین کا پانچ سالہ منصوبہ بالکل ایسا ہی ایک “سفری نقشہ” ہے: یہ قومی سطح پر مرتب کیا جاتا ہے، جس میں آئندہ پانچ برسوں کی ترقی کی سمت، اہم صنعتوں اور پالیسی ترجیحات کو واضح کیا جاتا ہے۔
کاروبار اور افراد کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اندھیرے میں تیر چلانے کی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ وہ پُر اعتماد طریقے سے طویل المدتی سرمایہ کاری، پیشہ کا انتخاب یا حتیٰ کہ اختراعی کوششیں کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر منصوبہ سبز توانائی پر زور دیتا ہے تو کاروباری ادارے جان لیں گے کہ انہیں شمسی توانائی یا برقی گاڑیوں کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔اور اگر منصوبہ سائنسی و تکنیکی جدت پر زور دیتا ہے تو نوجوان زیادہ رغبت سے سائنس و انجینئرنگ شعبے کا انتخاب کریں گے۔ یہ “بالائی سطح کی منصوبہ بندی + مارکیٹ ردعمل” کا ماڈل ہے جو پورے معاشرے کی غیر یقینی کیفیت کو نمایاں حد تک کم کر دیتا ہے۔مغربی سیاست میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قیادت کی تبدیلی پالیسیوں کے بڑے رخ کو بدل دیتی ہے، بالکل ایسے جیسے ایک فٹبال میچ میں بار بار کوچ کو بدل کر حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دیا جائے۔ لیکن چین کے پانچ سالہ منصوبے کی اصل منطق “ریلے ریس” جیسی ہے۔
ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت ایک ہی مقصد کی جانب مسلسل دوڑتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، چین کا ” انسداد غربت پروگرام” کئی دہائیوں پر محیط رہا، جو متعدد پانچ سالہ منصوبوں سے گزرا اور بالآخر تقریباً 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال چکا ہے ۔ آج بھی یہ ریلے ریس جاری ہے، جس کا نیا ہدف ہے “دیہی احیا”۔ قیادت چاہے کوئی بھی ہو، سمت تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہی عزم کمزور پڑتا ہے۔ یہ مستقل مزاجی “چینی طرز کے طویل المدتی نقطہ نظر” کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ یہ قلیل مدتی اور سطحی فیصلوں سے بچاتا ہے اور قومی حکمت عملیوں کے تسلسل اور استحکام کو یقینی بناتا ہے۔چین کا پانچ سالہ منصوبہ کوئی حکم نامہ نہیں بلکہ ایک حکمتِ عملی کی رہنمائی ہے۔ حکومت یہاں “اسٹیج تیار کرنے والے” اور “سمت دکھانے والے” کا کردار ادا کرتی ہے، جبکہ کاروبار اور مارکیٹ اسٹیج پر “رقص کرنے والے” ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، منصوبہ یہ ہدف رکھ سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی صنعت کو ترقی دی جائے، لیکن تحقیق کس طرح ہو یا تجارتی مواقع کیسے بنیں، اس کا فیصلہ مکمل طور پر کاروباری ادارے کرتے ہیں۔
حکومت پالیسی حمایت ، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور قانونی تحفظ فراہم کر کے اسٹیج مہیا کرتی ہے، جبکہ مارکیٹ مسابقت اور جدت کے ذریعے اصل کھیل پیش کرتی ہے۔ یہ “مؤثر مارکیٹ + فعال حکومت” کا امتزاج ہے، جو نہ تو ضرورت سے زیادہ مداخلت کا باعث بنتا ہے اور نہ ہی بالکل آزاد چھوڑ دینے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی “مارکیٹ افراتفری” کو جنم دیتا ہے۔چین کی آبادی 1.4 ارب ہے، جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد ہے۔ اتنے بڑے ملک کی طویل اور مستحکم ترقی کے لیے ایک ایسا نظام ناگزیر ہے جو اتفاقِ رائے پیدا کرے اور وسائل کو مربوط کرے۔ پانچ سالہ منصوبہ یہی ایک آلہ ہے: یہ کروڑوں افراد کی کوششوں کو ایک ہی سمت پر مرکوز کرتا ہے، بڑے کاموں کو انجام دینے کے لیے طاقت مرکوز کرتا ہے ، خواہ وہ ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک کی تعمیر ہو، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا ہو، یا عوامی صحت کے بحران سے نمٹنا ہو۔ بلاشبہ یہ ماڈل بے عیب نہیں ہے، لیکن یہ مغربی قلیل مدتی انتخابی نظام کے مقابلے میں حکمرانی کی ایک مختلف سوچ پیش کرتا ہے۔ آج کے غیر یقینی عالمی ماحول میں یہ طویل المدتی نقطۂ نظر شاید مزید ممالک کی توجہ کا مستحق ہے۔سال 2025 چین کے”چودہویں پانچ سالہ منصوبے” کے اختتام کا سال ہے۔
حال ہی میں، چینی صدر شی جن پھنگ نے “پندرہویں پانچ سالہ منصوبے”یعنی 2026 تا 2030 کی تشکیل کے کام کے حوالے سے اہم ہدایات جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ” سائنسی فیصلہ سازی، جمہوری فیصلہ سازی، قانونی فیصلہ سازی پر کاربند رہا جائے، بالائی سطح کی منصوبہ بندی اور عوام سے رائے لینے کو یکجا کیا جائے، اور مختلف طریقوں سے عوام اور معاشرے کے مختلف طبقات کی آراء اور تجاویز کو سنایا جائے۔” یہاں چینی رہنما نے جس “بالائی سطح کی منصوبہ بندی” اور “عوام سے مشورہ لینے” کے امتزاج پر زور دیا، وہ چین کے ترقیاتی منصوبہ بندی نظام کی نمایاں خصوصیت اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ نظام کی خوبیوں کی اہم عکاسی بھی ہے ۔چین کا پانچ سالہ منصوبہ محض ایک سرکاری دستاویز نہیں بلکہ ایک ترقیاتی فلسفہ ہے ،جو استحکام، تسلسل اور تعاون کو نمایاں کرتا ہے۔ جیسا کہ چینی کہاوت ہے:”قطرہ قطرہ پانی پتھر کو چھید دیتا ہے، مگر یہ ایک دن میں نہیں ہوتا۔” حقیقی کامیابیاں ہمیشہ طویل المدتی استقامت اور اجتماعی حکمت سے جنم لیتی ہیں۔ اگر آپ اس”چینی طرز کے طویل المدتی نقطۂ نظر” کو سمجھ لیں، تو آپ نہ صرف چین کی ترقیاتی کہانی کو گہرائی سے سمجھ سکیں گے بلکہ اس میں پوری انسانیت کی مشترکہ ترقی اور پیش رفت کے لیے بھی ایک سبق تلاش کر سکتے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچودہویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریخی کامیابیاں چودہویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریخی کامیابیاں آئی ایم ایف وفد کے دورہ پاکستان سے قبل 51 شرائط پوری، دیگر پر کام جاری سونے کی قیمت میں بڑی کمی، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟ بائیسویں چین-آسیان ایکسپو میں چین کے نائب صدر کی شرکت سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی چین کی غذائی پیداوار چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران نئی بلندی پر پہنچ گئیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم