سارک کا احیا، جنوبی ایشیاء میں امن اور ترقی کی کنجی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون میں حالیہ برسوں میں پیشرفت سے نہ صرف جنوبی ایشیاء میں طاقت کاتوازن بدل کر متاثرکرسکتاہے بلکہ انڈیاکے لئے بھی یہ ایک اہم تشویش کاباعث بن گیا ہے۔ تاریخی،سیاسی،اورجغرافیائی حقائق کی بنیاد پر 54سال کے بعداس خطے میں پاک بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے تعاون سے آخروہ کون سے عوامل اور وجوہات ہیں جس نے انڈیاکوتشویش میں مبتلاکردیاہے اورانڈین میڈیا شب وروزواویلا کررہاہے۔انڈین نیوزویب سائٹ ’’فرسٹ پوسٹ‘‘پرچھپنے والی ایک خبرکی سرخی ’’انڈیا کے لئے باعثِ تشویش،1971ء کے بعدپاکستانی فوج کی پہلی مرتبہ بنگلہ دیش واپسی‘‘اورایسی دیگرمتعدد خبریں اور تجزئیے انڈین میڈیاپر گزشتہ کئی دن سے چھاپے اور نشر کئے جارہے ہیں۔
 انڈین وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہاہے پریس اورسوشل میڈیاپر گردش کرتی خبریں غلط ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنگلہ دیش کے دورے پر آئے تھے۔انڈین میڈیامیں ایسی ’’تشویش‘‘ بھری خبروں نے اس وقت زورپکڑاجب رواں مہینے بنگلہ دیشی فوج کا ایک وفدپرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کی قیادت میں پاکستان پہنچا اور ان کی پاکستان میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس دورے کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے وفدنے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشادمرزااورپاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل ظہیراحمدبابرسندھوسے بھی ملاقات کی تھیں۔
 پاکستان اوربنگلہ دیش کے بیچ فوجی تعاون سے متعلق سوال پرانڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہاکہ ’’جوبھی سرگرمیاں ہمارے پڑوس میں،خطے میں یاانڈیاکے اردگردہوتی ہیں، ہم ہمیشہ اس پرنظررکھتے ہیں اور(خاص کر)ایسی سرگرمیاں جس کاتعلق ہماری قومی سلامتی سے ہو۔ ہمیں جس طرح کے قدم اٹھانے ہیں،وہ ہم اٹھائیں گے‘‘۔ــ
 تاریخی طور پرپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات تنائوکاشکاررہے ہیں اوراس کی بنیادی وجہ 1971ء میں پاکستان کودولخت کرنے میں انڈیا کاوہ مذموم کردارہے جس کو مودی خودمیڈیا پرکئی بارتسلیم کر چکا ہے۔ پاکستان اوربنگلہ دیش کی تاریخ1947ء کی تقسیم ہند سے جڑی ہوئی ہے۔ مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) اورمغربی پاکستان(موجودہ پاکستان)کے درمیان سیاسی، معاشی،اور ثقافتی اختلافات نے1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموارکی۔اس وقت انڈیانے بنگلہ دیش کی حمایت میں اہم کرداراداکیا،اورانڈیا کی فوجی مداخلت نے پاکستان کودولخت کرنے اوربنگلہ دیش کوایک آزادملک بنانے میں کلیدی کرداراداکیالیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج ایسے اختلافات توامریکاکی ریاستوں کے مابین بھی ہیں اورخودانڈیاکے اندرکئی ریاستوں میں اس قدربدترین حالات ہیں کہ اس وقت 32علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور کئی ریاستوں میں نیم خودمختاری کا سماں ہے اورخود انڈیا کواپنی ٹرینوں کو ان ریاستوں سے گزرنے کے لئے ان تنظیموں کو باقاعدہ ٹیکس ادا کرنا پڑتاہے لیکن پاکستان یا چین نے کبھی وہ مکروہ کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی جیساانڈیانے بنگلہ دیش میں اداکیا۔
 1971ء کے بعد،انڈیانے بنگلہ دیش پر اپنے سیاسی اوراقتصادی اثرورسوخ کوبڑھانے کی کوشش کی لیکن حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش نے انڈیاکے اثرسے باہرنکلنے اوراپنی خودمختار پالیسی بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے بعد سے ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بتدریج بہتری آناشروع ہوئی،خاص طورپر اقتصادی تعاون اورعوامی رابطوں کے ذریعے۔ تاہم،فوجی تعلقات میں نمایاں پیشرفت حالیہ برسوں میں دیکھنے کوملی ہے،جوانڈیا کے لئے باعثِ تشویش ہے۔
 گزشتہ برس اگست میں پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں شیخ حسینہ کوبطوروزیرِاعظم استعفیٰ دے کر انڈیا جانا پڑاتھاجس کے بعد بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمدیونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کی گئی تھی ۔ شیخ حسینہ کوانڈیاکاحامی اور پاکستان کامخالف تصور کیاجاتاتھا اور صرف یہی نہیں بلکہ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے درجنوں رہنمائوں کوعدالتی ملی بھگت سے پھانسی پرلٹکادیاجن کا صرف یہ جرم تھاکہ انہوں نے1971ء میں بطور پاکستانی شہری ہونے کے ناطے انڈین فوجیوں کے خلاف اپنی ملکی فوج کاساتھ دیااورجماعت اسلامی کے ہزاروں اراکین کوپابندِ سلاسل کردیااوراپنے تمام مخالفین کوٹھکانے لگا کر بدترین فسطائیت کے ساتھ اپنی حکومت کوچلایا۔ بنگلہ دیش کی فوج کے اندربھی اپنے جابرانہ احکام کے تحت بھارت کی مددسے کئی بنگلہ دیش افسران کوہلاک کرکے ایک ایسے ڈکٹیٹر کا روپ اختیارکرلیاکہ بنگلہ دیشی عوام میں سے کسی کو ان کی حکومت کے خلاف کچھ کہنے اور لکھنے تک کی اجازت نہ ہو۔ان کے دورِحکومت میں بنگلہ دیش اورپاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوارنہیں رہے تھے تاہم شیخ حسینہ کی اقتدارسے بے دخلی کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہوئی نظرآئی۔
 گزشتہ مہینے قاہرہ میں ڈی8سمٹ کے دوران پاکستانی وزیرِاعظم شہبازشریف کی بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزرڈاکٹرمحمدیونس سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور پاکستانی وزیراعظم کے دفترکے مطابق دونوں رہنمائوں نے ’’دوطرفہ تعلقات میں حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کا اظہار‘‘کیاتھااور ’’باہمی فوائدپرمبنی ترقیاتی مقاصد‘‘ حاصل کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنے پراتفاق بھی کیاتھا۔ اس ملاقات کے تناظرمیں پہلی مرتبہ اعلیٰ سطحی فوجی وفدنے پاکستان کودورہ کیاجہاں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان دفاعی معاہدے کے تحت دونوں ممالک تربیتی مشقوں، انٹیلی جنس شیئرنگ،اوردفاعی سازوسامان کے تبادلے میں تعاون کررہے ہیں۔
 اس معاہدے کے تحت پاکستانی فوج بنگلہ دیش کے افسران کوتربیت فراہم کررہی ہے،جودونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مضبوط بنارہی ہے۔ مزیدبرآں دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں کرچکے ہیں اورمزیدایسے پروگرام منصوبہ بندی کے مراحل میںہیں جن کامقصدخطے میں دفاعی صلاحیتوں کوبڑھاناہے۔ پاکستان بنگلہ دیش کو ہتھیاروں کی فراہمی پربھی غورکررہا ہے، جس میں جدیدٹیکنالوجی کے ہتھیارشامل ہیں۔ برسوں بعد پاک بنگلہ دیش تعاون پرمودی سرکاربے بنیاد پروپیگنڈہ سے اپنی تشویش کااظہارکر رہی ہے جس کا مودی پریس شب وروزواویلاکررہاہے۔مودی سرکار مشرق اورمغرب دونوں اطراف میں پاکستان اوربنگلہ دیش کے تعلقات مضبوط ہونے سے خودکو ایک تزویراتی گھیرائو میں محسوس کررہی ہے۔
 دوسرااہم پہلویہ ہے کہ پاک بنگلہ دیش فوجی تعاون خطے میں انڈیاکے اثرورسوخ کوکم کرنے کا باعث بن سکتاہے اورانڈیا(اسرائیل، امریکا) کی مددسے علاقے میں اپنی برتری اور خطے کا تھانیدار بننے کاجو خواب دیکھ رہاہے،وہ چکناچور ہوجائے گا۔
 تیسرااہم پہلویہ ہے کہ چین،جوانڈیاکااہم جغرافیائی حریف ہے،پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک پسِ پردہ قوت کے طورپردیکھا جاتا ہے۔ چین پہلے ہی دونوں ممالک کوفوجی سازوسامان فراہم کررہاہے جس سے انڈیا کو خطرہ محسوس ہوتاہے۔
 چوتھااہم پہلویہ ہے کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون انڈیاکی جنوبی ایشیا ء میں بالادستی کو چیلنج کرسکتاہے اورانڈیاکیلئے سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ یہ اتحادجنوبی ایشیامیں اس کی معاشی اور اسٹریٹجک برتری کوناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتا ہے۔
 پانچواں پہلویہ ہے کہ انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان سرحدی تنازعات کے ساتھ ساتھ دریائی پانی کی تقسیم پربھی شدیداختلافات ہیں جودونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کاسبب ہیں۔
 چھٹااہم پہلووہ بھارتی خوف ہے کہ پاک بنگلہ دیش کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ انڈیاکے لئے سلامتی کے خطرات پیداکرسکتی ہے خاص طورپران علاقوں میں جہاں علیحدگی پسند تحریکیں فعال ہیں۔ کیونکہ انڈیابنگلہ دیش کے قیام میں اہم کرداراداکر چکاہے اوراس خطے میں اپنی بالادستی برقراررکھنے کے لئے ہمیشہ محتاط رہاہے۔بنگلہ دیش کا پاکستان کے قریب جانا انڈیاکے لئے ایک جذباتی اور اسٹریٹجک دھچکاہے۔ (جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بنگلہ دیش کے درمیان پاک بنگلہ دیش دونوں ممالک پاکستان اور فوجی تعاون تعلقات میں کے تعلقات ہیں اور میں پاک کے بعد کے لئے
پڑھیں:
فیصل آباد میں انٹرنیشنل کرکٹ کی 17 سال بعد واپسی، شاہین اور پروٹیز کے درمیان پہلا ون ڈے آج ہو گا
کراچی:ویرانی بنی بھولی بسری یاد فیصل آباد کا میدان پھر آباد ہوگیا،17 سال بعد وینیو پر انٹرنیشنل میچ کی تیاریاں مکمل ہو گئیں، پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ون ڈے سیریز کا پہلا مقابلہ آج ہوگا۔
گرین شرٹس فتح کی راہ پر گامزن رہنے کیلیے پراعتماد ہیں، شاہین شاہ آفریدی نے نئی طرز میں کپتانی کے کامیاب آغاز کیلیے کمر کس لی ہے۔
بیٹنگ لائن کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ٹاپ آرڈر پر ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوگی، بولنگ اٹیک بھی حریف سائیڈ کے جلد قدم اکھاڑنے کی کوشش کرے گا۔
گزشتہ روز دونوں ٹیموں نے ٹریننگ سیشن میں تیاریوں کو حتمی شکل دے دی، ٹرافی کی رونمائی بھی کردی گئی، شاہین اور جنوبی افریقی ہم منصب میتھیو بریٹزکی دونوں ہی اسے اپنا بنانے کیلیے بے چین ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان 3 ون ڈے میچز کی سیریز کا آغاز منگل کو فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں ہو رہا ہے، اس سے قبل 2 ٹیسٹ کی سیریز 1-1 سے برابر رہی جبکہ ٹی 20 میں گرین شرٹس نے 1-2 سے کامیابی حاصل کی تھی۔
پلیئرز اب ون ڈے سیریز میں بھی حریف کو قابو کرنے کیلیے پراعتماد ہیں، شاہین شاہ آفریدی ون ڈے کپتانی کی شروعات کریں گے، انھیں محمد رضوان کی جگہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
پاکستان نے اس سیریز کیلیے مضبوط اسکواڈ کا انتخاب کیا ہے، فخر زمان کی واپسی ہو گئی جو ٹی 20 سیریز میں شریک نہیں ہوسکے تھے، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ ون ڈے کرکٹ میں نویں مرتبہ ایک ساتھ بولنگ کریں گے۔
یہ تینوں بولرز پہلی بار ایشیا کپ 2023 میں ساتھ میدان میں اترے تھے، گزشتہ برس ان تینوں نے آسٹریلیا میں پاکستان کو ون ڈے سیریز جتوانے کے ساتھ جنوبی افریقہ کو اس کے ملک میں وائٹ واش کیا تھا۔
دونوں حریفوں کے خلاف مجموعی طور پر 5 میچز میں انھوں نے گرنے والی 47 وکٹوں میں سے 31 اڑائی تھیں۔
ایک روزہ سیریز میں کامیابی کیلیے بیٹنگ لائن کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ٹاپ آرڈر پر ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کی ذمہ داری عائد ہوگی، بولنگ اٹیک بھی حریف سائیڈ کے قدم جلد اکھاڑنے کی کوشش کرے گا۔
دوسری جانب جنوبی افریقی ٹیم ایک روزہ فارمیٹ میں کافی فارم میں ہے، اس نے آسٹریلیا اور انگلینڈ میں سیریز فتوحات حاصل کی ہیں جبکہ چیمپئنز ٹرافی کا بھی سیمی فائنل کھیلا۔
پروٹیز نے سال کے آغاز میں پاکستان میں ٹرائنگولر سیریز بھی کھیلی تھی، اس لیے وہ اس بار بھی اچھی پرفارمنس کیلیے پراعتماد ہے، تینوں میچز فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے جہاں پر 17 برس بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ہورہی ہے۔
اس گراؤنڈ پر آخری مرتبہ انٹرنیشنل میچ 11 اپریل 2008 کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلا گیا تھا، مجموعی طور پر اس وینیو پر 16 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے جا چکے ہیں۔
پاکستان نے اقبال اسٹیڈیم میں 12 ون ڈے کھیلے جن میں سے 9 جیتے اور 3 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جنوبی افریقہ نے 5 میں سے 2 ون ڈے جیتے جبکہ 3 میں شکست ہوئی۔
گزشتہ روز پاکستان ٹیم نے اقبال اسٹیڈیم میں بھرپور ٹریننگ کی، کھلاڑیوں نے پہلے وارم اپ سیشن میں شرکت کی،پھر کوچز کی نگرانی میں بیٹنگ اور بولنگ پر توجہ دی۔
بیٹرز نیٹ میں شاٹس کو بہتر بناتے رہے ، بولرز کی توجہ لائن اینڈ لینتھ پر مرکوز رہی، ٹرافی کی رونمائی بھی کردی گئی۔
اس تاریخی موقع پر کپتان شاہین آفریدی اور جنوبی افریقی ہم منصب میتھیو بریٹزکی نے پوز دیے، دونوں ہی کپتان ٹرافی کو جیتنے کیلیے بے چین ہیں ۔