چاہت فتح علی خان کا اپنی اکیڈمی کھولنے کا اعلان،گلوکاری کے ساتھ ایکٹنگ بھی سکھائیں گے۔
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
مزاحیہ انداز میں گلوکاری کرکے سوشل میڈیا پر شہرت پانے والے چاہت فتح علی خان نے اپنی میوزک اکیڈمی بنانیکا اعلان کردیا۔چاہت فتح علی خان حال ہی میں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے میزبان اور حاضرین کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے دلچسپ جوابات دیے۔اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں چاہت فتح علی خان نے بتایا کہ وہ عنقریب لاہور میں چاہت فتح علی خان اکیڈمی کھولنے جارہے ہیں جہاں گلوکاری کے ساتھ ایکٹنگ بھی سکھائی جائیگی۔اسی شو میں میزبان کی جانب سے سوال پوچھا گیا کہ آپ خود کو سنگل کہتے ہیں کس لڑکی سے شادی کریں گے؟ اس کے جواب میں چاہت فتح نے کہا کہ میں آپ جیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور پچھلے ایک سال سے آپ کے پیچھے پڑا ہوں۔خیال رہے کہ چاہت فتح علی خان نور جہاں کے مشہور گانے بدو بدی کا ریمیک بنانے کے بعد سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے، وہ اکثر اپنے گانوں کی وجہ سے تنقیدکی زد میں رہتے ہیں تاہم ان کی مزاحیہ انداز کے باعث ان کے کافی سارے لوگ مداح بھی ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: چاہت فتح علی خان
پڑھیں:
کربلا کا ابلاغ
اسلام ٹائمز: مشی پر پابندی درحقیقت تحریک کربلا کے اثرات کو روکنا ہے۔ وجہ یہ کہ بعض لوگ تحریک کربلا کو روز بروز پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے لوگوں کو خبر ہونی چاہیئے کہ کل تک جو ناگفتنی تھا آج گفتنی ہوگیا ہے۔ کل تک تحقیق و تنقید کے جن راستوں سے لوگوں کو ناآشنا رکھا گیا تھا آج وہ راستے ہر خاص و عام کی گزرگاہ ہیں۔ سچ کی ایک اپنی طاقت ہوتی ہے جو اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ سچ جب اپنی بندش سے آزاد ہوتا ہے تو ہواٸیں اسے اپنا شانہ فراہم کرتی ہیں۔ آپ مشی کرتے ہوئے انسانوں کو ناکے لگا کر روک سکتے ہیں لیکن سچائی کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہیں کر سکتے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
یزید اگر اپنی جنگ کو امام حسینؑ اور ان کے اصحاب و انصار کو شہید کرنے تک ہی محدود رکھتا تو شاید یہ خونِ شہیداں، رزقِ خاکِ کربلا ہو جاتا اور اس وقت کی ریاستی پروپیگنڈہ مشینری نواسہ رسولؑ کو عوام کے سامنے ایک باغی کی حیثیت سے متعارف کرانے میں کامیاب ہو جاتی اور یوں یہ خونِ ناحق کسی بڑی تحریک کا پیش خیمہ نہ بنتا لیکن یہاں یزید ایک بہت بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھا اور وہ صحرائے کربلا جس کی پہچان محض اس کی گرم ریت تھی ایک تحریک کربلا کا نقطہ آغاز بن گیا۔ یزید نے اپنے خلاف ایک بغاوت کو کچلنے کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے یہ کیا کہ کربلا کے اسیروں کو شہر شہر اور گلی گلی گھمانے کا اہتمام کیا تاکہ وہ بظاہر اس شکست خوردہ قافلے کو اپنی ”فتح“ کے ثبوت کے طور پر اپنی عوام کے سامنے پیش کرے لیکن یزید کو اپنی بظاہر کامیابی کو مشتہر کرنے کا یہ انداز خود اس کے قبیح جراٸم کی تشہیر کا سبب بن گیا۔
اس زمانے میں آج کا سوشل میڈیا نہیں تھا جو کربلا میں پیش آنے والی صورت حال کو من و عن لوگوں تک براہِ راست پہنچا سکتا لیکن یزید کے اس اقدام نے کربلا میں پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات کو کوفہ و شام کی گلیوں اور بازاروں تک پہنچا دیا۔ نتیجے میں ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے قصر یزیدی کے درودیوار کو ہلا کر رکھ دیا اور حسینیت کے عنوان سے تادم قیامت ہر حقیقی جدوجہد کا پیش خیمہ بن گٸی۔ گویا یزید نے اپنی کج فہمی کی بنا پر تہی دست کاروان حسینی کی قافلہ سالار دختر حیدر کرارؑ کے ہاتھوں میں ذراٸع ابلاغ کا ہتھیار دے دیا جس نے جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کر دیا۔ یہاں ہمیں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے کردار کی اصل اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
جس انقلاب کی بنیاد کربلا میں پڑی
اس انقلاب کو پھیلا دیا ہے زینبؑ نے
یزیدیت کے مراکز جہاں جہاں تھے وہاں
علم حسینؑ کا لہرا دیا ہے زینبؑ نے
جب صدام حسین نے شہید باقر الصدر کو شہید کرنے کے بعد ان کی ہمشیرہ سیدہ بنت الہدیٰ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو کسی نے اس سے کہا کہ انہیں کیوں قتل کرنا چاہتے ہو تو جواب میں صدام حسین نے کہا کہ میں وہ غلطی نہیں کروں گا جو یزید نے کی تھی کہ امام حسینؑ کو تو قتل کر دیا لیکن ان کی ہمشیرہ کو چھوڑ دیا جس نے اس کی فتح کو شکست میں بدل دیا لیکن صدام سیدہ بنت الہدیٰ کو شہید کرکے غلطی ہی تو کر گیا۔ اس نے یزید بن معاویہ سے ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن جس تحریک کو وہ کچلنا چاہتا تھا وہ زیر زمین ایک حرکت سے شروع ہو کر ایک انقلاب کی صورت اختیار کر گئی۔
کل تک جس عراق میں محرم کے جلوسوں پر پابندی عائد تھی، آج اسی عراق میں سیدالشہداء علیہ السلام کے حرم تک کروڑوں انسان ”مشی“ کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ آج حرم امام حسین علیہ السلام تک باپیادہ جانا ہر عزادار کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ پاکستان میں جو لوگ عراق نہیں جا سکتے وہ بعض مخصوص علاقوں میں اربعین کے ایام میں کچھ فاصلہ پیدل چل کر امام عالی مقام سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ اس عمل کو اپنے عقیدے کی شکست سمجھتے ہیں اور ہر سال حکومت پر دباؤ ڈال کر مشی کی رسم پر پابندی لگوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس بار بھی احتیاط کو واجب سمجھتے ہوئے ابھی سے مشی پر پابندی عائد کردی ہے۔ گویا یہ مسئلہ ان کے نزدیک بھارت کی آئندہ ممکنہ جارحیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
مشی پر پابندی درحقیقت تحریک کربلا کے اثرات کو روکنا ہے۔ وجہ یہ کہ بعض لوگ تحریک کربلا کو روز بروز پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے لوگوں کو خبر ہونی چاہیئے کہ کل تک جو ناگفتنی تھا آج گفتنی ہوگیا ہے۔ کل تک تحقیق و تنقید کے جن راستوں سے لوگوں کو ناآشنا رکھا گیا تھا آج وہ راستے ہر خاص و عام کی گزرگاہ ہیں۔ سچ کی ایک اپنی طاقت ہوتی ہے جو اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ سچ جب اپنی بندش سے آزاد ہوتا ہے تو ہواٸیں اسے اپنا شانہ فراہم کرتی ہیں۔ آپ مشی کرتے ہوئے انسانوں کو ناکے لگا کر روک سکتے ہیں لیکن سچائی کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہیں کر سکتے۔