32 سال سے انصاف کی منتظر خاتون جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب کی سپریم کورٹ تعیناتی سے کیوں پریشان ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اِسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔سیون/ون میں واقع مکان نمبر 5 کی ملکیت کا 1993/94 سے شروع ہونے والا تنازع اِسلام آباد کی ماتحت عدلیہ سے ہوتا ہوا گزشتہ کئی برس سے اِسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التواء اور فیصلے کا منتظر ہے۔
نیوزی لینڈ میں مقیم درخواست گزار کے مطابق اگست 1991 میں مذکورہ گھر باقاعدہ وصیت اور ایگریمنٹ کے بعد اُن کے والد نے اُن کو گِفٹ کیا گیا لیکن چونکہ وہ اپنے والد کی حقیقی اولاد نہیں اور اُن کے والد نے اُن کو پیدائش کے چند روز کے بعد گود لیا تھا، اِس لیے اُن کے والد کے رشتے داروں نے وراثت کے قانون کے تحت مکان پر دعوٰی کر دیا اور 1993/94 سے شروع ہونے والا تنازع ابھی بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب کے پاس زیرِالتواء ہے جس کی اگلی تاریخ سماعت 4 مارچ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں خواتین اور ملکیت کا فقدان
مسماۃ طاہرہ طفیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب اِس مقدمے کی سماعت کر رہے تھے اور اب یہ مقدمہ جب اپنے اختتام کے قریب تھا کہ اُنہیں جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب کی سپریم کورٹ تقرری کے بارے میں پتہ چلا۔
’میں 32 سال سے انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہوں، میں اِس مقدمے پر وکیلوں کو فیسیں دے دے کر تنگ آ چُکی ہوں اور اب جب یہ مقدمہ اپنے اختتام کے قریب تھا کہ جج صاحب سپریم کورٹ چلے گئے، اب پھر نئے سرے سے یہ کسی جج کے پاس جائے گا پھر سے تاریخیں اور لمبا انتظار، مجھے لگتا ہے یہ میرے زندگی میں فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔‘
مسماۃ طاہرہ طفیل کے مطابق سی ڈی اے ریکارڈ میں مکان آج بھی اُن کے والد کرنل طفیل کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ لیکن مکان ہمیشہ سے اُن کے قبضے ہی میں رہا ہے اور وہی اِس مکان کا پراپرٹی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔
درخواست گزار نے وی نیوز کو بتایا کہ اُن کے والد کے قانونی وارثان میں اُن کی ایک پھپھو اور بھتیجا شامل تھے۔ لیکن باقی بیش قیمت جائیدادیں دیگر ورثاء کو چلی گئیں جبکہ مذکورہ مکان اُن کے والد نے اگست 1991 میں اُن کی شادی کے فوراً بعد اُن کو دے دیا۔
یہ بھی پڑھیے: چیف جسٹس بھٹو کیس کے بجائے زیر التوا مقدمات سنتے تو زیادہ اچھا ہوتا، اعجازالحق
طاہرہ طفیل کے مطابق اُن کے والد نے مکان نام کئے جانے سے متعلق ایک تحریری معاہدہ بھی دیگر وارثان کے ساتھ کیا۔ لیکن جب 1993 میں سی ڈی اے میں مکان کی ملکیت تبدیلی کے لیے گئیں تو اُن کے والد کے بھتیجے نے مکان کی تقسیم کے لئے مقدمہ کر دیا۔
طاہرہ طفیل کے مطابق سول عدالت میں اُن کی پھوپھو اور اُن کے بیٹے نے اُن کے حق میں بیان دیا تاہم سول عدالت نے مذکورہ بیانات کا ذکر نہ کرتے ہوئے فیصلہ اُن کے خلاف کر دیا۔ اور اُس کے بعد سے یہ مقدمہ اِسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِالتواء ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس میاں گ ل حسن اورنگزیب ا ن کے والد نے ا سلام ا باد کے مطابق
پڑھیں:
اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 ستمبر 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف عمران خان نے چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کو خط لکھ دیا جس میں سابق وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اپنے حلف کی پاسداری کریں اور جرات مندانہ فیصلے کریں، آپ کے دلیرانہ فیصلے قوم کی تقدیر کی کتاب میں لکھے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے خط میں انہوں نے لکھا کہ میں آپ کو سپریم کورٹ سے صرف 31 کلومیٹر کی دوری سے یہ خط لکھ رہا ہوں جہاں کے دروازے مجھے اور میری اہلیہ کو انصاف دینے کےلیے 772 دن سے بند ہیں، میری اہلیہ بشریٰ بی بی نہایت صبر و تحمل سے غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک برداشت کر رہی ہیں وہ تنہائی میں قید ہیں۔ عمران خان لکھتے ہیں کہ بشریٰ بی بی طبی علاج سے محروم، ٹی وی، کتابوں، یا باہر کی دنیا سے رابطے سے دور ہیں، نہ ہی اُنہیں علاج کی سہولت دی گئی ہے، پاکستانی قانون خواتین کو ضمانت کے لیے خصوصی رعایت دیتا ہے لیکن بشریٰ بی بی کے کیس میں یہ اصول معطل کر دیا گیا، صرف اس لیے کہ وہ میری بیوی ہیں، وہ اُنہیں توڑنا چاہتے ہیں لیکن اُنہیں اس طاقت کا اندازہ نہیں جو اُن کے ایمان سے اُنہیں ملتی ہے۔(جاری ہے)
سابق وزیراعظم نے خط میں بتایا کہ 300 سے زائد سیاسی مقدمات قائم کیے گیے ہیں، بشریٰ بی بی کی صحت بگڑ رہی ہے لیکن ڈاکٹر کو معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں، آج پاکستان فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اپنے حلف کو پورا کریں اور ثابت کریں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اب بھی انصاف کی آخری پناہ ہے، سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی ضامن ہے، عدلیہ کی آزادی کو بحال کریں، امید ہے آپ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف فراہم کریں گے۔