چاہت فتح علی خان کا اپنی اکیڈمی کھولنے کا اعلان،گلوکاری کے ساتھ ایکٹنگ بھی سکھائیں گے۔
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
مزاحیہ انداز میں گلوکاری کرکے سوشل میڈیا پر شہرت پانے والے چاہت فتح علی خان نے اپنی میوزک اکیڈمی بنانیکا اعلان کردیا۔چاہت فتح علی خان حال ہی میں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے میزبان اور حاضرین کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے دلچسپ جوابات دیے۔اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں چاہت فتح علی خان نے بتایا کہ وہ عنقریب لاہور میں چاہت فتح علی خان اکیڈمی کھولنے جارہے ہیں جہاں گلوکاری کے ساتھ ایکٹنگ بھی سکھائی جائیگی۔اسی شو میں میزبان کی جانب سے سوال پوچھا گیا کہ آپ خود کو سنگل کہتے ہیں کس لڑکی سے شادی کریں گے؟ اس کے جواب میں چاہت فتح نے کہا کہ میں آپ جیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور پچھلے ایک سال سے آپ کے پیچھے پڑا ہوں۔خیال رہے کہ چاہت فتح علی خان نور جہاں کے مشہور گانے بدو بدی کا ریمیک بنانے کے بعد سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے، وہ اکثر اپنے گانوں کی وجہ سے تنقیدکی زد میں رہتے ہیں تاہم ان کی مزاحیہ انداز کے باعث ان کے کافی سارے لوگ مداح بھی ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: چاہت فتح علی خان
پڑھیں:
سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے.
سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز
تحریر: سیدہ زہرہ فاطمہ
ہم ایک ایسے زمانے میں سانس لے رہے ہیں جہاں انسان کی پہچان اور وجود کا بڑا حصہ اب ڈیجیٹل دنیا سے جڑ چکا ہے۔ آج کسی کی کامیابی، رشتے، احساسات اور حتیٰ کہ خوشی کا پیمانہ بھی سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں سے طے ہونے لگا ہے۔ یہ پلیٹ فارم، جو کبھی رابطے اور اظہار کا ذریعہ تھے، اب ایک ایسے آئینے میں بدل گئے ہیں جہاں ہم اپنی اور دوسروں کی عکاسی تلاش کرتے ہیں مگر اکثر وہ عکس حقیقت سے بہت مختلف ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کی دنیا بظاہر رنگوں اور خوشیوں سے بھری ہوئی لگتی ہے۔ ہر تصویر کے پیچھے ایک کہانی چھپی ہوتی ہے، لیکن دیکھنے والا صرف وہی دیکھتا ہے جو اسے دکھایا جاتا ہے۔ لوگ اپنی زندگی کے حسین لمحے، کامیابیاں، اور خوشیاں شیئر کرتے ہیں، مگر ان لمحوں کے پیچھے کی جدوجہد، دکھ، اور ناکامیاں کہیں کھو جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا میں صرف کامیاب اور خوش لوگ ہی بستے ہیں۔ یہی فریب، آہستہ آہستہ انسان کے احساسِ خودی کو بدلنے لگتا ہے۔
انسان ایک ایسا مخلوق ہے جو اپنی قدر دوسروں کی رائے سے جڑنے لگے تو اندر سے کمزور ہو جاتا ہے۔ لائکس، کمنٹس، اور فالوورز کی گنتی ہمارے اندر ایک خاموش مقابلے کو جنم دیتی ہے۔ ہم اپنی تصویر اس طرح بناتے ہیں کہ دنیا متاثر ہو، مگر اس دوران ہم اپنی اصل شخصیت کھو دیتے ہیں۔ خودی، جو علامہ اقبال کے فلسفے میں انسان کی اصل طاقت ہے، اب ورچوئل تالیوں کی محتاج بن گئی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سوشل میڈیا ہماری زندگی کا حصہ نہیں رہتا بلکہ ہمارا پیمانہ بن جاتا ہے۔
ہم نے اپنی مسکراہٹیں تصویروں کے فلٹرز میں قید کر دی ہیں، اپنی باتوں کو لائکس کے حساب میں تولنا شروع کر دیا ہے، اور اپنی خاموشیوں کو اسٹوری میں بدل دیا ہے۔ ہم جیتے کم ہیں، دکھاتے زیادہ ہیں۔ یہی دکھاوا ایک ایسی تھکن پیدا کرتا ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہر نوٹیفکیشن، ہر تبصرہ، ہر ویو ہمیں وقتی خوشی تو دیتا ہے مگر اندر ایک خلا چھوڑ جاتا ہے۔ ہم جتنا دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی خود سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
مگر اس کہانی کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ سوشل میڈیا اپنی اصل میں غلط نہیں ہے۔ یہ علم، آگاہی، تعلق اور اظہار کا طاقتور ذریعہ ہے۔ اس نے عام انسان کو آواز دی ہے، نئے خیالات کو جنم دیا ہے، اور معاشرتی مسائل پر بات کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ لیکن مسئلہ اس کے استعمال میں ہے۔ جب انسان اس پلیٹ فارم کو اپنے وجود کا مرکز بنا لیتا ہے تو وہ اپنی آزادی کھو دیتا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو استعمال کریں، مگر اسے خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی قدر دوسروں کی نظروں سے نہیں، اپنے اعمال سے طے کریں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی اپنی خوشی کے مالک ہیں یا کسی الگورتھم کے؟ کیا ہم اپنی شناخت خود بناتے ہیں یا اسے دوسروں کے تبصروں کے حوالے کر دیتے ہیں؟ خودی کی اصل یہی ہے کہ انسان اپنے فیصلے، اپنی رائے، اور اپنے جذبات کا مالک خود ہو۔
کبھی کبھار سوشل میڈیا سے فاصلہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک دن کے لیے فون بند کر کے خود سے بات کیجیے۔ اپنی زندگی کے لمحے بغیر کسی تصویر یا پوسٹ کے ججیے۔ فطرت کے ساتھ وقت گزاریے، کتاب پڑھئیے، یا کسی قریبی شخص سے دل کی بات کیجیے۔ آپ محسوس کریں گے کہ حقیقی سکون اب بھی حقیقی دنیا میں موجود ہے، بس ہم نے اس کی آواز سننا چھوڑ دی ہے۔
سوشل میڈیا نے انسان کو ایک نیا زمانہ دیا ہے، مگر اس کے ساتھ ایک نیا امتحان بھی۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ اپنی خودی کو ڈیجیٹل تالیاں بجانے والوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ اپنی کامیابی کو پوسٹ سے نہیں، احساس سے ناپیں۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے فریم میں فٹ کرنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ اپنے راستے پر سچائی سے چلیں۔
خودی ایک روشنی ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ یہ روشنی تب تک زندہ رہتی ہے جب تک ہم اسے دوسروں کی نظروں سے نہیں ناپتے۔ سوشل میڈیا کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، مگر محور نہ بنائیں۔ کیونکہ زندگی کی اصل خوبصورتی وہ ہے جو کیمرے کے سامنے نہیں، دل کے اندر بسی ہوتی ہے۔
اصل آزادی یہ ہے کہ آپ اپنی پہچان خود بنائیں، چاہے دنیا جانے یا نہ جانے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کن مرحلہ، پیپلزپارٹی کی بڑی بیٹھک آج ہوگی کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم