اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
پچھلے کالم کے بعد کچھ نے کہا کہ وجائنا تو بنی ہی اس لیے کہ بچہ وہاں سے نکلے۔ کچھ فرمانے لگے کہ فلاں بی بی نے 10 بچے پیدا کیے، کچھ بھی نہ ہوا۔
مورکھو! جان لو کہ تمہارے گھر کی عورت وہ ہستی ہے جو تمہارے ساتھ پوری زندگی گزار جائے گی مگر تمہیں کانوں کان خبر نہ ہونے دی گی کہ کیسی گزری؟
عورت کو بولنا اور حق مانگنا سکھایا ہی نہیں گیا بلکہ گھٹی میں یہ ڈال دیا گیا ہے کہ خبردار منہ بند رکھنا، زبان پر شکوہ شکایت لائیں تو نہ آگے کی رہوگی نہ پیچھے کی۔ سو آگے نہ پیچھے کا خوف دل میں پالتے ہوئے زندگی کے دن کاٹتی ہے گن گن کر۔
کچھ خواتین کے اور پیغامات بھی آئے جو مرد حضرات نے حسب معمول نظر انداز کر دیے۔
’کھانسی اور چھینک کے ساتھ پیشاب کے قطروں کا اخراج ہر اس عورت کے لیے عام سی بات ہے جس کے 3،4 بچے ہوں‘۔
’میں نے اپنی بہت سی ہم عمر لڑکیوں کو دیکھا ہے جنہوں نے نارمل ڈیلیوری کروائی اور وہ بچے دانی اور وجائنا کے مسائل سے دو چار ہیں‘۔
’میری کزن کی پاخانے والی نالی کٹ گئی زچگی میں، اب وہ بستر پر ہے‘۔
بہت سے دیوانے پاکستانی عورت کی زچگی کو یورپ اور امریکا کی عورت سے موازنہ کرتے پائے گئے۔
مغرب کی عورت جو بچپن سے سوئمنگ کرتی ہے، کھیلوں میں حصہ لیتی ہے، اچھی غذا کھاتی ہے، کسی جنسی تفریق کا شکار نہیں بنتی۔ جسم کے مسلز توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں کہ باقاعدگی سے جم جا کر جسم کو طاقتور بناتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کی قطار نہیں لگاتی۔
یہ بھی پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کی بچی کو سوئمنگ تو دور کی بات، کھیل کود میں حصہ نہیں لینے دیا جاتا کہ لڑکیوں کی چھاتی اگر اچھلتی ہوئی نظر آئی تو بہت سوں کا ایمان ڈولنے لگے گا۔ جم جانا عیاشی سمجھ لیا جاتا ہے۔ اچھی غذا کا حقدار گھر کا لڑکا ہے، لڑکی کو بوٹی دینے کا کیا فائدہ، روٹی اور اچار ہے نا۔ نتیجتاً ہر دوسری لڑکی خون کی کمی کا شکار نظر آتی ہے۔ خون کی کمی اور ہر برس ایک نیا بچہ، مزید خون کی کمی۔ منصوبہ بندی؟ ہر گز نہیں۔ فطرت سے جنگ؟ کیوں کریں بھئی؟ عورت کا کام ہے بچے جننا چاہے جسم میں کچھ ہو یا نہ ہو۔ ایسے نحیف جسم خواتین کی نارمل زچگی اور وہ بھی ان ہاتھوں میں جنہیں زچگی کی سائنس کی اے بی سی کا علم نہیں۔
’کرنا ہی کیا ہوتا ہے جی کھینچ کھانچ کر بچہ باہر نکال لو‘
اس کھینچنے کھانچنے میں عورت کیسے ادھڑ جاتی ہے یہ کسی کو علم نہیں ہوتا۔
یورپ اور امریکا میں وجائنل ڈلیوری کے لیے اسٹاف تربیت یافتہ، کسی بھی مشکل کو بھانپ لینے والا اور کسی بھی پیچیدگی سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار۔
ہم اپنا حال سنائے دیتے ہیں۔ پہلے بچے کی زچگی کے وقت ایم بی بی ایس کی ڈگری ہاتھ میں تھی مگر زچگی کی پیچیدگیوں میں معلومات صفر۔ بس اتنا ہی سمجھتے تھے جو شاید کسی ورکشاپ میں کام کرنے والا چھوٹا جانتا ہو۔
آج ہم جو لکھتے ہیں اس کے پیچھے 32 برس کی محنت، تجربہ، مشاہدہ اور گھاٹ گھاٹ کا پانی شامل ہے۔ یہ دیکھ کر ہک دھک رہ جاتے ہیں کہ وہ لونڈے آ کر اس پر بات کرتے ہیں جو شاید کبھی اپنے محلے سے باہر بھی نہ نکلے ہوں۔
پچھلے کالم میں ہم نے کہا تھا کہ ہم کچھ باتیں بچے کے متعلق بھی کریں گے کہ وجائنل زچگی کا ایک فریق وہ بھی ہے۔
چشم تصور سے دیکھیے اور سوچیے کہ اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو کیا حل سوچیں گے آپ ؟
زچہ تڑپ رہی ہے، بچے کا سر وجائنا میں موجود ہے اور دائی/نرس/ڈاکٹر خاموش تماشائی۔
مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بچے کا وزن 4 کلو سے زیادہ ہے، بچے کے کندھے بہت چوڑے ہیں، بچے کا سر بہت بڑا ہے، بچے کا سر نیچے تو ہے لیکن ٹیڑھا ہے، بچے کا سر ترچھی پوزیشن میں ہے، بچے نے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے، بچہ الٹا ہے یعنی پاؤں اور کولہے وجائنا میں ہیں۔
درد زہ تیز سے تیز تر اور بچہ باہر نکلنے سے قاصر۔ زچہ عورت گاؤں میں ہے اور دائی کہتی ہے کہ اب اسے شہر لے جائیں۔ مشورے کرنے، گاڑی کا انتظام کرنے اور قریبی شہر پہنچنے تک زچہ تڑپے گی اور بس تڑپے گی۔ اذیت کے ایک سمندر سے گزرتے ہوئے وجائنا بچے کا وزن سہارتی رہے گی۔
ہو گا کیا ؟ کیا قریبی چھوٹے شہر میں کوئی ایسی ڈاکٹر ملے گی جو اس پیچیدگی کو حل کر سکے؟
مزید پڑھیے: چھلاوہ حمل!
امکانات یہ ہیں کہ ایسے کیس میں کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا کہ پیچیدگی سامنے کھڑی نظر آرہی ہے۔ چھوٹے شہر سے انکار کے بعد گاڑی چلے گی کسی بڑے شہر کے سرکاری اسپتال کی طرف۔ لیبر روم کے دروازے پر گاڑی سے چارپائی برآمد ہوگی جس پر نیم جاں زچہ لیٹی ہو گی جس کی روح اس کی وجائنا کے گرد طواف کر رہی ہوگی کہ موت سر پر کھڑی نظر آتی ہوگی۔
بڑے اسپتال کے ڈاکٹر اپنا سر پیٹیں گے کہ جاں بہ لب عورت کو کیسے بچایا جائے؟
آپریشن تھیٹر لے جانے سے پہلے 4،6 خون کی بوتلوں کا انتظام کرنا ہو گا ؟ یہ سنتے ہی ساتھ آئے سب ہٹے کٹے مرد خون کا عطیہ دینے سے انکاری ہو جائیں گے، انہیں خون دینے سے مردانہ کمزوری ہونے کا خدشہ ڈرانے لگے گا۔
اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑتی زچہ بچتی ہے یا نہیں، یہ مسئلہ اہم نہیں۔ بس کہیں مردانہ کمزوری نہ ہو جائے کا بھوت سر پر ناچے گا جس کے زیر اثر سب مرد وہاں سے کھسک لیں گے اور پیچھے رہ جائیں گی کچھ ڈاکٹرز جو چیخیں گی، بڑبڑائیں گی، برا بھلا کہیں گی مگر زچہ کی جان بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دیں گی چاہے خون کی بوتل اپنے جسم سے کیوں نہ نکلوانی پڑے۔
یہ ہے وہ کتھا جو بڑے سرکاری اسپتالوں کے لیبر روم میں کام کرنے والوں کے روزوشب کا حصہ ہے۔
باقی آئندہ
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اندام نہانی بچہ جنم دینے کی تکلیف حاملہ زچگی لیبر روم بچے کا سر خون کی کے لیے
پڑھیں:
ڈاکٹر، مگر کونسا؟
آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!
ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔
پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔
ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔
ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔
یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔
ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔
ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔
جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟
آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔
ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟
جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔
ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔
اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔
اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔
وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔
ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس
ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی
ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔
اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟
باقی آئندہ
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں