WE News:
2025-04-25@11:43:19 GMT

اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

پچھلے کالم کے بعد کچھ نے کہا کہ وجائنا تو بنی ہی اس لیے کہ بچہ وہاں سے نکلے۔ کچھ فرمانے لگے کہ فلاں بی بی نے 10 بچے پیدا کیے، کچھ بھی نہ ہوا۔

مورکھو! جان لو کہ تمہارے گھر کی عورت وہ ہستی ہے جو تمہارے ساتھ پوری زندگی گزار جائے گی مگر تمہیں کانوں کان خبر نہ ہونے دی  گی کہ کیسی گزری؟

عورت کو بولنا اور حق مانگنا سکھایا ہی نہیں گیا بلکہ گھٹی میں یہ ڈال دیا گیا ہے کہ خبردار منہ بند رکھنا، زبان پر شکوہ شکایت لائیں تو نہ آگے کی رہوگی نہ پیچھے کی۔ سو آگے نہ پیچھے کا خوف دل میں پالتے ہوئے زندگی کے دن کاٹتی ہے گن گن کر۔

کچھ خواتین کے اور پیغامات بھی آئے جو مرد حضرات نے حسب معمول نظر انداز کر دیے۔

’کھانسی اور چھینک کے ساتھ پیشاب کے قطروں کا اخراج ہر اس عورت کے لیے عام سی بات ہے جس کے 3،4 بچے ہوں‘۔

’میں نے اپنی بہت سی ہم عمر لڑکیوں کو دیکھا ہے جنہوں نے نارمل ڈیلیوری کروائی اور وہ بچے دانی اور وجائنا کے مسائل سے دو چار ہیں‘۔

’میری کزن کی پاخانے والی نالی کٹ گئی زچگی میں، اب وہ بستر پر ہے‘۔

بہت سے دیوانے پاکستانی عورت کی زچگی کو یورپ اور امریکا کی عورت سے موازنہ کرتے پائے گئے۔

مغرب کی عورت جو بچپن سے سوئمنگ کرتی ہے، کھیلوں میں حصہ لیتی ہے، اچھی غذا کھاتی ہے، کسی جنسی تفریق کا شکار نہیں بنتی۔ جسم کے مسلز توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں کہ باقاعدگی سے جم جا کر جسم کو طاقتور بناتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کی قطار نہیں لگاتی۔

یہ بھی پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کی بچی کو سوئمنگ تو دور کی بات، کھیل کود میں حصہ نہیں لینے دیا جاتا کہ لڑکیوں کی چھاتی اگر اچھلتی ہوئی نظر آئی تو بہت سوں کا ایمان ڈولنے لگے گا۔ جم جانا عیاشی سمجھ لیا جاتا ہے۔ اچھی غذا کا حقدار گھر کا لڑکا ہے، لڑکی کو بوٹی دینے کا کیا فائدہ، روٹی اور اچار ہے نا۔ نتیجتاً ہر دوسری لڑکی خون کی کمی کا شکار نظر آتی ہے۔ خون کی کمی اور ہر برس ایک نیا بچہ، مزید خون کی کمی۔ منصوبہ بندی؟ ہر گز نہیں۔ فطرت سے جنگ؟ کیوں کریں بھئی؟ عورت کا کام ہے بچے جننا چاہے جسم میں کچھ ہو یا نہ ہو۔ ایسے نحیف جسم خواتین کی نارمل زچگی اور وہ بھی ان ہاتھوں میں جنہیں زچگی کی سائنس کی اے بی سی کا علم نہیں۔

’کرنا ہی کیا ہوتا ہے جی کھینچ کھانچ کر بچہ باہر نکال لو‘

اس کھینچنے کھانچنے میں عورت کیسے ادھڑ جاتی ہے یہ کسی کو علم نہیں ہوتا۔

یورپ اور امریکا میں وجائنل ڈلیوری کے لیے اسٹاف تربیت یافتہ، کسی بھی مشکل کو بھانپ لینے والا اور کسی بھی پیچیدگی سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار۔

ہم اپنا حال سنائے دیتے ہیں۔ پہلے بچے کی زچگی کے وقت ایم بی بی ایس کی ڈگری ہاتھ میں تھی مگر زچگی کی پیچیدگیوں میں معلومات صفر۔ بس اتنا ہی سمجھتے تھے جو شاید کسی ورکشاپ میں کام کرنے والا چھوٹا جانتا ہو۔

آج ہم جو لکھتے ہیں اس کے پیچھے 32 برس کی محنت، تجربہ، مشاہدہ اور گھاٹ گھاٹ کا پانی شامل ہے۔ یہ دیکھ کر ہک دھک رہ جاتے ہیں کہ وہ لونڈے آ کر اس پر بات کرتے ہیں جو شاید کبھی اپنے محلے سے باہر بھی نہ نکلے ہوں۔

پچھلے کالم میں ہم نے کہا تھا کہ ہم کچھ باتیں بچے کے متعلق بھی کریں گے کہ وجائنل زچگی کا ایک فریق وہ بھی ہے۔

چشم تصور سے دیکھیے اور سوچیے کہ اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو کیا حل سوچیں گے آپ ؟

زچہ تڑپ رہی ہے، بچے کا سر وجائنا میں موجود ہے اور دائی/نرس/ڈاکٹر خاموش تماشائی۔

مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بچے کا وزن 4 کلو سے زیادہ ہے، بچے کے کندھے بہت چوڑے ہیں، بچے کا سر بہت بڑا ہے، بچے کا سر نیچے تو ہے لیکن ٹیڑھا ہے، بچے کا سر ترچھی پوزیشن میں ہے، بچے نے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے، بچہ الٹا ہے یعنی پاؤں اور کولہے وجائنا میں ہیں۔

درد زہ تیز سے تیز تر اور بچہ باہر نکلنے سے قاصر۔ زچہ عورت گاؤں میں ہے اور دائی کہتی ہے کہ اب اسے شہر لے جائیں۔ مشورے کرنے، گاڑی کا انتظام کرنے اور قریبی شہر پہنچنے تک زچہ تڑپے گی اور بس تڑپے گی۔ اذیت کے ایک سمندر سے گزرتے ہوئے وجائنا بچے کا وزن سہارتی رہے گی۔

ہو گا کیا ؟ کیا قریبی چھوٹے شہر میں کوئی ایسی ڈاکٹر ملے گی جو اس پیچیدگی کو حل کر سکے؟

مزید پڑھیے: چھلاوہ حمل!

امکانات یہ ہیں کہ ایسے کیس میں کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا کہ پیچیدگی سامنے کھڑی نظر آرہی ہے۔ چھوٹے شہر سے انکار کے بعد گاڑی چلے گی کسی بڑے شہر کے سرکاری اسپتال کی طرف۔ لیبر روم کے دروازے پر گاڑی سے چارپائی برآمد ہوگی جس پر نیم جاں زچہ لیٹی ہو گی جس کی روح اس کی وجائنا کے گرد طواف کر رہی ہوگی کہ موت سر پر کھڑی نظر آتی ہوگی۔

بڑے اسپتال کے ڈاکٹر اپنا سر پیٹیں گے کہ جاں بہ لب عورت کو کیسے بچایا جائے؟

آپریشن تھیٹر لے جانے سے پہلے 4،6 خون کی بوتلوں کا انتظام کرنا ہو گا ؟ یہ سنتے ہی ساتھ آئے سب ہٹے کٹے مرد خون کا عطیہ دینے سے انکاری ہو جائیں گے، انہیں خون دینے سے مردانہ کمزوری ہونے کا خدشہ ڈرانے لگے گا۔

اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑتی زچہ بچتی ہے یا نہیں، یہ مسئلہ اہم نہیں۔ بس کہیں مردانہ کمزوری نہ ہو جائے کا بھوت سر پر ناچے گا جس کے زیر اثر سب مرد وہاں سے کھسک لیں گے اور پیچھے رہ جائیں گی کچھ ڈاکٹرز جو چیخیں گی، بڑبڑائیں گی، برا بھلا کہیں گی مگر زچہ کی جان بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دیں گی چاہے خون کی بوتل اپنے جسم سے کیوں نہ نکلوانی پڑے۔

یہ ہے وہ کتھا جو بڑے سرکاری اسپتالوں کے لیبر روم میں کام کرنے والوں کے روزوشب کا حصہ ہے۔

باقی آئندہ

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اندام نہانی بچہ جنم دینے کی تکلیف حاملہ درد زہ زچگی لیبر روم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اندام نہانی بچہ جنم دینے کی تکلیف حاملہ زچگی لیبر روم بچے کا سر خون کی کے لیے

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
 ہوتا ہوں آپ میں کبھی ہوتا نہیں ہوں میں
کیوں کر بنوں کسی کا کہ اپنا نہیں ہوں میں 
اک عمر یہ شعور سمجھتے گزر گئی
لیکن شعور آج بھی سمجھا نہیں ہوں میں 
اے دوست تجھ کو حق ہے مجھے تو بھی چھوڑ دے
اب تو کسی کے حق میں منافع نہیں ہوں میں 
سچ ہے ترے رفیق کے جیسا میں نہیں تھا 
خوش ہوں ترے رفیق کے جیسا نہیں ہوں میں
جاہ و جلال ہے ترا کمتر تری طرح 
دنیا ترے مقام کا بھوکا نہیں ہوں میں
سب کچھ لٹا کے خاک بسر در بدر پھرا
پر کندِ نہ تراش کو بھایا نہیں ہوں میں
کاظم ؔمرا خدا ہے جو شہ رگ سے ہے قریب 
اتنا اداس ہو نہیں تنہا نہیں ہوں میں
(کاظم رضا۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
میرا تھا مگر مجھ سے جدا ہو کے مرا ہے
اک شخص گرفتارِ انا ہو کے مرا ہے
بخشی تھی محبت نے جسے رونقِ دنیا
ویرانے میں نفرت کا خدا ہو کے مرا ہے
آواز کی لہروں کے تعاقب میں پریشاں
اک شور مری چپ کی صدا ہو کے مرا ہے
کس واسطے سورج پہ میں الزام لگاؤں
دیوار سے جب سایہ خفا ہو کے مرا ہے
مدت سے نگہباں تھا مرے ضبط کا حانی
آنکھوں سے جو کل اشک ادا ہو کے مرا ہے
(حانی ہنجرا۔ڈسکہ)

۔۔۔
غزل
دشتِ الفت میں کھو گئے آخر
جان سے ہاتھ دھو گئے آخر
رات اختر شماریوں میں کٹی
تو نہ آیا تو سو گئے آخر
تیری ہر بات مان لیتے ہیں
تو نے چاہا تو لو گئے آخر
عشق کا سلسلہ عجیب سا ہے
ہنستے پہلے تھے رو گئے آخر
جان اپنی بھی وار دی ہم نے
تم ہمارے نہ ہو گئے آخر
میرے محبوب تیری فرقت میں
چار کندھوں پہ ڈھو گئے آخر
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)

۔۔۔
غزل
 پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
لوگ مزدوری کماتے ہوئے مر جاتے ہیں 
اے بشر پیڑ نہ کاٹ اِن پہ ہمارے گھر ہیں
’ ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ‘
ایسے گھڑتے ہیں کچھ احباب مَصارع جن کو 
سب گلوکار بھی گاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جانے کتنے ہیں مصور جو تری چاہت میں
تیری تصویر بناتے ہوئے مر جاتے ہیں 
مانگتا ہے وہ تعلق میں سہولت محکم
اور ہم ساتھ نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 
(زین محکم سکھیکی۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
قہقہے آنسوئوں میں تر کرلو
اب یونہی زندگی  بسر کرلو
جھوٹ کے سلسلے نہیں روکو
بس انھیں تھوڑا مختصر کرلو
اس میں آخر فریب  ملتا ہے
پیار جتنا بھی ٹوٹ کر، کرلو
غم نبھاتا ہے ساتھ مرنے تک 
سو، اسے اپنا ہمسفر کرلو
سچ نے تو آشکار ہونا ہے
تم بھلے لاکھ اگر مگر کرلو
آگہی کرب ہے نزاکتؔ جی
خود کوخودسے بھی بے خبر کرلو
 (نزاکت ریاض۔پنڈ مہری، تحصیل حسن ابدال)

۔۔۔
غزل
اُس مشربِ وصال کی وہ چاشنی ملی 
ہر چیز رقص کرتے ہوئے ڈولتی ملی
سورج کی کیا مجال جو روشن اِسے کرے 
ماہِ فلک کو تجھ سے یہ تابندگی ملی 
یہ کارِ سخت پہلے نہ تھا میرا ہم مزاج 
تجھ سے ملا تو عشق کی جادوگری ملی 
میں ہوں نوائے وقتِ سحر، نغمہ ہائے شوق
مجھ سے ہی اس چمن کو ترو تازگی ملی 
کرتا ہوں خرچ اس کو میانہ روی کے ساتھ
معلوم ہے کہ زیست نہیں مفت کی ملی
مانگا خدا سے کوئی جو مجھ کو سمجھ سکے 
بدلے میں کوئے فکر تری دوستی ملی
( جنید ضیاء۔ بونیر)

۔۔۔
غزل
پہلو نشیں رہا ہے جو کل تک کدھر گیا
جانے کہاں یہ میرا دلِ در بدر گیا 
جاتے ہیں میرے سامنے وہ غیر کی طرف
ہائے! کوئی سنبھالے یہ میرا جگر گیا
اندھے کے ہاتھ آئی ہے تلوارِ تند و تیز
آئے گا جو بھی سامنے اس کا تو سر گیا 
پھیلی ہوئی ہے ہر سو اداسی مکان میں
ایسے وہ چھوڑ کر مرے دیوار و در گیا 
اب تو دلِ بے چارہ کا چارہ نہیں کوئی
جب سے چھڑا کے ہاتھ مرا چارہ گر گیا 
پہلے پہل تو دور سے پہچانتا تھا وہ
لیکن وہ آج پاس سے گزرا، گزر گیا 
ٹھہری ہوئی ہے آج بھی یہ نظرِ پر امید
جس راہ مجھ کو چھوڑ مرا ہمسفر گیا 
آنکھوں کا رزقِ اشک ہوا تنگ کس لیے
کس واسطے یہ رنج کا  دریا اتر گیا
اک بار کے فریب سے آیا نہ باز دل
چوکھٹ پہ ان کی آج میں بارِ دگر گیا
ہیں ثبت اب بھی دل پہ نقوشِ رخِ جمال
دیکھے اسے اگرچہ زمانہ گزر گیا
اب آئے ہیں وہ کس لیے لینے مری خبر
کوئی انھیں بتاؤ کہ فیصل ؔتو مر گیا
(فیصل رشید۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
ہوا سے دوستی ہے، خواب روشنی کے ہیں
 مری جناب، مسائل یہ زندگی کے ہیں
قدم قدم پہ بکھرتی ہیں آرزو کلیاں
 جو راستے میں کھڑے پل ہیں بے بسی کے ہیں
چراغ لے کے چلے ہیں ہوا کے پہلو میں
 ہمیں خبر ہے یہ لمحے تو بے کلی کے ہیں
نگاہِ شوق میں جو عکس جگمگاتے ہیں
 وہ آئینے تو نہیں، ٹکڑے روشنی کے ہیں
صدا یہ دیتی ہے ہر شے سکوتِ شب میں کہیں
 جو درد، ہنستے لبوں پر ہیں شاعری کے ہیں
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
آنسو دکھائی دیتے ہیں کب بارشوں کے بیچ
جینا بھی اک کمال ہے ان حادثوں کے بیچ
مزدور نیند پوری کرے یا وہ دیکھے خواب
اک خواب ٹوٹتا ہے کئی کروٹوں کے بیچ
اک عکس تھا کہ جس سے تھی اچھی دعا سلام
وہ بھی نہ ٹوٹ جائے کہیں آئنوں کے بیچ
نطشے کا فلسفہ ہو کہ اقبال کی خودی
دونوں ہی دفن ہوگئے ہیں سازشوں کے بیچ 
اک دائرہ ہے زندگی اس مستطیل میں
چھپنا فضول جائے گا سب زاویوں کے بیچ  
ٹانکا کہاں چھپا ہے کہاں کوئی چاک ہے
کرتے کا رہ گیا ہے بھرم سلوٹوں کے بیچ
آنکھوں نے ضبط سیکھ لیا ایک عمر  بعد
کب تک بھلا وہ رہتی مری عادتوں کے بیچ
ٓپیتا اگر نہ زہر تو پھر سوچ یہ مقیمؔ
سقراط کیسے رہتا بھلا بزدلوں کے بیچ
(رضوان مقیم ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
نوائے باغباں ہم لکھ رہے ہیں 
صدائے بلبلاں ہم لکھ رہے ہیں
رقم تاریخ کی تم نے سلف کی 
تمہاری داستاں ہم لکھ رہے ہیں 
اثر انداز ہوتا تھا جو دل پر 
وہ اندازِ بیاں ہم لکھ رہے ہیں 
خزاں دیدہ چمن تم نے لکھا تھا 
بہارِ گلستاں ہم لکھ رہے ہیں 
لکھا ہے تم نے سوزِ خانقاہی 
مجاہد کی اذاں ہم لکھ رہے ہیں 
نہیں ہے جن سے واقف بزمِ دوراں 
وہ اسرارِ نہاں ہم لکھ رہے ہیں 
اندھیرا چھٹ رہا ہے دھیرے دھیرے 
چراغِ ضو فشاں ہم لکھ رہے ہیں 
نویدِ ارمغاں حیدرؔ سنائے
ابھی آہ و فغاں ہم لکھ رہے ہیں
(حیدر میواتی ندوی۔ میوات، انڈیا)

۔۔۔
غزل
تیرے بن دل میرا قبرستان ہے 
دفن جس میں ایک اک ارمان ہے
خواب سب بکھرے پڑے ہیں جابجا 
آگیا غم کا عجب طوفان ہے
بے رخی پر عقل یہ حیران ہے
یوں ملا جیسے کوئی انجان ہے 
ہجر کی شب تیری یادوں کا ہجوم 
میرے جینے کا یہی سامان ہے
آج تک کوئی نہیں بھایا مجیدؔ
وہ گیا دل کا چمن ویران ہے
(مجید سومرو۔ پنو عاقل، سندھ)

۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنی سی بس شکایت ہے
لمحہ بھر بھی نہیں رعایت ہے
دلِ مضطر سکون پائے جو
کیا پڑھوں کونسی وہ آیت ہے
یاخدا بخش دے، نجات اب تو
دل ہزیمت طرف سے غایت ہے
بن چکا ہے جگر نوالہ اب
سانس رک جا تجھے ہدایت ہے
موت دعوت کرے منور ؔکی
زیست کو اس قدر حمایت ہے
(منور علی۔ گجرات)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • میدان سے باہر بھی پی ایس ایل میں رسہ کشی جاری
  • اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشن کے باہر مظاہرہ، اندر داخل ہونے کی کوشش: پہلگام واقعہ ’’را‘‘ نے کرایا، مشعال ملک
  • پی ٹی آئی کی رہنما ،چیف آرگنائزر پنجاب عالیہ حمزہ کو رہا کر دیا گیا
  • آبی جارحیت کیخلاف سول سوسائٹی کا بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج
  • بھارتی اقدامات کے خلاف اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ
  • آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حالات غیر مستحکم، مقبوضہ کشمیر مودی کے کنٹرول سے باہر
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • چکن کی قیمتیں عام شہری کی پہنچ سے باہر ، عوام کو اربوں روپے کا نقصان
  • عدالتیں توٹوٹ چکی، اڈیالہ جیل کا دروازہ ٹوٹا تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے: اعتزاز احسن