میوزیم آئے شخص نے 6 ملین ڈالرز مالیت کا فن پارہ محض کیلا سمجھ کر کھالیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
فرانسیسی شہر میٹز کے معروف سنٹر پومپیدو میوزیم میں اطالوی آرٹسٹ موریزیو کیٹیلان کے مشہور آرٹ ورک ‘کومیڈین’ میں شامل کیلا ایک مرتبہ پھر ایک وزیٹر نے کھا لیا۔
میوزیم کی جانب سے پیر کو جاری کردہ بیان کے مطابق واقعہ کے فوراً بعد سیکیورٹی ٹیم نے بروقت کارروائی کی اور چند منٹ کے اندر فن پارے میں دوبارہ ایک اور کیلا نصب کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: ’یہ ہاتھ مجھ کو دیدے ٹھاکر‘ اسلام آباد میں نصب فن پارہ سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا
بیان میں کہا گیا کہ کیلا صرف ایک عارضی عنصر ہے، جسے باقاعدگی سے آرٹسٹ کی ہدایات کے مطابق بدلا جاتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ ‘کومیڈین’ نامی اس قیمتی فن پارے کو کھایا گیا ہو۔ 2019 میں جب یہ آرٹ ورک پہلی بار پیش کیا گیا تو ایک پرفارمنس آرٹسٹ ڈیوڈ داتونا نے اسے دیوار سے اتار کر سب کے سامنے کھا لیا۔
اس واقعے کے بعد یہ آرٹ ورک وائرل ہو گیا اور اس کی قیمت دوسرے کیلے کے ساتھ 1 لاکھ 20 ہزار ڈالر میں ادا کی گئی۔
2023 میں جنوبی کوریا کے لیوم میوزیم آف آرٹ میں ایک طالبعلم نے بھی یہی حرکت دہرائی اور کیلا کھا لیا۔
نومبر 2024 میں، چینی کرپٹو پلیٹ فارم کے بانی جسٹن سن نے ‘کومیڈین’ کو نیلامی میں 6.
یہ بھی پڑھیے: جنیوا: پکاسو کے قدیم منفرد فن پارے توقعات سے زیادہ قیمت پر نیلام
حالیہ واقعے کے بعد سنٹر پومپیدو میوزیم نے ہنستے ہوئے کہا ہے کہ یہ شاید پچھلے 30 سالوں کا سب سے زیادہ کھایا گیا آرٹ ورک ہے۔
اس واقعے پر میوزیم کی طرف سے پولیس میں کسی قسم کی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے۔
‘کامیڈین’ نامی کیلے والا فن پارہ، جسے اطالوی فنکار ماوریزیو کیٹیلان نے تخلیق کیا، ایک سادہ کیلے کو دیوار پر ٹیپ کر کے پیش کرتا ہے۔ یہ فن پارہ بظاہر مضحکہ خیز لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ جدید آرٹ، صارفیت، اور فن کی قیمت پر طنز کرتا ہے۔ اس میں ایک عام شے کو فن بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ یہ سوال اٹھایا جا سکے کہ فن کی اصل قدر کیا ہے، تخلیق، خیال یا قیمت؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹ عجائب خانہ فن پارہ کمیڈین کیلا میوزیمذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فن پارہ کمیڈین کیلا میوزیم فن پارہ
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
کراچی:ماہرین معدنیات کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
بدھ کو "پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع" کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں معدنی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کے شعبہ کان کنی کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے لکی سیمنٹ، لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کان کنی کا شعبے پر توجہ دی جارہی ہے۔ شعبہ کان کنی کی ترقی سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ناصرف خوشحالی لائی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف چاغی میں سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین کے ذخائر موجود ہیں۔ کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کان کنی کے صرف چند منصوبے کامیاب ہوجائیں تو معدنی ذخائر کی تلاش کے لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے قطاریں لگ جائیں گی۔
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت دھاتوں کی بے پناہ طلب ہے لیکن اس شعبے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سونے اور تانبے کی ٹیتھان کی بیلٹ ترکی، افغانستان، ایران سے ہوتی ہوئی پاکستان آتی ہے۔
شمس الدین نے کہا کہ ریکوڈک میں 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تانبا اور سونا موجود ہے۔ پاکستان معدنیات کے شعبے سے فی الوقت صرف 2ارب ڈالر کما رہا ہے تاہم سال 2030 تک پاکستان کی معدنی و کان کنی سے آمدنی کا حجم بڑھکر 6 سے 8ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شعبہ کان کنی میں مقامی وغیرملکی کمپنیوں کی دلچسپی دیکھی جارہی ہے، اس شعبے میں مقامی سرمایہ کاروں کو زیادہ دلچسپی لینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ 10سال بعد حاصل ہوتا ہے۔
فیڈیںلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔