امریکی معیشت کو بچانے کی کوشش
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک جزیرہ نہیں یعنی الگ تھلگ نہیں۔ سبھی ایک نادیدہ دھاگے یا لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ٹیکنالوجیز نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔ کسی ایک ملک کے حالات دوسروں پر اثر انداز نہ ہوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ بڑی طاقتیں جو فیصلے کر رہی ہیں وہ دور افتادہ خطوں کے الگ تھلگ سے ممالک پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔ امریکی قیادت یہ سمجھتی رہی ہے کہ جو کچھ بھی اُس نے حاصل کیا ہے وہ صرف اُس کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اشتراکِ عمل نے اب بہت کچھ بہت آسانی سے ممکن بنادیا ہے۔ بڑی طاقتیں اشتراکِ عمل کو اپنے حق میں بہت عمدگی سے استعمال کر رہی ہیں۔ دوسری بار امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی تابڑ توڑ نوعیت کے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیے ہیں۔ کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کے معاملے میں ٹرمپ نے غیر معمولی عجلت دکھائی اور اب بھارت پر بھی درآمدی ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔ چین کے خلاف 10 فی صد درآمدی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ چین نے بھی ایسے ہی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا تھا۔
چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک کے اوپینین ایڈیٹر یاسر مسعود نے امریکی ماہر ِ معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفرے شیس کو انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں تجارت کے حوالے سے امریکا کو بچانے کے اقدامات سے متعلق بات کی گئی، اُن کا جائزہ لیا گیا۔ جیفرے شیس نے امریکی حکومت کے ہتھکنڈوں کے حوالے سے غیر معمولی تشویش ظاہر کی۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ یک طرفہ طور پر ٹیرف نافذ کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندانہ نہیں۔ اس معاملے میں فریق ِ ثانی کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چین کوئی چھوٹا موٹا نہیں بلکہ امریکا کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ اُسے کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی سیاسی قیادت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ غیر معمولی اثرات کا حامل ثابت ہوگا کیونکہ امریکا بڑا ملک ہے اور اِس کے اقدامات کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔
پروفیسر جیفرے شیس کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ امریکا کو معاشی اعتبار سے بچانے کے لیے جو طریق ِ کار اختیار کر رہے ہیں وہ دانش مندانہ نہیں کیونکہ اِس سے صرف امریکا نہیں بلکہ عالمی معیشت کو بھی دھچکا لگے گا۔ دفاعی نوعیت کی معیشت آج کل چلتی نہیں۔ فی زمانہ وہی معیشت کامیاب رہتی ہے جو مسابقت کا سامنا کرتی ہے، اپنے آپ کو پروان چڑھاتی ہے، نئے طریقے اختیار کرکے اپنے لیے تنوع کا اہتمام کرتی ہے اور میدان میں رہ کر ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتی ہے۔
کیا کسی بھی معیشت کو بچانے کے لیے کیے جانے والے خصوصی نوعیت کے اقدامات ہر اعتبار سے مطلوب نتائج پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب پروفیسر جیفرے شیس نفی میں دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں انہوں نے اسموٹ ہالے ٹیرف ایکٹ کا حوالہ دیا ہے۔ امریکا نے اپنی معیشت کو بیرونی مسابقت سے بچانے کے لیے اور زیادہ سے زیادہ موافق کیفیت پیدا کرنے کے لیے 1930 کے عشرے کے معاشی بحران کے دوران اسموٹ ہالے ٹیرف ایکٹ نافذ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پروٹیکشن ازم کی لہر دوڑ گئی، کئی معیشتیں بُری طرح الجھ کر رہ گئیں۔ یہ سب کچھ عالمی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل تھا۔ اپنی معیشت کو بچانے کے لیے امریکا نے کئی معیشتوں کو داؤ پر لگادیا۔ جیفرے شیس خبردار کرتے ہیں کہ امریکا کی طرف سے صرف اپنی معیشت کو بچانے کی کوششیں عالمی سطح پر تجارت میں کمی، اقوامِ عالم کے درمیان پُرامن تعلقات کے خاتمے اور تیسری عالمی جنگ پر منتج ہوسکتی ہیں۔ تاریخی اسباق کی روشنی میں پروفیسر جیفرے شیس نے بتایا ہے کہ امریکی قیادت چین کے خلاف جانے کی باتیں کرتی رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چین کی تیز رفتار ترقی سے دوسروں کے ساتھ ساتھ خود امریکا کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔ چینی معیشت کی تیزی اور نمو سے امریکا میں صنعتوں کو فروغ حاصل ہوا اور ڈجیٹل انقلاب برپا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی معیشت کی وسعت نے امریکا میں صنعتوں اور لوگوں کو مالدار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سوئنگ اسٹیٹس میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے چین کے خلاف تجارتی اقدامات کی بڑھک کو پروان چڑھایا۔ بہر کیف اس بات کی امید کی جانی چاہیے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دانش مند حکام حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جن سے دو طرفہ تجارتی کشیدگی کو ہوا ملتی ہو کیونکہ بے احتیاطی سے عالمی تجارت خطرناک نتائج سے دوچار ہوسکتی ہے۔ جو کچھ ٹرمپ چاہتے ہیں وہ اچھی خاصی تلخی پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جیفرے شیس کہتے ہیں کہ یورپ کو امریکا کی تقلید کرنے کے بجائے چین سے تجارت جاری رکھنی چاہیے۔ پروٹیکشن ازم کے نام پر تجارت ہی کو داؤ پر لگانا انتہائے حماقت ہے۔ امریکا سے ہٹ کر بھی دنیا ہے اور چین باقی دنیا کو کم قیمت میں ٹیکنالوجیز فراہم کرنے والا ایک سپلائر ہے۔ جیفرے شیس کے دلائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروٹیکشن ازم کے نام پر کیے جانے والے اقدامات خرابیاں پیدا کریں گے۔ عالمی سطح پر معیشتوں کو مل کر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے سے الجھ کر وقت اور وسائل ضایع کرنے سے مجتنب رہ سکیں۔ امریکا چین رقابت کے ماحول میں جیفرے شیس کا آزاد اور شفاف تجارت جاری رکھنے کا مشورہ بہت کارگر ہے۔ (چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: معیشت کو بچانے بچانے کے لیے چین کے خلاف کرنے کے کیا ہے
پڑھیں:
واشنگٹن: وزیر خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی رہنماؤں سے ملاقاتیں
— فائل فوٹوواشنگٹن میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی کارپوریٹ رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔
ملاقاتوں میں پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں، سرمایہ کاری کے مواقع اور نجی شعبے کے کردار پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
وزیر خزانہ نے ملک کی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے میں نجی شعبے کے اہم کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں۔
امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا کہ پاکستان 250 ملین کی بڑی مارکیٹ ہے اور وہ وسطی ایشیا، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے لیے گیٹ وے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
انہوں نے امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر اور معدنیات میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی۔
ورلڈ بینک کے نائب صدر مارٹن ریزر نے بھی پاکستان کی معاشی استحکام سے متعلق حکومتی پالیسیوں کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے 40 ارب ڈالر کے 10 سالہ پروگرام کا اعلان ورلڈ بینک کے پاکستان سے وابستگی کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر نے بھی حکومتی اصلاحاتی عمل اور اقتصادی پالیسیوں کو سراہا۔