مکتی باہنی کمانڈر تائب ہوا
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
وہ بنگالی نیشنلسٹ جو بنگلادیش کی آزادی کی لڑائی میں ہیرو مانا گیا جس نے مکتی باہنی کے کمانڈر کی حیثیت سے لڑائی میں حصہ لیا۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری سال پاکستان میں گزارے ہے نا حیرت کی بات!! اپریل 1971ء میں وہ پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر تھا۔ پھر وہ باغی ہو کر انڈیا کی مدد سے بننے والی مکتی باہنی سے جا ملا۔ وہ تھے میجر عبدالجلیل جو 1985ء کے نصف میں پاکستان آگئے اور پھر آخری دم تک پاکستان ہی میں رہے۔
اپریل 1971ء میں ایک اور باغی میجر ضیا الرحمن نے پہلی بار بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ عبدالجلیل نے بھی بریسال پر قبضے کے بعد بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے آفس کے ایک قاصد سے پاکستانی پرچم اُتار کر بنگلادیش کا پرچم لہرانے کا حکم دیا۔ یہ بنگالی تھا اس نے چوبیس برس تک پاکستانی پرچم لہرانے کی ڈیوٹی ادا کی تھی اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ میجر عبدالجلیل نے بے رحمی سے اس کو پھانسی دے دی۔
باریسال میں باغیوں کی اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کی بائیسویں فرنٹیئر فورس کو باریسال پر قبضہ ختم کرانے کا مشن سونپا گیا۔ اس مشن میں کیپٹن آفتاب نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہ وہی میجر آفتاب ہیں جن کی کتاب ’’آخری سلام‘‘ مشرقی پاکستان کے میدان سے ’’2018ء میں لاہور سے شائع ہوئی جس میں اس کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں ’’پاکستان اور بنگلادیش کے عوام کے نام؛ جن کی کوکھ نظریے اور تاریخ شہدا اور غازی، ماضی کی تلخ یادوں اور حال کی سیاسی مصلحتوں کے باوجود ہمیشہ سانجھے رہیں گے۔ تم اور ہم 1971ء کے المیے، اس جنگ و جدل کے دوران، اس سے پہلے اور بعد آپس میں دشمن تھے نہ ہوسکتے تھے، کبھی اپنے ہم سفر اور ساتھی پھر عروس وطن کے حوالوں سے رقیب اور حریف اور اب اس کی یادوں میں کھوئے اس کے سپاہی اپنے (بنگالی لیفٹیننٹ) کا سلام محبت قبول کرنا جو تمہاری اور اپنی مشرقی سرحد پر شب و روز یہ سوچتے ہوئے پہرے پر رہا کہ اس کی پامالی میں اس کی نہیں تمہاری بھی شکست تھی۔ دشمن تو ایک ہی تھا جس کے ہاتھوں میں تم ہی نہیں ہم بھی کھیلے۔ تمہاری فتح تو قرار داد پاکستان ہی کی فتح ہوتی لیکن اس کی جیت میں ہم سب کی شکست تھی! میرا وہاں اور تمہارا وجود مٹ نہیں سکتا کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو جز ہیں۔ لاہور کی سرحد پر مستعد اور چوکس کھڑے سینئر ٹائیگرز کے شہدا اور جیسور کی بارکوں میں جنگ جمل کے شکار اس وجود کے دائمی گواہ رہیں گے‘‘۔
سچ ہے کہ خانہ جنگی کے المیے کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے جو اگلے مورچوں کے کسی مکین نے ’’وفادار‘‘ دستوں کے باغی فوج (مکتی باہنی) سے جنگ و جدل کے بارے میں تحریر کی ہو۔ جو انہوں نے خاک سے جا ملنے سے قبل ہی کئی حوالوں سے نامہ اعمال کو نئی منزلوں کے نئے راہی نئی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا۔ سبق حاصل کرنے والوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہی میجر آفتاب اپنی ایک اور کتاب ’’ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ میں میجر عبدالجلیل کے ساتھ اپنی معرکہ آرائی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’وہ چھے ماہ تک باریسال سے نکلنے کے بعد سندر بن کے جنگلات میں کیمپ بنا کر چھاپا مار کارروائیاں کرتے رہے اور مکتی باہنی کے رضا کاروں کو تربیت دیتے رہے‘‘۔
لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ واحد کمانڈر تھے جو بنگلادیشی حکمرانوں اور مکتی باہنی کے اصرار کے باوجود ایک روز کے لیے بھی اپنا تربیتی کیمپ انڈین سرزمین پر منتقل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور بنگلادیش کی آزادی کے بعد ان چند افسران میں شامل تھے جنہوں نے انڈین افواج کی بنگلادیش میں لوٹ مار پر احتجاج کیا اور انہیں ملک سے نکل جانے کو کہا۔ بنگلادیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ ’’بیراتم‘‘ سجایا لیکن انہوں نے کرنل شریف دالم کی طرح ان کی انڈین نواز پالیسیوں سے نالاں ہو کر اسے واپس کردیا۔
انڈین مداخلت اور بنگلادیش کی خودمختاری پر حاوی ہوتے اشاروں کے ردعمل کے طور پر انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا، اپنی جماعت بنائی، الیکشن میں 1973ء میں حصہ لیا لیکن ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہ ہوئی۔ دو دفعہ کئی سال کے لیے جیل میں ڈال دیے گئے، رہا ہوئے تو پھر 1981ء میں پھر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام ہوئے، دل برداشتہ ہوئے اور سابقہ وطن واپس لوٹ آئے، جہاں گم نامی کی زندگی گزار کر نومبر 1989ء میں انتقال کرگئے۔ ان سے قریبی لوگ ان کے آخری ایام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضا کار اور پاکستان کے حامی بہاری لوگ شامل تھے ان پر تشدد اور بے رحمی سے قتل پر انتہائی کرب میں مبتلا تھے۔
ہائے اس زود پشیمانی کا پشیماں ہونا
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میجر عبدالجلیل مکتی باہنی کے انہوں نے حصہ لیا کے بعد
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)