پاکستان کی سیاست میں جوڑ توڑ اور چالاکیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آج پھر اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804، یعنی سابق وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے تازہ ترین اقدامات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھنا شامل ہے جو ان کی نئی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان نے اپنی مشکلات سے نکلنے کے لئے بیرونی یا اندرونی قوتوں سے رجوع کیا ہو۔ اس سے قبل وہ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر بین الاقوامی دبائو پیدا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر نتیجہ صفر رہا۔ اب وہ ایک بار پھر آرمی چیف کو مخاطب کر رہے ہیں حالانکہ ماضی میں انہی کے خلاف تحریکیں چلا چکے ہیں۔عمران خان اور جنرل عاصم منیر کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ جب جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تھے، تب انہوں نے عمران خان کی حکومت کے دوران ان کی کرپشن کے کئی معاملات سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں فرح گوگی اور بشریٰ بی بی کے مبینہ مالی معاملات، پنجاب میں تبادلوں اور تقرریوں کی ’’نیلامی‘‘، توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت، اور سرکاری زمینوں پر قبضے جیسے الزامات شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ جب آرمی چیف کی تقرری کا وقت آیا تو عمران خان نے سڑکوں پر نکل کر کھلے عام جنرل عاصم منیر کی مخالفت کی اور انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ جو شخصیت کبھی عمران خان کی نظروں میں ناقابل قبول تھی آج وہی شخصیت ان کی امیدوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔یہ عمران خان کا تیسرا خط ہے مگر آرمی چیف کی طرف سے واضح جواب آیا کہ نہ تو انہیں کوئی خط ملا ہے اور اگر ملا بھی تو وہ اسے وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ سیدھے الفاظ میں آرمی چیف نے انہیں ’’جھنڈی‘‘کرا دی ہے یعنی اشارہ دے دیا کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
عمران خان کے لئے یہ ایک بڑا جھٹکا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سیاست کرنے کے عادی رہے ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو یہی اسٹیبلشمنٹ ان کے حق میں تھی اور جب اقتدار میں آئے تو خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھنے لگے۔ لیکن جیسے ہی اقتدار ختم ہوا وہی ادارہ جو کبھی ان کا سب سے بڑا حمایتی تھا اب ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف ان کی رہائی میں مدد کریں گے یا یہ صرف ایک سیاسی حربہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاست شدید مشکلات کا شکار ہے، پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہے، اور رہنما اپنا اپنا بچائو کر رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی یہ چالیں عوامی توجہ حاصل کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد پارٹی میں کوئی مضبوط قیادت موجود نہیں اور پی ٹی آئی مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح خود کو خبروں میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بہادر لیڈر ہیں جو جیل میں رہ کر بھی سیاست کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہر چال ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان مسلسل عالمی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر موجودہ حکومت محض بیانات تک محدود ہے۔ اگر عمران خان وزیراعظم ہوتے اور اپوزیشن کے کسی رہنما نے ایسا کیا ہوتا تو غداری کے مقدمات درج ہو چکے ہوتے، اور بشریٰ بی بی اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو مخالفین کو ’’غدار‘‘ثابت کرنے کے احکامات دے چکی ہوتیں۔ لیکن موجودہ حکومت کا ردعمل کمزور اور غیر مثر دکھائی دیتا ہے۔ یہی کمزوری مستقبل میں مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے کیونکہ اگر ایک بار کسی سیاستدان کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ ملک کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور پھر بھی بچ سکتا ہے تو پھر آئندہ کوئی بھی ایسی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔عمران خان کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی سیاسی چالیں بے اثر ہو چکی ہیں۔ ان کا ہر نیا دائو انہیں مزید تنہا کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے اور ایسے خطوط لکھنے کا سلسلہ محض وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آج پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے نہ کہ ایسے تماشوں کی جن کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ ایک وقت تھا جب عمران خان کا بیانیہ مقبول تھا کیونکہ لوگ انہیں تبدیلی کی علامت سمجھتے تھے، لیکن آج وہ خود کو اتنا متنازع بنا چکے ہیں کہ ان کے حمایتی بھی ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔عمران خان کی سیاست اب ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ ہر راستہ آزما رہے ہیں، مگر کوئی راہ نکلتی نظر نہیں آ رہی۔ جیل میں بیٹھ کر خط لکھنے سے نہ تو حکومت گرائی جا سکتی ہے نہ ہی عوامی مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ سیاست عملی میدان میں لڑی جاتی ہے نہ کہ کاغذی بیانات اور خطوط کے ذریعے۔ پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔
جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے واضح کر دیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ایسے میں عمران خان کو یہ حقیقت قبول کرنی ہوگی کہ ان کا روایتی طریقہ کار اب کارگر ثابت نہیں ہوگا۔پاکستان کی معیشت پہلے ہی دبا میں ہے اور عالمی سطح پر ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں عمران خان کے ان اقدامات سے ملک کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جب ایک سابق وزیراعظم عالمی اداروں کو خطوط لکھ کر پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی درخواست کرتا ہے تو یہ نہ صرف ملک کی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہوتا ہے بلکہ قومی مفادات کے بھی خلاف ہے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسا کوئی سیاستدان نہیں کرتا لیکن پاکستان میں سیاست دانوں کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔عمران خان کو اپنی سیاست کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اگر وہ واقعی سیاست میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں موجودہ حکمت عملی کو ترک کرکے حقیقت پسندی اختیار کرنی ہوگی۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ وہ اب اقتدار میں نہیں ہیں اور جو حربے وہ استعمال کر رہے ہیں، وہ انہیں مزید مشکلات میں دھکیل سکتے ہیں۔ خط لکھنے، جلسے کرنے اور الزامات لگانے سے وہ سیاسی منظرنامے پر اپنی جگہ نہیں بنا سکیں گے۔پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے استحکام کی ضرورت ہے اور اس استحکام میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی غیر ضروری سیاسی کھیل ہیں۔ اگر سیاستدان واقعی ملک کی ترقی چاہتے ہیں، تو انہیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ عمران خان کے حالیہ اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی ترجیح قومی مفاد نہیں بلکہ اپنی ذات ہے اور یہی وہ عنصر ہے جو ان کی سیاست کو مزید مشکلات میں ڈال رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ عمران خان عمران خان کی ان کی سیاست پاکستان کو کر رہے ہیں سیاست میں آرمی چیف یہ ہے کہ کہ ان کی کی کوشش چکے ہیں ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری
افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فضا میں جو کچھ کرنا ہے کرلے اس بار جواب زیادہ شدید ہوگا،سینئر صحافیوں کو بریفنگ
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی۔پاکستان اپنی سرحدوں، عوام کی حفاظت کیلئے تیار ہے۔سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے ۔27 ویں آ ئینی ترمیم کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے۔27 ویں آ ئینی ترمیم پر تجاویز مانگیں تو اپنی سفارشات دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن فوج کا حصہ بننے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کام کرنا ہے، 2014 میں 38 ہزار مدارس تھے اب ایک لاکھ کے قریب مدارس بن چکے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔مدارس کی رجسٹریشن اب بھی ایک سوال ہے۔سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں۔منتخب سیاستدان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کا کام ریاست کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہم نے نہیں حکومت نے کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں پوست کی فصل کو تلف کر رہے ہیں۔تیراہ اور کے پی میں خفیہ آپریشنز کامیابی سے جاری ہیں۔دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اس سال6200 انٹیلی جنس آپریشنز کئے گئے ۔آپریشنز کے دوران1667 دہشتگرد مارے گئے۔ جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206افغان طالبان اور 100 سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنز زیادہ ہورہے ہیں اور کے پی میں دہشت گرد زیادہ مارے جارہے ہیں، یہ لوگ فوج کے خلاف کام کرتے ہیں اور عشر کے نام پر ٹیکس لیتے ہیں، یہ لوگ جسے عشر کہتے ہیں یہ بھتہ ہے، یہ بارڈر اوپن چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے حشیش لائی جاسکے، اس کا حصہ طالبان کو بھی جاتا ہے اور وارلارڈز کو بھی ملتا ہے، یہ آئس ہماری یونیورسٹیوں تک جارہی ہے ہماری نوجوان نسل کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمائدین، دہشت گرد، جرائم پیشہ لوگ مل کر قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں، کئی بار فوج نے علاقہ کلیٔر کیا مگر سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی دبا وکے سبب کام نہیں کرپا رہی، اسمگلرز دہشت گردوں سے مل کر کام کر رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں، افغانستان سے جڑے معاملات کا حل صرف وہ حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہو، افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتی، دہشتگردی کا خاتمہ اہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔دوحہ، استنبول مذاکرات کا ایجنڈا افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پالیسی بنانے میں خودمختار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں منشیات اسمگلرز کی افغان سیاست میں مداخلت ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات پاکستان اسمگل کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو پاکستان کا رسپانس فوری اور موثر تھا، پاکستان کے رسپانس کے وہی نتائج نکلے جو ہم چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمارے ہاں علما، میڈیا اور سیاست دانوں کو یک زبان ہونا ہوگا تب فیصلے کرسکیں گے۔افغان طالبان رجیم تبدیل کرنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت سمندر میں اور فالز فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، تاہم ہم نظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت نے جو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا،میزائل تجربے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ڈویلپمنٹ ہوتی رہتی ہے۔