تنازعہ کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈہ ہے، رانا قاسم نون
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
ذرائع کے مطابق رانا محمد قاسم نون نے یہ بات پارلیمنٹ ہاوس میں ملائیشیا کی مشاورتی کونسل آف اسلامک آرگنائزیشن کے صدر حاجی محمد اعظمی عبدالحمید سے ملاقات کے دوران کہی۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر رانا محمد قاسم نون نے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے جسے اگر حل نہ کیا گیا تو یہ خطے میں ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق رانا محمد قاسم نون نے یہ بات پارلیمنٹ ہاوس میں ملائیشیا کی مشاورتی کونسل آف اسلامک آرگنائزیشن (ایم اے پی آئی ایم) کے صدر حاجی محمد اعظمی عبدالحمید سے ملاقات کے دوران کہی۔ انہوں نے کشمیر پر پاکستان کے موقف اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت پر ملائیشیا کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔ رانا قاسم نون نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے حل کیے بغیر خطے میں پائیدار امن و سلامتی ممکن نہیں۔ چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر نے ملائیشیا پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کو آسیان اور دیگر عالمی فورموں پر بھی اٹھائے۔
حاجی محمد اعظمی عبدالحمید نے اس موقع پر کشمیر پر پاکستان کے موقف کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی برادری کی فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے تناظر میں کشمیر ملائیشیا اور پاکستان کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ حاجی محمد اعظمی عبدالحمید نے مزید کہا کہ آسیان مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر غور و خوض کے لیے ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کرے گا جس سے علاقائی اور عالمی سطح پر کشمیری عوام کے حقوق کی وکالت کرنے کے ملائیشیا کے عزم کو تقویت ملے گی۔ ملاقات میں رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، رکن پارلیمنٹ سردار فتح علی خان میان خیل اور رکن پارلیمنٹ عقیل انجم بھی شریک تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حاجی محمد اعظمی عبدالحمید حقوق کی کہا کہ
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کےلئے کلید رہیں گے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے ۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے ۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے ۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔\932