فوج ملک کی معاشی ترقی کے عمل میں بھرپور حمایت جاری رکھے گی، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت مختصر وقت میں کامیابیاں حوصلہ افزا اور ترقی کی نوید ہیں۔ فوج ملک کی معاشی ترقی کے عمل میں بھرپور حمایت جاری رکھے گی۔
چولستان میں ’گرین پاکستان‘ منصوبے کا آغاز، کنڈائی اور شاپو کے علاقوں میں منصوبوں کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے مختصر وقت میں پنجاب حکومت کے گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت کاوشوں اور حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سراہا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس بن گیا ہے۔ جدید زراعت میں صوبہ پنجاب اور یہاں کے کسانوں کا قائدانہ کردار قابل تحسین ہے۔
مزید پڑھیں: مجھے کوئی خط نہیں ملا، ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر
وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ چولستان اور پنجاب میں آج جدید زراعت کے انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔ آج ان منصوبوں کا آغاز پنجاب کے کسانوں کی ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ زراعت کی ترقی کسان کی ترقی اور پاکستان کی خوش حالی کی ضمانت ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ گرین پاکستان جدید زراعت کے فروغ کا انقلاب ہے۔ وزیراعلی نے شہدا کے بچوں اور زخمی ہونے والے غازیوں کو زمین کی الاٹمنٹ کے خطوط بھی دیے۔
’گرین ایگری مال اینڈ سروسز سروس کمپنی‘ کسانوں کو ان کے گھر کے دروازے پر معیاری بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات رعایتی قیمت پر فراہم کرے گی۔ کسانوں کو ڈرونز سمیت زرعی مشینری رعایتی کرائے پر دستیاب ہو گی۔ ایک چھت تلے، ایک کمپنی کے ذریعے کسانوں کو زراعت سے متعلق تمام سہولت میسر ہوں گی۔
مزید پڑھیں: نوجوان خود کو ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنائیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر
پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل جدید زرعی فارم کا بھی آغاز۔ فارم جدید زراعت کی مثال بنے گا، جدید زرعی طریقے اور آبپاشی کا جدید نظام استعمال کیا جائے گا۔ پانی کے کم استعمال اور لاگت اور لاگت سے زیادہ پیداوار حاصل ہوگی۔
زرعی تحقیق اور سہولت مرکز میں زراعت کے شعبے سے متعلق تمام اشیا اور سہولیات دستیاب ہوں گی۔ زمین کی جانچ سمیت تحقیق سے متعلق لیبارٹری کی تمام خدمات بھی فراہم ہوں گی۔ یہ ادارہ زرعی تعلیم اور تحقیق کرنے والے ملک بھر کے تمام داروں کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔
نیشنل فوڈ سیکیورٹی و تحقیق کے وفاقی وزیر رانا تنویر حسین، وفاقی وزیر آبی وسائل ڈاکٹر مصدق ملک، پنجاب کی سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب، وزیر زراعت لائیو اینڈ سٹاک سید عاشق حسین کرمانی، وزیر آبپاشی محمد کاظم پیرزادہ کے علاوہ متعلقہ وفاقی اور صوبائی سیکریٹری بھی تقریب میں موجود تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرمی چیف آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر پنجاب کسان مرم نواز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا رمی چیف ا رمی چیف جنرل سید عاصم منیر مرم نواز رمی چیف جنرل سید عاصم منیر ا رمی چیف کی ترقی
پڑھیں:
صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) دنیا میں صنفی مساوات کی جانب پیشرفت سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی قیمت انسانی جانوں، حقوق، اور مواقع کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں دہائی کے آخر تک 351 ملین سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں شدید غربت کا شکار ہوں گی۔
اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کے لیے ادارے 'یو این ویمن' کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً 10 فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔
(جاری ہے)
گزشتہ سال ہی 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لیے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اب بھی دنیا بھر میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔گزشتہ سال ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو اپنے شریکِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی۔
علاوہ ازیں، ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچیوں کو جنسی اعضا کی قطع و برید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے نصف کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔
2000 سے اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔
یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ 1997 میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔
تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ صرف 25 یا 30 سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔صنفی ڈیجیٹل تقسیمصنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج 70 فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح 65 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو 2050 تک مزید 34 کروڑ 35 لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور 3 کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔
اس طرح 2030 تک عالمی معیشت میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
معلومات میں کمی کا مسئلہیو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات میں 25 فیصد کمی آ گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں تو 2050 تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں 11 کروڑ کی کمی ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں 342 ٹریلین ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف 27.2 فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی 35.5 فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف 30 فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین ہفتہ شروع ہونے سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب صنفی مساوات کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔سارہ ہینڈرکس نے عالمی رہنماؤں کو 'یو این ویمن کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور نیا راستہ بھی موجود ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو گی۔
یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں سیاسی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گی۔رپورٹ میں 2030 تک تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے صنفی مساوات کی خاطر چھ ترجیحی شعبوں میں کام کی سفارش کی گئی ہے جن میں ڈیجیٹل انقلاب، غربت سے آزادی، تشدد سے مکمل تحفظ، فیصلہ سازی میں برابر شرکت، امن و سلامتی اور ماحولیاتی انصاف شامل ہیں۔