فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے، میڈیکل کور بھی ہوتی ہے، کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے؟جسٹس حسن رضوی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس حسن رضوی نے کہاکہ فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے، میڈیکل کور بھی ہوتی ہے،دونوں کور میں ماہر انجینئرز اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں،کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے؟
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ سماعت کررہا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے،جسٹس امین الدین نے کہاکہ ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہو گی،ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ملزم کا ملٹری ٹرائل ہو تو دوسرا ملزم الگ کردیا جائے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ الزام لگا کر فیئر ٹرائل سےمحروم کردینا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے ،مجھے ایک بہت بڑا ملزم بنا دیا گیا ہے،مجھ پر رینجرز اہلکاروں کے قتل کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر سازش کاالزام ہے،اگرقانون کی شقیں بحال ہوتی ہے تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپ کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشتگردی کے سیکشن لگے ہوں گے،جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ کیا آپ کی ملٹری کسٹڈی مانگی گئی ہے؟سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میرے کیس کو چھوڑیں، نظام ایسا ہے کہ الزام لگا کر ملٹری ٹرائل کی طرف لے جاؤ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آپ مفروضوں پر نہ جائیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کریں گے،عام مقدمے میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑاجاتا ہے،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پرانان قانون صرف جاسوسی کے خلاف تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کئے گئے۔
9مئی کو حد کردی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آ گئے ہیں؛ جسٹس مسرت ہلالی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے کہاکہ ا فوج میں ہوتی ہے کور بھی
پڑھیں:
نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیس،کمپنی کے نمائندے آئندہ سماعت پر طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(صباح نیوز) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میںنئی گاج ڈیم کی تعمیر کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ 2011سے کام شروع ہے کیوں مکمل نہیں ہوپارہا۔ کنٹریکٹر ڈیفالٹ کرتا جارہاہے اور رقم بڑھاتے جارہے ہیں، تین سال پورے ہونے پر نوٹس دیتے، بلیک لسٹ قراردیتے اورکنٹریکٹ کالعدم قرار
دیتے۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ 22نومبر2024کی سند ھ حکومت کی رپورٹ ہے اس سے لگتا ہے کہ ڈیم کبھی بھی نہیں بن سکے گا، لوگ وہاں رہ رہے ہیں، ڈیم بنانے کی نیت نہیں، پیسہ ضائع ہوگیا ہوگا۔ جو مسائل ہیں وہ 50سال میں بھی حل نہیں ہوسکیں گے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ پیسہ کھاگئے ہوں گے۔ اگر کنٹریکٹر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا توواپڈا نے کیا اقدام کرناتھا۔ کام کیوں نہیں کرواتے کیوں تاخیر کررہے ہیں۔ جبکہ بینچ نے ڈیم تعمیر کرنے والی کمپنی کے نمائندے کوآئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے سندھ کے ضلع دادو میں نئی گاج ڈیم کی تعمیر کے معاملے پرلیے گئے ازخودنوٹس اور متفرق درخواستوں پرسماعت کی۔ واپڈاکی جانب سے سلمان منصور بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ ڈیم تعمیر کرنے والی کمپنی کے وکیل بینچ کے سامنے پیش نہ ہوئے۔