Jasarat News:
2025-06-11@23:17:25 GMT

مکتی باہنی کمانڈر تائب ہوا

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

مکتی باہنی کمانڈر تائب ہوا

وہ بنگالی نیشنلسٹ جو بنگلادیش کی آزادی کی لڑائی میں ہیرو مانا گیا جس نے مکتی باہنی کے کمانڈر کی حیثیت سے لڑائی میں حصہ لیا۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری سال پاکستان میں گزارے ہے نا حیرت کی بات!! اپریل 1971ء میں وہ پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر تھا۔ پھر وہ باغی ہو کر انڈیا کی مدد سے بننے والی مکتی باہنی سے جا ملا۔ وہ تھے میجر عبدالجلیل جو 1985ء کے نصف میں پاکستان آگئے اور پھر آخری دم تک پاکستان ہی میں رہے۔

اپریل 1971ء میں ایک اور باغی میجر ضیا الرحمن نے پہلی بار بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ عبدالجلیل نے بھی بریسال پر قبضے کے بعد بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے آفس کے ایک قاصد سے پاکستانی پرچم اُتار کر بنگلادیش کا پرچم لہرانے کا حکم دیا۔ یہ بنگالی تھا اس نے چوبیس برس تک پاکستانی پرچم لہرانے کی ڈیوٹی ادا کی تھی اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ میجر عبدالجلیل نے بے رحمی سے اس کو پھانسی دے دی۔

باریسال میں باغیوں کی اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کی بائیسویں فرنٹیئر فورس کو باریسال پر قبضہ ختم کرانے کا مشن سونپا گیا۔ اس مشن میں کیپٹن آفتاب نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہ وہی میجر آفتاب ہیں جن کی کتاب ’’آخری سلام‘‘ مشرقی پاکستان کے میدان سے ’’2018ء میں لاہور سے شائع ہوئی جس میں اس کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں ’’پاکستان اور بنگلادیش کے عوام کے نام؛ جن کی کوکھ نظریے اور تاریخ شہدا اور غازی، ماضی کی تلخ یادوں اور حال کی سیاسی مصلحتوں کے باوجود ہمیشہ سانجھے رہیں گے۔ تم اور ہم 1971ء کے المیے، اس جنگ و جدل کے دوران، اس سے پہلے اور بعد آپس میں دشمن تھے نہ ہوسکتے تھے، کبھی اپنے ہم سفر اور ساتھی پھر عروس وطن کے حوالوں سے رقیب اور حریف اور اب اس کی یادوں میں کھوئے اس کے سپاہی اپنے (بنگالی لیفٹیننٹ) کا سلام محبت قبول کرنا جو تمہاری اور اپنی مشرقی سرحد پر شب و روز یہ سوچتے ہوئے پہرے پر رہا کہ اس کی پامالی میں اس کی نہیں تمہاری بھی شکست تھی۔ دشمن تو ایک ہی تھا جس کے ہاتھوں میں تم ہی نہیں ہم بھی کھیلے۔ تمہاری فتح تو قرار داد پاکستان ہی کی فتح ہوتی لیکن اس کی جیت میں ہم سب کی شکست تھی! میرا وہاں اور تمہارا وجود مٹ نہیں سکتا کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو جز ہیں۔ لاہور کی سرحد پر مستعد اور چوکس کھڑے سینئر ٹائیگرز کے شہدا اور جیسور کی بارکوں میں جنگ جمل کے شکار اس وجود کے دائمی گواہ رہیں گے‘‘۔

سچ ہے کہ خانہ جنگی کے المیے کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے جو اگلے مورچوں کے کسی مکین نے ’’وفادار‘‘ دستوں کے باغی فوج (مکتی باہنی) سے جنگ و جدل کے بارے میں تحریر کی ہو۔ جو انہوں نے خاک سے جا ملنے سے قبل ہی کئی حوالوں سے نامہ اعمال کو نئی منزلوں کے نئے راہی نئی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا۔ سبق حاصل کرنے والوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہی میجر آفتاب اپنی ایک اور کتاب ’’ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ میں میجر عبدالجلیل کے ساتھ اپنی معرکہ آرائی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’وہ چھے ماہ تک باریسال سے نکلنے کے بعد سندر بن کے جنگلات میں کیمپ بنا کر چھاپا مار کارروائیاں کرتے رہے اور مکتی باہنی کے رضا کاروں کو تربیت دیتے رہے‘‘۔

لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ واحد کمانڈر تھے جو بنگلادیشی حکمرانوں اور مکتی باہنی کے اصرار کے باوجود ایک روز کے لیے بھی اپنا تربیتی کیمپ انڈین سرزمین پر منتقل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور بنگلادیش کی آزادی کے بعد ان چند افسران میں شامل تھے جنہوں نے انڈین افواج کی بنگلادیش میں لوٹ مار پر احتجاج کیا اور انہیں ملک سے نکل جانے کو کہا۔ بنگلادیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ ’’بیراتم‘‘ سجایا لیکن انہوں نے کرنل شریف دالم کی طرح ان کی انڈین نواز پالیسیوں سے نالاں ہو کر اسے واپس کردیا۔

انڈین مداخلت اور بنگلادیش کی خودمختاری پر حاوی ہوتے اشاروں کے ردعمل کے طور پر انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا، اپنی جماعت بنائی، الیکشن میں 1973ء میں حصہ لیا لیکن ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہ ہوئی۔ دو دفعہ کئی سال کے لیے جیل میں ڈال دیے گئے، رہا ہوئے تو پھر 1981ء میں پھر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام ہوئے، دل برداشتہ ہوئے اور سابقہ وطن واپس لوٹ آئے، جہاں گم نامی کی زندگی گزار کر نومبر 1989ء میں انتقال کرگئے۔ ان سے قریبی لوگ ان کے آخری ایام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضا کار اور پاکستان کے حامی بہاری لوگ شامل تھے ان پر تشدد اور بے رحمی سے قتل پر انتہائی کرب میں مبتلا تھے۔

ہائے اس زود پشیمانی کا پشیماں ہونا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میجر عبدالجلیل مکتی باہنی کے انہوں نے حصہ لیا کے بعد

پڑھیں:

پاکستان کے نئے بجٹ میں نیا کیا ہو سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) پاکستان آئندہ مالی سال کے لیے اپنے سالانہ وفاقی بجٹ آج منگل کے روز پیش کر رہا ہے، جس میں معاشی شرح نمو کو رفتار دینے کی کوشش کی جائے گی، جبکہ گزشتہ ماہ بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد دفاعی اخراجات میں متوقع اضافے کے لیے وسائل تلاش کرنے کی بھی کوشش ہو گی۔

یہ بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیا جا رہا ہے جب اسلام آباد کو اپنے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام کے نظم و ضبط کے اندر رہتے ہوئے معیشت کو بحال کرنا ہے۔

امریکہ پاکستان کے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور اس صورت میں واشنگٹن کی جانب سے نئے تجارتی محصولات کے نفاذ کی غیر یقینی صورتحال کا بھی اسے سامنا ہے۔

پاکستان: رواں مالی سال اقتصادی شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کی توقع

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حکومت ممکنہ طور پر یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے 17.6 ٹریلین روپے (62.45 بلین ڈالر) کا بجٹ پیش کرے گی، جو رواں مالی سال کے بجٹ سے 6.7 فیصد کم ہے۔

(جاری ہے)

اطلاعات کے مطابق حکومت نے جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) کے 4.8 فیصد کے مالیاتی خسارے کا تخمینہ لگایا ہے، جبکہ 2024-25 میں اس خسارے کا ہدف 5.9 فیصد تک تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس بار اپنے دفاعی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد اضافے کی توقع ہے، جو ممکنہ طور پر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیوں سے پورا کیا جائے گا۔

پاکستان کا تقریباً انیس ٹریلین کا بجٹ، عوام کے لیے بھی کچھ ہے؟

پاکستان نے اپنے پچھلے بجٹ میں دفاع کے لیے 2.1 ٹریلین پاکستانی روپے (7.45 بلین امریکی ڈالر) مختص کیے تھے، جس میں دو بلین ڈالر کے عسکری آلات اور دیگر اثاثے بھی شامل تھے۔

اس بجٹ میں فوجیوں کے پنشن کے لیے اضافی 563 بلین روپے (1.99 بلین ڈالر) مختص کیے گئے تھے، جن کا شمار سرکاری دفاعی بجٹ میں نہیں کیا جاتا ہے۔

بھارت نے اپنے رواں سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 78.7 بلین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی تھی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 9.5 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں فوجیوں کی پینشن اور ہتھیاروں کے لیے 21 بلین ڈالر کی رقم بھی شامل تھی۔

بھارت نے بھی مئی میں پاکستان کے ساتھ تنازعے کے بعد دفاعی اخراجات میں اضافے کا اشارہ کیا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے 2025-26 میں 4.2 فیصد اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے معیشت کو مستحکم کیا ہے، جو حال ہی میں 2023 تک اپنے قرضوں کی ادائیگی کے خطرے سے دوچار تھی۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں 3.6 فیصد کے ابتدائی ہدف کے مقابلے میں، رواں مالی سال میں شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

خطے میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار بہت کم ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 2024 میں، جنوبی ایشیائی ممالک میں اوسطاً 5.8 فیصد کی شرح سے معیشتوں نے ترقی کی، جبکہ 2025 میں 6.0 فیصد کی شرح نمو کی توقع ہے۔

بلوچستان کی محرومیوں پر توجہ دیں گے، شہباز شریف

شرح سود میں کمی کافی نہیں

حکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کمی کے بعد، قرض لینے کی لاگت میں تیزی سے کمی آنے کے سبب معیشت کی توسیع میں مدد ملنی چاہیے۔

لیکن ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مقرر کردہ ایسی اصلاحات کے ہوتے ہوئے صرف مالیاتی پالیسی کا نفاذ کافی نہیں ہے، جو سرمایہ کاری پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کے روز کہا کہ وہ ماضی میں پاکستان کے عروج اور ٹوٹ پھوٹ کے چکر سے بچنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے جو میکرو اکنامک استحکام حاصل کیا ہے، ہم بالکل اسی پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔

اس بار ہم بہت واضح ہیں کہ ہمیں موقع کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔"

توقع ہے کہ بجٹ میں ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے، زراعت سے متعلق انکم ٹیکس کے قوانین کو نافذ کرنے اور صنعت کو دی جانے والی حکومتی رعایات کو کم کرنے کو ترجیح دی جائے گی، تاکہ گزشتہ موسم گرما میں دستخط کیے گئے آئی ایم ایف کے سات بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی شرائط کو پورا کیا جا سکے۔

ٹیکس حکام کے مطابق سن 2024 میں صرف 1.3 فیصد آبادی نے انکم ٹیکس ادا کیا، جس میں زراعت اور بیشتر خوردہ شعبہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اصلاحات کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرے، جس میں زراعت، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانا شامل ہے۔

گلوبل مارکیٹ انٹیلیجنس ایس اینڈ پی کے سینیئر ماہر اقتصادیات احمد مبین کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کی توقع ہے کہ 2025-26 کے لیے محصول کا ہدف حاصل نہیں ہو پائے گا۔

پاکستان مہنگائی میں کمی کا ہدف پورا کرے، آئی ایم ایف

مبین نے کہا کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ "یہ کمی اس لیے رہے گی، کیونکہ زیادہ تر اعلان کردہ اقدامات کا نفاذ نہیں ہو پاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی عام طور پر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے، جو بامعنی ساختی اصلاحات چاہیں وہ بھی نہیں کی جاتی ہیں۔"

ص ز/ ج ا (روئٹرز)

متعلقہ مضامین

  • پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں غیر معمولی شراکت دار رہا؛ امریکی کمانڈر کا اعتراف
  • نسیم، عامر اور علی رضا دورہ بنگلادیش اور ویسٹ انڈیز سے نظر انداز، مگر کیوں؟
  • حارث کے بعد روحیل! رضوان کی مشکلات میں مزید اضافہ
  • پاک ویسٹ انڈیز 3 ون ڈے میچز کو ٹی20 میں تبدیل کرنے کی تجویز
  • ایران، داعش کے 9 دہشتگردوں کو جرم ثابت ہونے پر پھانسی دیدی گئی
  • ایران، داعش کے 9 دہشت گردوں کو ضرم ثابت ہونے پر پھانسی دے دی گئی
  • آئی ایم ایف کا پاکستان کے بجٹ سازی پر اثر
  • پاکستان کے نئے بجٹ میں نیا کیا ہو سکتا ہے؟
  • لکی مروت، اہم دہشتگرد کمانڈر چھوٹا وسیم گنڈی خانخیل سمیت 3 خوارج ہلاک
  • لکی مروت: اہم مقامی دہشت گرد کمانڈر چھوٹا وسیم گنڈی خانخیل سمیت 3 خوارج ہلاک