Nai Baat:
2025-09-18@20:56:02 GMT

افغان بیانیے کی حمایت افواج ِ پاکستان کی مخالفت ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

افغان بیانیے کی حمایت افواج ِ پاکستان کی مخالفت ہے

میں روزانہ ہزاروں لفظ لکھتا ہوں اور یقینا اس میں سیاسی تجزیہ سے لے کر افسانہ ٗ شاعری اور تنقیدی مضامین سب کچھ ہوتا ہے۔ بڑے سر کا درد بھی بڑا ہوتا ہے اور جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے اُس سے غلطی بھی اُتنی بڑی ہوتی ہے ۔ یقینا میرا کروڑوں روپے کا نقصان نہیں ہو سکتا کیونکہ میرے پاس کروڑوں روپے موجود ہی نہیں ۔فر د کی غلطی کا خمیاز اُسے اور اُس سے وابستہ لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن جب قوم کا لیڈر غلطی کرئے تو اُس کا حمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ جاتا ہے ۔عمران نیازی نے تیسرا خط بھی آرمی چیف کو لکھ دیا ہے لیکن میں جانتا ہو ں کیا وہ لکھیں گے جواب میں ۔لیکن عمران نیازی کے خطوط کا سلسلہ صرف آرمی چیف تک ہی محدود نہیں وہ عدلیہ کو بھی خط لکھ چکے ہیں اور ایک تازہ ترین خط مسٹر نیازی نے آئی ایم ایف کومبینہ انتخائی دھاندلی کے ثبوتوں کے ساتھ بھی ارسال کردیا ہے۔عمران نیازی کو جتنی ڈھیل ریاست نے دے رکھی ہے وہ شاید اُس کے ہاتھوں کوئی بڑی بربادی کروانا چاہتی ہے ۔ ایک شخص نے ریاست ِ پاکستان اوراُس کے ہر ادارے کو بدنام اورناکام کرنے کیلئے ہر وہ ممکن کام کیا جو اُس کی بساط میں تھا اور ہر وہ کام بھی کیا جو اُس کی بساط میں نہیں تھا جس کی وجہ سے آج وہ اڈیالہ میں بیٹھا اپنی زوجہ کا منتظر ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اُسے یہ رعایت بھی دیدی جائے ۔شیر افضل مروت کا وقت تحریک انصاف میں پورا ہو چکا اور اب اگر وہ اِس میں رہنے کی کوشش کرئے گا تو مزید خوار ہو گا ۔ بیرسٹر سیف کو بھی عہدہ سے فارغ کردیا گیا ہے لیکن اُس کے بارے میں صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ ’’ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے ۔‘‘ بیرسٹر سیف چلا گیا لیکن اسی عہد ہ پر عنقریب کوئی نیا ’’ بیرسٹر سیف ‘‘ براجماں ہو گا کہ عمران نیازی کی ذہنی حالت ٗ قوت ِ فیصلہ اور پاکستانی عوام کی معاشی حالت بالکل ایک جیسی ہے ۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے فتنہ الخوارج کی سوچ کو فرسودہ قراردے کر ایسی سوچ کو کبھی بھی مسلط نہ ہونے کا عہد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کا آئین ’’ ان الحکم الا للہ ‘‘ سے شروع ہو تاہے ٗ ہمیں اپنے مذہب اورروایات پر فخر ہے ٗ فتنہ الخواج کس شریعت کی بات کرتے ہیں؟ یہ اخبارات کے فرنٹ پیچ پر چھپا ہے جو یقینا سب کی نظر سے گزر ا ہے ۔ یقینا پاکستانیوں کی اکثریت اسی سوچ کے ساتھ کھڑی ہے اور اس کیلئے انہیں ماضی کے تلخ تجربات کا شدید احساس ہے ۔ خدا نہ کرے کہ ہم کبھی دوبارہ اُن حالات سے گزریں لیکن میرے سامنے پڑے اخبار کے بیک پیج پر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا چھپا بیان بھی پڑا ہے جس کے مطابق فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہو گا ٗ پاکستان اور افغانستان کو لڑانا امریکی ایجنڈا ہے ۔ بامعنی مذاکرات کیے جائیں ٗ حافظ نعیم الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں بدامنی کیلئے کسی صورت استعمال نہیں ہونی چاہیے ٗ وہ تو آئی ڈی پیز کے حوالے سے خیبر پختوانخوا میں کسی نئے تجربے کو آگ سے کھیلنے سے تعبیر کررہے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ یہی لوگ جنرل ضیاء الحق اورجنرل اختر عبد الرحمن کی قیادت میں افغانستان میں ہونے والے ہر ’’ عمل ‘‘ کو جائز قرار دے رہے تھے ۔ آرمی چیف اورامیر جماعت اسلامی دونوں ہی حافظِ قرآن ہیں اور دین ِاسلام کے بارے میں مکمل باخبر بھی ٗ تو ان حالات میں کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یا تو جماعت اسلامی فتنہ الخواج کے اسلام کو جائز سمجھتی ہے اور آرمی چیف اس سے واقف نہیں اور اگریہ بات غلط ہے تو پھر جماعت اسلامی حالتِ جنگ میں دشمن کے موقف کی حمایت کرکے ریاست پاکستان کو نہ صرف نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ یہ دشمن کی مدد اور اپنی فوج کے خلاف سازش کے مترادف ہے۔ یہ نہ تو ضیاء الحق کا دور ہے اور نہ ہی دنیا 80 ء کی دہائی میں سانس لے رہی ہے ۔ سو ہمیں اپنا بہت کچھ بدلنا ہو گا اور ہم نے نہ بدلا تو ہم ایسی عالمی تنہائی کا شکار ہوں گے جس کا تصور ہی انسانی عقل سے باہر ہے ۔

میں طویل عرصہ ایک بڑے اخبار کے ادارتی صفحہ اور کلر ایڈیشن کا انچار ج رہا ہوں جانتا ہوں کہ قلم کار اپنے لکھے کی پروف ریڈنگ خود نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کا ذہن الفاظ کو اُسی طرح پڑھ جاتا ہے جیسے اُس نے سوچا ہوتا ہے خواہ کمپوزنگ میں کچھ غلط ہی لکھا گیا ہو۔ 11 فروری کو میرا کالم جو ’’ 8 اپریل :استحکام اور انتقام کے بیانیوں کا دن ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ اُس میں اپریل کے بجائے مجھے فروری لکھنا تھا لیکن چونکہ پاکستان میں آخری ضمنی الیکشن 21 اپریل کو ہوا اور اُس میں میری بھرپور شرکت تھی بلکہ میں نے برادرم شعیب صدیقی کی فتح کی خبر پہلے ہی اپنے کالم میں دیدی تھی سو اپریل میرے ذہن سے نکلا ہی نہیں ۔ میں نے غلطی تسلیم کرنے میں کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا لیکن اگر ادارتی صفحات کے شہزادے بھی اُسے ایک نظر دیکھ لیتے تو یہ معمولی غلطی چھپنے کے بعد بڑی غلطی نہ بنتی بہرحال شکایت اسی کی لگتی ہے جو کا م کررہا ہو کیونکہ جو کام کرتا ہے اُس سے کام غلط بھی ہو جاتا ہے اورجو کچھ بھی نہیں کرتا اُس سے غلطی کا امکان بھی موجود نہیں ہوتا ۔

مجھے اُس تحریر کے حوالے سے صرف اس بات کا دکھ ہے کہ اول تو وہ 8 فروری کے حوالے سے تھا جو اب ایک سال بعد آئے گی دوسرا اُس میں عبد العلیم خان کی تقریر کے حوالے سے میں نے تفصیل سے لکھا تھا اور وہ 8 فروری کو عبد العلیم خان کی تقریر واقعی ایک ایسے پاکستانی کی تقریر تھی جو ہمیں مسقبل کے بہت سے رستے دکھا رہی تھی ۔ جس میں کوئی شکوہ شکایت نہیں تھی ٗ کام نہ کرنے اور کام کرنے والوں کا ذکر تھا اور عبد العلیم خان تو آدمی ہی مسقبل کا ہے وہ ماضی کو یاد ضرور رکھتا ہے تاکہ جو غلطیاں ماضی میں ہوئیں مستقبل میں نہ ہو سکیں البتہ اُسے اپنے مسقبل کے پروگرامز پر اثر انداز نہیں ہونے دیتا اور یہی عبد العلیم خان کی خوبی ہے جو اُسے دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی وہ حقیقی سیاست ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے ۔ کوئی انقلاب ابھی راوی کے کنارے پر نہیں روکا ہو ا جو لاہو ر میں داخل ہونے کیلئے مچل رہا ہو۔ ہمارے لوگوں کو ابھی فوری ریلیف کی ضرورت ہے اور اِس کیلئے موجودہ حکومت کی کارکردگی لائق تحسین نہیں تو تسلی بخش ضرور ہے ورنہ کم ظرفو ں نے تو اسے سری لنکا سمجھ لیا تھا ۔ ایک بات اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر لکھ دیتا ہوں کہ عمران نیازی کا لایا ہوا انقلاب اگر کبھی پوری شدت سے آ بھی گیا تو اُسے روکنے کیلئے ایک اے ایس آئی ٗ دو حوالدار اور دس پولیس والوں سے زیادہ کی نفری درکار نہیں ہو گی ۔سمجھ میں نہیں آ رہا جس کے پاس تنظیم اورکٹ مرنے والا سیاسی ورکر ہی نہیں ہے اُس سے ریاست اتنی خوفزدہ کیوں ہے ؟ شاید ریاست چلانیوالوں نے انقلاب خود نہیں پڑھ رکھا ورنہ یہ کھیل کب کاختم ہو چکا ہوتا ۔ ہمیں بس بڑے سر والوں کی غلطی سے بچنا ہے کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عبد العلیم خان جماعت اسلامی عمران نیازی کے حوالے سے ا رمی چیف نہیں ہو ہوتا ہے ہے اور

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • قطر پر حملہ ایک بہت بڑی غلطی تھی، صیہونی رہنما
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل