چیمپئینز ٹرافی کے گروپ اے میں سیمی فائنل کی مضبوط دعویدار افغانستان کی ٹیم کو شاداب الیون نے 144 رنز کے بڑے مارجن سے ہرادیا۔

جمعے کے روز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی کی تیاریوں کے سلسلے میں پہلا وارم اَپ میچ کھیلا گیا، جس میں پاکستان شاہینز کی کپتانی آل راؤنڈر شاداب خان کررہے تھے۔

پاکستان شاہینز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے حسین طلعت، محمد عرفان خان اور محسن ریاض کی نصف سنچریوں کی بدولت مقررہ 50 اوورز میں 314/8 کا بڑا مجموعہ بورڈ پر لگایا۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ نے پاکستان کو شکست دیکر سہ ملکی سیریز کا ٹائٹل اپنے نام کرلیا

حسین طلعت 70 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے، اس کے بعد محسن اور عرفان نے بالترتیب 61 اور 57 رنز بنائے۔

ہدف کے تعاقب میں افغانستان کی بیٹنگ یونٹ 38.

4 اوورز میں محض 170 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی اور میگا ایونٹ کے آغاز سے  قبل انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

مزید پڑھیں: سپر اسٹارز جو بدقسمتی سے چیمپئنز ٹرافی سے باہر رہیں گے

شاہینز کی جانب سے کپتان شاداب خان نے 29 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔

افغان ٹیم شاہینز سے شکست کے بعد اپنا دوسرا وارم اَپ میچ نیوزی لینڈ کیخلاف 16 فروری کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے گی۔

مزید پڑھیں: ہیڈ کوچ عاقب جاوید کا بابراعظم کے حوالے سے اہم بیان

دوسری جانب پاکستان شاہینز کا مقابلہ 17 فروری کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں جنوبی افریقا سے ہوگا جبکہ اس کا دوسرا اسکواڈ اسی دن دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں بنگلادیش کے خلاف ایکشن میں ہوگا۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا دور

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

 اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔

علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل 10 ،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے کراچی کنگز کو پانچ رنز سے ہرادیا
  • بھارتی باکسر کو دھول چٹانے والے عثمان وزیر پاکستان کب پہنچیں گے؟
  • ایشیا کپ ویمنز بیس بال کوالیفائرز، پاکستان کی ایران اور سری لنکا کو شکست
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • بھارت میں ایشیاکپ، ٹی20 ورلڈکپ اور چیمپئینز ٹرافی کا مستقبل کیا ہوگا؟
  • طورخم بارڈر سے مزید 2258 افراد واپس افغانستان چلے گئے
  • پی ایس ایل؛ شاداب نے کونسا اہم سنگ میل عبور کیا؟
  • شاداب خان نے پی ایس ایل میں وکٹوں کی سنچری مکمل کرلی
  • پی ایس ایل؛ میچ کے دوران اسکول ٹیچر کے پیپرز چیک کرنے کی ویڈیو وائرل