Nai Baat:
2025-11-03@05:18:45 GMT

لا اِلہ الا اللہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

لا اِلہ الا اللہ

کائنات کتنی وسیع ہے۔ اس کا ادراک انسانی شعور اور ترقی کو ابھی تک نہیں ہو سکا نہ ہی کسی اور مخلوق کو کبھی ہو سکے گا لیکن یہ کیسی بات ہے کہ حقیقی اہل معرفت شخصیت کے سینے میں کائنات تیرتی پھرتی ہے۔ جی ہاں کئی ہوں گے مگر وہ محض زبان سے نہیں یقین کے ساتھ حق کی گواہی تسلیم کرتے اور اس میں غوطہ زن رہتے ہیں۔ اس اظہار کے لیے چار الفاظ پر مبنی لا اِلہ الا اللہ کلمہ ہے۔ جو سب جانتے ہوئے بھی اس احساس میں مبتلا ہو کہ اسے کچھ علم نہیں۔ دراصل وہ معرفت پا گیا۔ معرفت یعنی جان گیا پہچان گیا۔ حقیقت کو چھو گیا اس چھو جانے سے بس قدم آگے بڑھے لگن اور جستجو کے ساتھ تو وہ معرفت الٰہی پا گیا۔ معرفت الٰہی پھر کسی کوشریک نہیں ہونے دیتی۔ یکتائی میں دخل قہر کا سبب بن جاتا ہے۔ معرفت الٰہی پا جانے کے بعد تمام خوف مٹ جاتے ہیں حتیٰ کہ موت کا خوف بھی وصال کے شوق میں بدل جاتا ہے۔ انسانی معاشرت، منافقت کا شاہکار کیوں بن گئی کہ جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔ اس کرب سے نکلنے کا کتنا آسان نسخہ ہے کہ جیسا دکھائی دینا چاہتے ہو ویسا بن جاﺅ۔ آج دل تھا کسی اور موضوع کے بجائے من کے اندر کی طرف منکشف ہوتے ہوئے دریچوں کے اندر جھانکوں جن پر ایک روحانی شخصیت نے دستک دی اور کہا کہ کبھی لا الہ الا اللہ پر بھی غور کرو۔ اُف میرے خدایا یہ چار الفاظ کا کلمہ کائنات کا اول آخر ہے جب کچھ نہیں تھا یہ تھا اور جب کچھ باقی نہ رہے گا تو پھر یہی صدا آئے گی لا الہ الا اللہ میں محض زبان کی نوک سے ادا کیے جانے کے انداز کی بات نہیں کرتا یقین اور صرف یقین کی بات کرتا ہوں۔ کبھی کسی قبرستان سے گزریں جہاں ارواح کے بدن ایک بار پھر سب کچھ مٹ جانے کے انتظار میں ہیں جب پکارا جائے گا لا الہ الا اللہ اس کا یقین ایسے قبرستانوں، شمشان گھاٹوں سے گزریں تو اور بھی بڑھ جاتا ہے جس کا ایک درس استغفار، صبر اور شکر تمام مذاہب کی یہ تین دیواریں اور سامنے عبادات کے طریقے ہیں۔ اپنے اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق عام معرفت کے معنی تو سب جانتے ہیں کہ تو جانتا اور پہچانتا ہے۔
جو دنیاوی علم اور کامیابی کیلئے الگ ہے مگر قرب الٰہی کے لیے معرفت الٰہی لازم ہے اللہ کی معرفت اس کو مانتے چلے جانے میں چھپی ہے۔ اس کی مخلوقات کے مشاہدے اور مخلوقات کی بے بسی میں چھپی ہے۔ تاریخ کے کھنڈرات میں چھپی ہے۔ ڈھلتے بدن، جانداروں کے روبہ زوال اعضاءمیں چھپی ہے اور پھر بڑے بڑے شہ زور اولیاءاللہ تو درکنار اس کے پیغمبر جن کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلائے ان کے، اپنے اپنے مسکن میں خود آرام فرماتے ہوئے، پیغام میں چھپی ہے بزرگوں کے بقول معرفت الٰہی کہ آدمی اللہ کو پہچانے۔ وہ اپنے شعور کو اِس طرح بیدار کرے کہ اس کو خالق اور مخلوق، عبد اور معبود کے درمیان تعلق کی گہری پہچان ہو جائے۔ معرفت شعوری دریافت کا نام ہے، وہ کسی پُراسرار چیز کا نام نہیں۔ ادراک معرفت یا عرفان کا لغوی مطلب ہے کہ آدمی کسی چیز کی علامت میں غور و فکر کر کے اس کی حقیقت کو دریافت کرے۔ اللہ کی معرفت یہ ہے کہ انسان اللہ کو اس کی نشانیوں میں غور و فکر کے ذریعے دریافت کرے، نہ کہ اس کی ذات میں۔اِس سے معلوم ہوا کہ معرفت کا تعلق مجرد علم سے نہیں ہے، بلکہ معرفت کا تعلق غور و فکر سے ہے۔ علم کسی آدمی کے اندرمعرفت کی ابتدائی صلاحیت پیدا کرتا ہے، یعنی چیزوں پر گہرائی کے ساتھ غور و فکر کرنا۔ جب کوئی شخص معرفت کو اپنا مرکزِ توجہ بناتا ہے، وہ مسلسل طور پر اس کے بارے میں سوچتا ہے، وہ تخلیقات میں خالق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس غور وفکر کے نتیجے میں اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے۔ جس شخص کو اِس قسم کی معرفت حاصل ہو جائے، وہ انتہائی سنجیدہ شخص بن جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کو عارفانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ شدت کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے لگتا ہے۔ اس کی عبادت اور اس کے اخلاق و معاملات میں معرفت کے اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس کو فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا لگاو¿ سب سے زیادہ ان چیزوں میں ہو جاتا ہے جو معرفت کی غذا دینے والی ہوں۔ وہ معرفت کے ماحول میں جیتا ہے اور معرفت کی ہواو¿ں میں سانس لیتا ہے۔
اب یہ یاد رہے کہ لا الہ الا اللہ کی حقانیت پر صرف جو مسلمان قبضہ سمجھتے ہیں ایسا ہرگز نہیں یہ تسبیح تو کائنات کی ہر چیز کرتی ہے یقینا انسان سے زیادہ کرتی ہو گی کچھ علماءروحانی ابلاغ میں ابتلا اور رغبت کو شخصیت پرستی کہتے ہیں اور اس کے مخالف ہیں۔ کیا ناصح کا خیال اس سے رغبت اس کا روح و بدن میں سرایت کر جانا بدعت ہے، نہیں یہ بے اختیاری ہے جو مولانا رومیؒ ہوں یا اقبالؒ بھی مبتلا رہے خود صحابہ اجمعین اور انبیاءبھلے اولاد کی جدائی میں ہو اس میں مبتلا رہے۔ دراصل ان زبانی جمع خرچ کرنے والوں کا گزارا چلتا ہے انسان جبلتی طور پر یقین چاہتا ہے، سرشاری کی تلاش میں ہوتا ہے۔ محبوب حقیقی تک پہنچنے کے راستے اور ہستیاں بھی اسے محبوب ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی پرندہ مارنے کے بعد زندہ کر دکھانے کی بات کی جس پر رحمن نے کہا کہ ابراہیم تم بھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ اللہ میں یقین رکھتا ہوں بس ذرا اطمینان کے لیے اور پھر رحمت العالمین جو عالمین کے لیے رسول اور پیغمبر کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں کے لیے اللہ نے فرمایا کہ جس نے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی اس نے میرے ہاتھ پر بیعت کی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور دوسری جگہ فرمایا اے نبی مٹی کی مٹھی جو آپ نے کفار کی طرف پھینکی وہ آپ کی نہیں میری مٹھی تھی (مفہوم) کیا کسی کو اندازہ ہے کہ صحابہ اجمعین کے ایمان کا قلزم کس طرح فراٹے بھرتا ہو گا۔ یہ نشانیاں اور عظمتیں دراصل انسانوں کے اطمینان اور سکون اور آقا کے رتبے جن کا ذکر بلند کیا گیا کو ثابت کرنے کا اعلان کرنے کے لیے ہیں۔ آپ ذرا غور فرمایئے کہ کرونا جو قیامت کا ٹریلر تھا دنیا کی تمام ترقی انسان کی تمام کامیابی اس وائرس کے سامنے ڈھیر نہ ہوئی تھی اگر کرونا محبوب کو محبوب سے دور کر گیا، بیٹوں کو باپ سے، ماﺅں کو جگر گوشوں سے اجتناب کا درس دے گیا۔ کلب، بازار، مارکیٹ حتیٰ کہ دل سنسان ہو گئے اور سناٹوں کا شور عام ہو گیا۔ اس سناٹے اس میں کیا کوئی دوسری آواز رہ گئی تھی سوائے لا الہ الا اللہ کے اور تو اور ملحدین کے روح و قلوب سے بھی دم توڑتے ہوئے شور سے ہی آواز آتی تھی لا الہ الا اللہ۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: معرفت ال ہی غور و فکر جاتا ہے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس

صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سینئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کے خلاف منشیات اور دہشت گردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس جاری کردیا، یہ مقدمہ گزشتہ سال 28 نومبر کو مارگلہ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر سرکاری اسلحہ چھیننے، پولیس ناکے پر گاڑی ٹکرانے اور منشیات رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
مطیع اللّٰہ جان کے خلاف قانونی کارروائی پر صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے شدید تنقید کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں گزشتہ سال نومبر میں پی ٹی آئی مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی رپورٹنگ کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آج کی سماعت کے آغاز پر وکیل میاں علی اشفاق نے مطیع اللّٰہ جان کی جانب سے عدالت میں وکالت نامہ جمع کرایا، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ صحافی کو اس مقدمے میں ’دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘۔
جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ معاملے میں پولیس کا مؤقف سننا بھی ضروری ہے، اور مطیع اللّٰہ جان کی مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست پر پولیس کو 8 نومبر کے لیے نوٹس جاری کر دیا، سماعت اسی تاریخ تک ملتوی کر دی گئی۔

سماعت کے دوران وکیل ایمان زینب مزاری، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ، اور دیگر صحافی بھی موجود تھے۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مطیع اللّٰہ جان کی بریت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور انہیں مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کی تھیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ متعدد سینئر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مطیع اللّٰہ جان کے خلاف درج مقدمہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مطیع اللّٰہ جان کی گرفتاری
پولیس کے مطابق، 26 نومبر 2024 کی رات مطیع اللّٰہ جان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب سیکٹر ای 9 میں پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا اور انہوں نے مبینہ طور پر گرفتاری کے خلاف مزاحمت کی، گاڑی پولیس ناکے سے ٹکرا دی اور سرکاری اسلحہ چھین لیا۔

ایف آئی آر میں منشیات ایکٹ (سی این ایس اے) کی دفعہ 9(2)4 شامل کی گئی ہے، جس کے تحت ان پر 100 سے 500 گرام آئس رکھنے کا الزام ہے، جبکہ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد میں یہ فیصلہ کالعدم قرار دے کر انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا، بعد ازاں وکلا ایمان زینب مزاری اور ہادی علی چٹھہ نے ان کی ضمانت بعد از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔
مطیع اللّٰہ جان نے اس کے بعد اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی گرفتاری سے قبل اغوا اور تشدد کے الزامات عائد کیے۔
خط میں ان کا کہنا تھا کہ 27 نومبر 2024 کو انہیں اور صحافی ثاقب بشیر کو پمز ہسپتال کی پارکنگ سے پولیس وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کیا، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا، جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعد میں پولیس نے مارگلہ تھانے میں ان کے خلاف جعلی مقدمہ درج کیا، جس میں دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات لگائے گئے، مطیع اللّٰہ جان کے مطابق ان کے ساتھی صحافی کا حلفیہ بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا، جس میں اغوا کی تصدیق کی گئی۔
انہوں نے اپنے 2020 کے اغوا کے واقعے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات ان کے آئینی، پیشہ ورانہ اور صحافتی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، جو 2021 کے ’تحفظِ صحافی و میڈیا پروفیشنلز ایکٹ‘ کے منافی ہیں۔
انہوں نے آئی جی اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ معاملے کی غیرجانبدار اور دیانت دار افسر کے ذریعے شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: پنجاب حکومت وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کن مرحلہ، پیپلزپارٹی کی بڑی بیٹھک آج ہوگی جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں، جسٹس مسرت ہلالی تباہ کن اسلحہ کے ساتھ گھروں کو لوٹنے والے پناہ گزین نہیں دہشت گرد ہیں، خواجہ آصف قطری وزیراعظم نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام فلسطینی گروہ پر عائد کردیا ٹی ایل پی پر پابندی لگنا اچھی بات ہے، پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نابالغ ہے، فواد چودھری غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • تجدید وتجدّْ
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس