Jasarat News:
2025-11-03@16:36:49 GMT

امریکی معیشت کو بچانے کی کوشش

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

امریکی معیشت کو بچانے کی کوشش

آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک جزیرہ نہیں یعنی الگ تھلگ نہیں۔ سبھی ایک نادیدہ دھاگے یا لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ٹیکنالوجیز نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔ کسی ایک ملک کے حالات دوسروں پر اثر انداز نہ ہوں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ بڑی طاقتیں جو فیصلے کر رہی ہیں وہ دور افتادہ خطوں کے الگ تھلگ سے ممالک پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔ امریکی قیادت یہ سمجھتی رہی ہے کہ جو کچھ بھی اُس نے حاصل کیا ہے وہ صرف اُس کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اشتراکِ عمل نے اب بہت کچھ بہت آسانی سے ممکن بنادیا ہے۔ بڑی طاقتیں اشتراکِ عمل کو اپنے حق میں بہت عمدگی سے استعمال کر رہی ہیں۔ دوسری بار امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی تابڑ توڑ نوعیت کے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیے ہیں۔ کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کے معاملے میں ٹرمپ نے غیر معمولی عجلت دکھائی اور اب بھارت پر بھی درآمدی ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔ چین کے خلاف 10 فی صد درآمدی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ چین نے بھی ایسے ہی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا تھا۔

چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک کے اوپینین ایڈیٹر یاسر مسعود نے امریکی ماہر ِ معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفرے شیس کو انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں تجارت کے حوالے سے امریکا کو بچانے کے اقدامات سے متعلق بات کی گئی، اُن کا جائزہ لیا گیا۔ جیفرے شیس نے امریکی حکومت کے ہتھکنڈوں کے حوالے سے غیر معمولی تشویش ظاہر کی۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ یک طرفہ طور پر ٹیرف نافذ کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندانہ نہیں۔ اس معاملے میں فریق ِ ثانی کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چین کوئی چھوٹا موٹا نہیں بلکہ امریکا کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ اُسے کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی سیاسی قیادت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ غیر معمولی اثرات کا حامل ثابت ہوگا کیونکہ امریکا بڑا ملک ہے اور اِس کے اقدامات کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔

پروفیسر جیفرے شیس کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ امریکا کو معاشی اعتبار سے بچانے کے لیے جو طریق ِ کار اختیار کر رہے ہیں وہ دانش مندانہ نہیں کیونکہ اِس سے صرف امریکا نہیں بلکہ عالمی معیشت کو بھی دھچکا لگے گا۔ دفاعی نوعیت کی معیشت آج کل چلتی نہیں۔ فی زمانہ وہی معیشت کامیاب رہتی ہے جو مسابقت کا سامنا کرتی ہے، اپنے آپ کو پروان چڑھاتی ہے، نئے طریقے اختیار کرکے اپنے لیے تنوع کا اہتمام کرتی ہے اور میدان میں رہ کر ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتی ہے۔

کیا کسی بھی معیشت کو بچانے کے لیے کیے جانے والے خصوصی نوعیت کے اقدامات ہر اعتبار سے مطلوب نتائج پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب پروفیسر جیفرے شیس نفی میں دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں انہوں نے اسموٹ ہالے ٹیرف ایکٹ کا حوالہ دیا ہے۔ امریکا نے اپنی معیشت کو بیرونی مسابقت سے بچانے کے لیے اور زیادہ سے زیادہ موافق کیفیت پیدا کرنے کے لیے 1930 کے عشرے کے معاشی بحران کے دوران اسموٹ ہالے ٹیرف ایکٹ نافذ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پروٹیکشن ازم کی لہر دوڑ گئی، کئی معیشتیں بُری طرح الجھ کر رہ گئیں۔ یہ سب کچھ عالمی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل تھا۔ اپنی معیشت کو بچانے کے لیے امریکا نے کئی معیشتوں کو داؤ پر لگادیا۔ جیفرے شیس خبردار کرتے ہیں کہ امریکا کی طرف سے صرف اپنی معیشت کو بچانے کی کوششیں عالمی سطح پر تجارت میں کمی، اقوامِ عالم کے درمیان پُرامن تعلقات کے خاتمے اور تیسری عالمی جنگ پر منتج ہوسکتی ہیں۔ تاریخی اسباق کی روشنی میں پروفیسر جیفرے شیس نے بتایا ہے کہ امریکی قیادت چین کے خلاف جانے کی باتیں کرتی رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چین کی تیز رفتار ترقی سے دوسروں کے ساتھ ساتھ خود امریکا کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔ چینی معیشت کی تیزی اور نمو سے امریکا میں صنعتوں کو فروغ حاصل ہوا اور ڈجیٹل انقلاب برپا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی معیشت کی وسعت نے امریکا میں صنعتوں اور لوگوں کو مالدار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سوئنگ اسٹیٹس میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے چین کے خلاف تجارتی اقدامات کی بڑھک کو پروان چڑھایا۔ بہر کیف اس بات کی امید کی جانی چاہیے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دانش مند حکام حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جن سے دو طرفہ تجارتی کشیدگی کو ہوا ملتی ہو کیونکہ بے احتیاطی سے عالمی تجارت خطرناک نتائج سے دوچار ہوسکتی ہے۔ جو کچھ ٹرمپ چاہتے ہیں وہ اچھی خاصی تلخی پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جیفرے شیس کہتے ہیں کہ یورپ کو امریکا کی تقلید کرنے کے بجائے چین سے تجارت جاری رکھنی چاہیے۔ پروٹیکشن ازم کے نام پر تجارت ہی کو داؤ پر لگانا انتہائے حماقت ہے۔ امریکا سے ہٹ کر بھی دنیا ہے اور چین باقی دنیا کو کم قیمت میں ٹیکنالوجیز فراہم کرنے والا ایک سپلائر ہے۔ جیفرے شیس کے دلائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروٹیکشن ازم کے نام پر کیے جانے والے اقدامات خرابیاں پیدا کریں گے۔ عالمی سطح پر معیشتوں کو مل کر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے سے الجھ کر وقت اور وسائل ضایع کرنے سے مجتنب رہ سکیں۔ امریکا چین رقابت کے ماحول میں جیفرے شیس کا آزاد اور شفاف تجارت جاری رکھنے کا مشورہ بہت کارگر ہے۔ (چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: معیشت کو بچانے بچانے کے لیے چین کے خلاف کرنے کے کیا ہے

پڑھیں:

روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • وینیزویلا سے جنگ کا امکان کم مگر صدر نکولس مادورو کے دن گنے جاچکے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
  • چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
  • امریکا: دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • امریکا, دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار