حیدرآباد آتشزدگی سے معروف شاعر کی موت کا معاملہ مشکوک ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)حیدرآباد کے علاقے سٹیزن کالونی کے ایک گھر میں آ گ لگ جانے کے باعث سندھ کے معروف شاعر وادیب ڈاکٹر آ کاش انصاری جھلس کر جاں بحق ہو گئے جبکہ ان کا بیٹا زخمی ہوگیا جسے سول اسپتال کے برنس وارڈ میں داخل کرادیا۔ سٹیزن کالونی میں رہائش پذیر سندھی شاعر وادیب ڈاکٹر آکاش انصاری کے گھر میں آ گ لگ گئی جس میں جھلس کر 70 سالہ ڈاکٹر آ کاش انصاری جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کا بیٹا جو اپنے باپ کو بچاتے ہوئے زخمی ہوگیا جسے سول ہسپتال کے برنس وارڈ میں داخل کروادیا گیا ہے۔ ڈاکٹر آکاش انصاری اپنے بیٹے کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ ان کی میت کو قانونی کارروائی کے بعد ان کے آ بائی گائوں بدین روانہ کردیا گیا ہے، پولیس نے مرحوم ڈاکٹر آکاش انصاری کے گھر کو سیل کردیا ،پولیس فرانزک ٹیم گھر سے ضروری شواہد اکٹھے کر رہی ہے۔ ایس ایس پی حیدرآباد ڈاکٹر فرخ علی نے معروف ادیب و شاعر ڈاکٹر آکاش کے گھر اچانک شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ کے سبب ڈاکٹر آکاش کی ہلاکت کے معاملے پر SP ہیڈکوارٹر مسعود اقبال کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں DSP بلدیہ عنایت قریشی، SHO بلدیہ غلام عباس ببر، SHO بھٹائی نگر غلام اصغر تنیو، انویسٹی گیشن آفیسر بھٹائی نگر طاہر خانزادہ شامل ہیں۔علاوہ ازیں آکاش انصاری کی وفات پر سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آکاش انصاری کی دردناک موت پر انتہائی افسوس ہوا ہے۔ وہ اپنی تحریروں اور شاعری کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ علاوہ ازیںنجی ٹی وی کے مطابق ڈاکٹر آکاش انصاری کی موت کا معاملہ مشکوک ہوگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق آتشزدگی میں شاعر کا بیٹا معمولی زخمی ہوا، آگ گھر کے ایک کمرے میں لگی تھی جس میں آکاش انصاری سو رہے تھے۔ریسکیو ذرائع کے مطابق کمرے میں ہیٹر بھی جل رہا تھا تاہم کمرے میں آگ شارٹ سرکٹ سے لگی۔ پولیس نے ڈاکٹر آکاش انصاری کی لاش لے کر بدین جانے والے ورثا کو واپس حیدرآباد بلوا لیا، ڈاکٹر آکاش انصاری کی لاش پوسٹمارٹم کیلیے سول اسپتال منتقل کردی گئی،پولیس ذرائع کے مطابق ڈاکٹر آکاش انصاری کے قریبی دوستوں نے قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے۔پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ پہلے ورثاء لاش پوسٹمارٹم کے بغیر تدفین کیلیے بدین لے کر روانہ ہوگئے تھے، لاش کو دوبارہ پوسٹمارٹم کیلیے سول اسپتال لایا گیا ہے، ڈاکٹر آکاش انصاری کے اپنے بیٹے لطیف انصاری سے اختلافات چل رہے تھے۔حیدرآباد پولیس کے مطابق ڈاکٹر آکاش انصاری نے چند روز پہلے اپنے لے پالک بیٹے لطیف انصاری کے خلاف تھانہ بھٹائی نگر پر کیس بھی درج کروایا تھا۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے معروف سندھی شاعر ڈاکٹر آکاش انصاری گھر میں آتشزدگی کے باعث جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کرے اور مکمل رپورٹ پیش کی جائے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر آکاش انصاری کی ادبی اور ثقافتی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، وہ سندھی ادب کے ایک روشن ستارہ تھے جن کی شاعری نے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر ا کاش انصاری کے ڈاکٹر ا کاش انصاری کی کے مطابق گھر میں کے گھر
پڑھیں:
کراچی میں اسپتال کے اخراجات کی ادائیگی کیلیے نومولود بچہ فروخت کرنے کا انکشاف
شہر قائد کے علاقے میمن گوٹھ میں اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلیے نومولود کو فروخت کرنے کا انکشاف ہوا جسے خاتون نے خرید کر پنجاب میں کسی کو پیسوں کے عوض دے دیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق میمن گوٹھ میں قائم نجی اسپتال میں شمع نامی حاملہ خاتون ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کیلیے گئی تو وہاں پر ڈاکٹر نے زچگی آپریشن کیلیے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔
خاتون نے جب ڈاکٹر سے رقم نہ ہونے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون بچے کی خواہش مند ہے اور وہ بچے کو نہ صرف پالے گی بلکہ آپریشن کے اخراجات بھی ادا کردے گی۔
خاتون کے آپریشن کے بعد لڑکے کی پیدائش ہوئی جسے ڈاکٹر نے مذکورہ خاتون کے حوالے کیا جس پر والد سارنگ نے مقدمہ درج کروایا۔
والد سارنگ نے مقدمے میں بتایا کہ وہ جامشورو کے علاقے نوری آباد کے جوکھیو گوٹھ کا رہائشی ہے۔ مدعی مقدمہ کے مطابق اہلیہ چند ماہ قبل حاملہ ہونے کے باوجود ناراض ہوکر والدین کے گھر چلی گئی تھی۔
’پانچ اکتوبر کو اہلیہ اپنی والدہ کے ساتھ معائنے کیلیے کلینک گئی تو ڈاکٹر زہرا نے آپریشن تجویز کرتے ہوئے رقم ادائیگی کا مطالبہ کیا، رقم نہ ہونے پر ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ ایک عورت کو جانتی ہیں جو غریبوں کی مدد کرتی اور غریب بچوں کو پالتی ہے‘۔
سارنگ کے مطابق ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ عورت نہ صرف بچے کو پالے گی بلکہ آپریشن کے تمام اخراجات بھی ادا کردے گی، جس پر میری اہلیہ نے رضامندی ظاہر کی تو خاتون شمع بلوچ نے آکر اخراجات ادا کیے اور بچہ لے کر چلی گئی۔
والد کے مطابق مجھے جب لڑکے کی پیدائش کا علم ہوا تو اسپتال پہنچا جہاں پر یہ ساری صورت حال سامنے آئی اور پھر اہلیہ نے شمع بلوچ نامی خاتون کا نمبر دیا تاہم متعدد بار فون کرنے کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہوا کیونکہ موبائل نمبر بند ہے۔
شوہر نے مؤقف اختیار کیا کہ مجھے شبہ ہے کہ شمع نامی خاتون نے میرا بچہ کسی اور کو فروخت کر دیا ہے لہذا قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس نے مقدمے کی تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے حوالے کیا۔
اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے کارروائی کرتے ہوئے پنجاب سے بچے کو بازیاب کروا کے والدین کے حوالے کردیا جبکہ اسپتال کو سیل کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق شمع بلوچ اسپتال کی ملازمہ ہے اور اُس نے ڈاکٹر زہرا کے ساتھ ملکر یہ کام انجام دیا۔
ایس ایس پی ملیر عبدالخالق پیرزادہ کے مطابق بچے کو شمع بلوچ اور ڈاکٹر زہرا نے ملکر پنجاب میں فروخت کردیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر زہرا اور شمع بلوچ کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے گئے ہیں تاہم کامیابی نہ مل سکی، دونوں کو جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔