حکومت کا اس سال کے وسط تک ملک میں فائیو جی سروس لانچ کرنے کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 فروری 2025ء ) ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی پر حکومت نے فائیو جی کے جلد آغاز کا عندیہ دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی کے معاملے پر بحث ہوئی جہاں پارلیمانی سیکرٹری برائے آئی ٹی سبین غوری نے کہا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی کئی وجوہات ہیں جن پر حکومت کام کر رہی ہے، اس سال کے وسط تک انٹرنیٹ کی رفتار میں بہتری آجائے گی اور فائیو جی سروس بھی لانچ کر دی جائے گی۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے کہا کہ ’انٹرنیٹ کی اتنی ناقص صورتحال ہے کہ کوئی ویڈیو ڈاؤن لوڈ نہیں ہوتی کیوں کہ انٹرنیٹ تو چلتا ہی نہیں‘ اسی طرح پیپلز پارٹی ہی کی ایک اور رکن شگفتہ جمانی نے کہا کہ ’بلاول بھٹو زرداری نے درست کہا تھا کہ پتا نہیں کون سی مچھلی ہے جو صرف پاکستان کی ہی کیبل کھا جاتی ہے،‘ اس پر پارلیمانی سیکرٹری سبین غوری نے جواب دیا کہ ’کوئی نہ کوئی مچھلی تو ہے جو انٹرنیٹ کیبل کاٹ جاتی ہے مگر وہ کون سی مچھلی ہے یہ ہمیں بھی معلوم نہیں‘۔(جاری ہے)
اسی معاملے پر وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ کہہ چکی ہیں کہ ’دنیا کی سب سے بڑی سب میرین کیبل پاکستان آچکی جس سے امید ہے انٹرنیٹ کا مسئلہ جلد حل ہوجائے گا، پی ٹی اے انٹرنیٹ کی سپیڈ کو دیکھتا ہے، پی ٹی اے نے ملک میں دو سال میں اپنی فریکوئنسی کو ڈبل کیا ہے، پانچ ماہ کے دوران آئی ٹی ایکسپورٹ میں 33 فیصد اضافہ ہوا، یہ واحد انڈسٹری ہے جس نے ٹریڈ سرپلس بھی شو کیا، پاکستان میں انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد میں 25 فیصد ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’موبائل براڈبینڈ پر زیادہ ترمسائل ہوئے ہیں، ہم انٹرنیٹ سے متعلق کاروباروں کے ساتھ رابطے میں ہیں، پاشا نے تین کمپنیوں کا بتایا جہاں پوارا پاکستان 274 میگاہرٹز پر کام کررہا ہے، 8 سب میرین کیبلز ہیں جن میں سے ایک اپنی زندگی پوری کرچکی ہے، دنیا کی سب سے بڑی سب میرین کیبل پاکستان آچکی ہے اس سے امید ہے انٹرنیٹ کا مسئلہ جلد حل ہوجائے گا‘۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انٹرنیٹ کی ملک میں
پڑھیں:
اکنامک سروے آف پاکستان
آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے بجٹ آچکا ہوگا۔اس وقت میرے سامنے اکنامک سروے آف پاکستان ہے۔اس میںبتایا گیا ہے کہ زراعت کی کارکردگی سب سے بری رہی ہے۔ تمام بڑی فصلوں کی کارکردگی بری رہی ہے۔ اس میں گندم چاول کپاس سب شامل ہیں۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ حکومت نے کسان سے گندم نہیں خریدی اسی لیے زراعت میں بہت نقصان ہوا ہے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ چلیں گندم کانقصان مان لیتے ہیں کہ حکومت نے نہیں خریدی ۔ لیکن کپاس کیوں نیچے گئی ہے؟ چاول کو کیا ہوا ہے؟ اس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ زراعت کی بری کارکردگی کے ساتھ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
اعداد و شمار کے مطابق زرعی شعبے کی گروتھ 0.56 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 2 فیصد تھا، اہم فصلوں کی گروتھ منفی 13.49 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف منفی 4.5 فیصد تھا، دیگر فصلوں کی گروتھ 4.78 فیصد ریکارڈ ہوئی جب کہ ہدف 4.3 فیصد تھا۔ کاٹن جیننگ کی گروتھ منفی 19 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف منفی 2.3 فیصد مقرر تھا، لائیو اسٹاک شعبے کی شرح افزائش 4.72 فیصد جب کہ ہدف 3.8 فیصد تھا۔منفی گروتھ ہی ساری کہانی بتا رہی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ زراعت کی بری کارکردگی کا ذمے دار کون ہے۔ کیا وفاقی حکومت اس کی ذمے دار ہے۔ کیونکہ یہ بری کارکردگی وفاقی حکومت کے اکنامک سروے میں سامنے آئی ہے اس لیے ملبہ بھی سارا وفاقی حکومت پر گر رہا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد زراعت کا شعبہ اب وفاقی حکومت کے پاس نہیں ہے۔
زارعت ایک صوبائی محکمہ ہے۔ اس لیے اگر زراعت کی کارکردگی بری رہی ہے تو یہ صوبائی حکومتوں کی نااہلی سمجھی جائے۔ صوبوں کو اس کا جواب دینا چاہیے۔وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرنا چاہیے۔ ہم وفاق کو تو ہر سطح پر قابل احتساب ٹھہراتے ہیں۔ لیکن صوبے احتساب کے عمل سے مبرا ہیں۔ وفاقی بجٹ کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہے۔ جب کہ صوبائی بجٹ بالکل نظر انداذکر دیے جاتے ہیں۔
اسی طرح بڑی صنعتوں کی کارکردگی بھی بری رہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صنعت کے شعبہ کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ اب جس ملک میں زراعت اور صنعت کا شعبہ ہی ترقی نہ کرے وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ اس لیے صنعتی شعبہ میں اعدادو شمار کے مطابق رواں مالی سال معیشت کی عبوری شرح نمو 2.68 فیصد رہی جب کہ ہدف 3.6 فیصد تھا، رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 39 ارب 30 کروڑ ڈالر بڑھا، معیشت کا حجم 410 ارب 96 کروڑ ڈالر رہا، گزشتہ مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 371 ارب 66 کروڑ ڈالر تھا۔شرح نمو جب تک چھہ فیصد تک نہیں پہنچے گی ترقی ممکن نہیں۔ یہ کوئی نا ممکن بات نہیں ہے۔ 2017میں ہم چھہ فیصد سے ترقی کر رہے تھے۔ لیکن پھر سب کچھ تباہ ہو گیا۔ اس کے بعد ہم نیچے اور نیچے ہی جاتے گئے۔ اور یہ سفر ابھی رکا نہیں۔
اکنامک سروے کے مطابق رواں مالی سال فی کس سالانہ آمدن 144 ڈالر بڑھی جب کہ سالانہ آمدن 1680 ڈالر رہی تھی، ملکی معیشت کا حجم 9600 ارب روپے بڑھا، رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 114.7 ہزار ارب روپے رہا، گزشتہ سال پاکستان کی معیشت کا حجم 105.1 ہزار ارب روپے تھا۔
ملک میں جنگلات کی گروتھ بھی بہت کم رہی ہے۔ پاکستان ویسے موسمیا تی ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ ہمیں اپنے جنگلات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ تا ہم اس سال جنگلات کی گروتھ 3.03 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.2 فیصد تھا، ماہی گیری کے شعبے کی شرح نمو 1.42 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف3.1 فیصد تھا۔اب آپ دیکھیں ہمارے پاس سمندر ہیں۔ دریا ہیںلیکن ہماری ماہی گیری کی صنعتپسماندہ ہے۔ اس شعبہ میں بھی بہت جدت لانے کی ضرورت ہے۔ ہماراماہی گیر ابھی بھی پرانے طریقے ہی استعمال کر رہا ہے۔
اکنامک سروے میں بتایا گیا ہے کہ پیداواری شعبے کی گروتھ 1.34 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.4 فیصد تھا، بڑی صنعتوں کی گروتھ منفی 1.53 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد تھا، چھوٹی صنعتوں کی گروتھ 8.81 فیصد ریکارڈ کی گئی جب کہ گروتھ کا ہدف 8.2 فیصد تھا، سلاٹرنگ (مذبح خانوں)کی گروتھ 6.34 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.8 فیصد تھا، تعمیرات کے شعبے کی شرح نمو 6.61 فیصد رہی جب کہ ہدف 5.5 فیصد مقرر تھا، خدمات کے شعبے کی گروتھ 2.91 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.1 فیصد ہدف مقرر تھا۔
ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کی گروتھ 0.14 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.1 فیصد مقرر تھا، ہوٹلز اینڈ ریسٹورینٹس کی گروتھ 4.06 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.1 فیصد تھا، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن کی گروتھ 6.48 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 5.7 فیصد مقرر تھا، فنانشل اور انشورنش سرگرمیوں کی گروتھ 5.7 فیصد رہی جو ہدف کے مقابلے میں 3.22 فیصد رہی۔
رئیل اسٹیٹ سرگرمیوں کی گروتھ3.75 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.7 فیصد تھا، تعلیم کے شعبے کی گروتھ 3.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 4.43 فیصد رہی، انسانی صحت اور سوشل ورک سرگرمیوں کی گروتھ 3.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 3.71 فیصد رہی، ٹرانسپورٹ اسٹوریج اینڈ کمیونیکیشنز کی گروتھ 3.3 فیصد ہدف کے بر عکس 2.2 فیصد رہی، پبلک ایڈمنسٹریشن اور سوشل سیکیورٹی کے شعبے کی گروتھ 3.4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 9.92 فیصد رہی۔