تحریک انصاف سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت نے خاموشی توڑ دی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
تحریک انصاف سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت نے خاموشی توڑ دی WhatsAppFacebookTwitter 0 13 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف سے نکالے جانے پر ممبر قومی اسمبلی شیر افضل مروت کا ردعمل سامنے آگیا۔
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی ہدایت پر شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق شیر افضل مروت کو پارٹی پالیسیوں کی مسلسل خلاف ورزی پر پاکستان تحریک انصاف سے نکالا گیا اور انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا بھی کہا جائے گا۔
ممبر قومی اسمبلی شہریار آفریدی شیر افضل مروت کی حمایت میں سامنے آئے اور انہوں نے کہا کہ شیر افضل مروت کی پارٹی کے لیے بہت خدمات ہیں، عمران خان سے شیر افضل مروت کے لیے بات کریں گے۔
اب شیر افضل مروت نے بھی سوشل میڈیا پر ایک طویل تحریر لکھ پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
شیر افضل مروت نے لکھا کہ میں ہمشہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ وفادار رہا اور اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہوں گا، مجھے حالیہ فیصلے سے بہت دکھ ہوا جو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان افراد نے دلوایا ہو جنہوں نے مجھے کبھی پارٹی میں قبول ہی نہیں کیا تاہم میں نے کبھی ذاتی تنازعات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی اور پارٹی کے اندر کسی گروہ کے بجائے ہمیشہ عمران خان کے وژن کے ساتھ کھڑا رہا۔
پی ٹی آئی سے نکالے گئے شیر افضل مروت کا کہنا تھا میں خان صاحب (عمران خان) کو درپیش مشکلات بشمول معلومات کی محدود رسائی اور ان لوگوں کی موجودگی کہ جن کے اقدامات پارٹی کے لیے مفید نہیں، کا اعتراف کرتا ہوں، میں اپنی پوزیشن قومی میڈیا پر آج رات واضح کروں گا، اور مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز جنہوں نے انصاف کے لیے میرے ساتھ کھڑے ہو کر لڑا وہ صحیح چیز کے لیے آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔
شیر افضل مروت کا کہنا تھا اگر پارٹی نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی تو میں اسے عزت سے قبول کروں گا لیکن کبھی بھی رعایت نہیں مانگوں گا تاہم مشکل حالات میں متحد کھڑے رہنے والے پی ٹی آئی لیڈرز اور ورکرز سے یہ ضرور کہوں گا کہ نا انصافی کے خلاف آواز ضرور اٹھائیں۔
پی ٹی آئی سے نکالے جانے پر شیر افضل مروت نے خاموشی توڑ دی، طویل بیان جاری
ان کا کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف کو جمہوریت، شفافیت اور انصاف کے اصولوں کو تھامے رکھنا چاہیے، حقیقی وفاداری کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اندھی تابعداری کی جائے بلکہ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہماری جدوجہد صحیح راستے پر گامزن رہے۔
شیر افضل مروت کا آخر میں کہنا تھا کہ عمران خان میرے لیڈر ہیں اور رہیں گے، میری جدوجہد ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی سالمیت کے لیے اور اس وژن کے لیے ہے جو ہم سب کا مشترکہ وژن ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: شیر افضل مروت نے سے نکالے جانے پر پر شیر افضل مروت تحریک انصاف سے
پڑھیں:
ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: گزشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
پاکستان میں معاشی دباؤ، بڑھتی مہنگائی اور مقامی سطح پر روزگار کی کمی ایک عرصے سے عوام کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک کا رخ کریں۔ حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ نے اس رجحان کی ایک چونکا دینے والی تصویر پیش کی ہے، جس کے مطابق صرف رواں مالی سال میں لاکھوں پاکستانیوں نے روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر غیرملکی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔
یہ رپورٹ نہ صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے بلکہ اس میں وہ تلخ حقیقت بھی جھلکتی ہے جس کا سامنا پاکستانی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ رواں سال میں مجموعی طور پر جو پاکستانی ملازمت کے لیے بیرون ملک گئے، ان کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایک خواب، ایک امید اور ایک جدوجہد لے کر سرحد پار گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افراد صوبہ پنجاب سے بیرون ملک روانہ ہوئے، جہاں معاشی حالات اور آبادی کے دباؤ نے اس رجحان کو اور تیز کر دیا ہے۔ پنجاب سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نے دیگر ممالک میں روزگار کی تلاش میں ہجرت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ بھر میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں یا جو موجود ہیں وہ خاطر خواہ تنخواہ یا معیار زندگی فراہم نہیں کرتے۔
دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا رہا، جہاں سے ایک لاکھ 87 ہزار افراد نے غیرملکی ملازمتوں کے لیے رجوع کیا۔ صوبے میں اگرچہ ترسیلات زر کا ایک مضبوط کلچر موجود ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی اس بات کی علامت ہے کہ مقامی سطح پر معاشی بہتری کے دعوے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔
تیسرے نمبر پر سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک گئے، جو کہ خاص طور پر شہری علاقوں میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے بیشتر افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب گئے جہاں تعمیرات، ڈرائیونگ، سیکورٹی اور دیگر خدمات کی شعبہ جات میں روزگار کے مواقع دستیاب تھے۔
رپورٹ میں ملک کے دیگر علاقوں کی صورتحال بھی سامنے لائی گئی ہے، جو کم توجہ کے باوجود قابلِ غور ہے۔ سابقہ فاٹا، اب ضم شدہ قبائلی اضلاع سے 29 ہزار 937 افراد نے ملک چھوڑا۔ ان علاقوں میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کی کمی پہلے ہی عوام کو بیرونی دنیا کی طرف متوجہ کرتی رہی ہے، اور موجودہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر سے 29 ہزار 591 افراد نے روزگار کے لیے ہجرت کی، جس میں زیادہ تر لوگ برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف گئے۔ یہ تعداد خاص طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں پہلے سے ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، جس کا اثر نوجوانوں کی سوچ پر بھی پڑتا ہے۔
اسلام آباد جو کہ ملک کا دارالحکومت اور نسبتاً خوشحال شہر تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے بھی 8 ہزار 621 افراد نے بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزگار کی کمی صرف پسماندہ علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بڑے شہروں تک پھیل چکی ہے۔
بلوچستان سے صرف 5 ہزار 668 افراد نے بیرون ملک ہجرت کی، جو نسبتاً کم تعداد ضرور ہے لیکن اسے بلوچستان کی آبادی اور رسائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے محدود وسائل عوام کو عالمی مارکیٹ کے لیے مکمل تیار نہیں کر پاتے۔
اسی طرح شمالی علاقہ جات، جیسے گلگت بلتستان وغیرہ سے صرف 1692 افراد نے بیرون ملک روزگار کے لیے سفر کیا۔ یہ تعداد کم ضرور ہے لیکن ان علاقوں میں روزگار کے مواقع کی قلت اور انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی مستقبل میں اس رجحان کو بڑھا سکتی ہے۔
اقتصادی سروے کی یہ رپورٹ محض ایک عددی تجزیہ نہیں دیتی، بلکہ اس سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر ہماری ریاست، حکومتیں اور ادارے کب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کا خواب، عزت کی روٹی کمانا، ہمیں ایک قومی پالیسی بنانے پر مجبور نہیں کرتا؟ کیا ہمیں ملک میں ایسے حالات فراہم نہیں کرنے چاہییں کہ ہماری افرادی قوت ملک میں ہی استعمال ہو؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر ہماری معیشت کے لیے اہم ضرور ہیں، لیکن مسلسل بڑھتی ہجرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو وہ مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وہ حق دار ہے۔ اگر اس رجحان کو روکنا ہے تو ہمیں تعلیم، ہنر مندی، روزگار کی فراہمی اور کاروباری مواقع کے شعبوں میں فوری اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔