Daily Ausaf:
2025-07-27@11:31:38 GMT

آرمی چیف کی جھنڈی

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

پاکستان کی سیاست میں جوڑ توڑ اور چالاکیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آج پھر اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804، یعنی سابق وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے تازہ ترین اقدامات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھنا شامل ہے جو ان کی نئی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان نے اپنی مشکلات سے نکلنے کے لئے بیرونی یا اندرونی قوتوں سے رجوع کیا ہو۔ اس سے قبل وہ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر بین الاقوامی دبائو پیدا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر نتیجہ صفر رہا۔ اب وہ ایک بار پھر آرمی چیف کو مخاطب کر رہے ہیں حالانکہ ماضی میں انہی کے خلاف تحریکیں چلا چکے ہیں۔عمران خان اور جنرل عاصم منیر کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ جب جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تھے، تب انہوں نے عمران خان کی حکومت کے دوران ان کی کرپشن کے کئی معاملات سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں فرح گوگی اور بشریٰ بی بی کے مبینہ مالی معاملات، پنجاب میں تبادلوں اور تقرریوں کی ’’نیلامی‘‘، توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت، اور سرکاری زمینوں پر قبضے جیسے الزامات شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ جب آرمی چیف کی تقرری کا وقت آیا تو عمران خان نے سڑکوں پر نکل کر کھلے عام جنرل عاصم منیر کی مخالفت کی اور انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ جو شخصیت کبھی عمران خان کی نظروں میں ناقابل قبول تھی آج وہی شخصیت ان کی امیدوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔یہ عمران خان کا تیسرا خط ہے مگر آرمی چیف کی طرف سے واضح جواب آیا کہ نہ تو انہیں کوئی خط ملا ہے اور اگر ملا بھی تو وہ اسے وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ سیدھے الفاظ میں آرمی چیف نے انہیں ’’جھنڈی‘‘کرا دی ہے یعنی اشارہ دے دیا کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
عمران خان کے لئے یہ ایک بڑا جھٹکا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سیاست کرنے کے عادی رہے ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو یہی اسٹیبلشمنٹ ان کے حق میں تھی اور جب اقتدار میں آئے تو خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھنے لگے۔ لیکن جیسے ہی اقتدار ختم ہوا وہی ادارہ جو کبھی ان کا سب سے بڑا حمایتی تھا اب ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف ان کی رہائی میں مدد کریں گے یا یہ صرف ایک سیاسی حربہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاست شدید مشکلات کا شکار ہے، پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہے، اور رہنما اپنا اپنا بچائو کر رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی یہ چالیں عوامی توجہ حاصل کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد پارٹی میں کوئی مضبوط قیادت موجود نہیں اور پی ٹی آئی مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح خود کو خبروں میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بہادر لیڈر ہیں جو جیل میں رہ کر بھی سیاست کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہر چال ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان مسلسل عالمی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر موجودہ حکومت محض بیانات تک محدود ہے۔ اگر عمران خان وزیراعظم ہوتے اور اپوزیشن کے کسی رہنما نے ایسا کیا ہوتا تو غداری کے مقدمات درج ہو چکے ہوتے، اور بشریٰ بی بی اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو مخالفین کو ’’غدار‘‘ثابت کرنے کے احکامات دے چکی ہوتیں۔ لیکن موجودہ حکومت کا ردعمل کمزور اور غیر مثر دکھائی دیتا ہے۔ یہی کمزوری مستقبل میں مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے کیونکہ اگر ایک بار کسی سیاستدان کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ ملک کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور پھر بھی بچ سکتا ہے تو پھر آئندہ کوئی بھی ایسی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔عمران خان کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی سیاسی چالیں بے اثر ہو چکی ہیں۔ ان کا ہر نیا دائو انہیں مزید تنہا کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے اور ایسے خطوط لکھنے کا سلسلہ محض وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آج پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے نہ کہ ایسے تماشوں کی جن کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ ایک وقت تھا جب عمران خان کا بیانیہ مقبول تھا کیونکہ لوگ انہیں تبدیلی کی علامت سمجھتے تھے، لیکن آج وہ خود کو اتنا متنازع بنا چکے ہیں کہ ان کے حمایتی بھی ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔عمران خان کی سیاست اب ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ ہر راستہ آزما رہے ہیں، مگر کوئی راہ نکلتی نظر نہیں آ رہی۔ جیل میں بیٹھ کر خط لکھنے سے نہ تو حکومت گرائی جا سکتی ہے نہ ہی عوامی مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ سیاست عملی میدان میں لڑی جاتی ہے نہ کہ کاغذی بیانات اور خطوط کے ذریعے۔ پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔
جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے واضح کر دیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ایسے میں عمران خان کو یہ حقیقت قبول کرنی ہوگی کہ ان کا روایتی طریقہ کار اب کارگر ثابت نہیں ہوگا۔پاکستان کی معیشت پہلے ہی دبا میں ہے اور عالمی سطح پر ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں عمران خان کے ان اقدامات سے ملک کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جب ایک سابق وزیراعظم عالمی اداروں کو خطوط لکھ کر پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی درخواست کرتا ہے تو یہ نہ صرف ملک کی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہوتا ہے بلکہ قومی مفادات کے بھی خلاف ہے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسا کوئی سیاستدان نہیں کرتا لیکن پاکستان میں سیاست دانوں کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔عمران خان کو اپنی سیاست کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اگر وہ واقعی سیاست میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں موجودہ حکمت عملی کو ترک کرکے حقیقت پسندی اختیار کرنی ہوگی۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ وہ اب اقتدار میں نہیں ہیں اور جو حربے وہ استعمال کر رہے ہیں، وہ انہیں مزید مشکلات میں دھکیل سکتے ہیں۔ خط لکھنے، جلسے کرنے اور الزامات لگانے سے وہ سیاسی منظرنامے پر اپنی جگہ نہیں بنا سکیں گے۔پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے استحکام کی ضرورت ہے اور اس استحکام میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی غیر ضروری سیاسی کھیل ہیں۔ اگر سیاستدان واقعی ملک کی ترقی چاہتے ہیں، تو انہیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ عمران خان کے حالیہ اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی ترجیح قومی مفاد نہیں بلکہ اپنی ذات ہے اور یہی وہ عنصر ہے جو ان کی سیاست کو مزید مشکلات میں ڈال رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کہ عمران خان عمران خان کی ان کی سیاست پاکستان کو کر رہے ہیں سیاست میں آرمی چیف یہ ہے کہ کہ ان کی کی کوشش چکے ہیں ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا چین کا سرکاری دورہ، اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جولائی2025ء) چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرنشان امتیاز (ملٹری) نے عوامی جمہوریہ چین کا سرکاری دورہ کیا۔جمعہ کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس دورے کے دوران آرمی چیف نے بیجنگ میں چین کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ متعدد اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں جن میں پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط سٹریٹجک شراکت داری کی توثیق کی گئی۔

چیف آف آرمی سٹاف نے نائب صدر عوامی جمہوریہ چین ہان ژینگ اور وزیر خارجہ وانگ ای سے ملاقات کی۔ بات چیت میں خطے اور دنیا میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت منصوبوں اور مشترکہ جغرافیائی سیاسی چیلنجز کے لیے مربوط ردعمل کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

(جاری ہے)

دونوں فریقین نے دوطرفہ تعلقات کی گہرائی پر اطمینان کا اظہار کیا اور خودمختارانہ برابری، کثیرالجہتی تعاون اور طویل المدتی علاقائی استحکام کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔

چینی قیادت نے جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کو ایک مضبوط ستون اور کلیدی کردار کا حامل قرار دیا۔دفاعی شعبے میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے جنرل ژانگ یوژیا، وائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی)، جنرل چن ہوئی، پولیٹیکل کمشنر پی ایل اے آرمی اور لیفٹیننٹ جنرل کائی ژائی جن، چیف آف سٹاف پی ایل اے آرمی سے ملاقاتیں کیں۔

پی ایل اے آرمی ہیڈکوارٹر پہنچنے پر آرمی چیف کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا جو دونوں افواج کے درمیان دیرینہ دوستی کی علامت ہے۔ان ملاقاتوں میں دفاعی و سلامتی تعاون پر جامع تبادلہ خیال ہوا جن میں انسداد دہشت گردی، مشترکہ تربیت، دفاعی شعبے میں جدت اور ادارہ جاتی روابط کو مزید مضبوط بنانے جیسے امور شامل تھے۔ آپریشنل ہم آہنگی اور سٹریٹجک تعاون کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا تاکہ ہائبرڈ اور سرحد پار خطرات کا موثر مقابلہ کیا جا سکے۔

چینی عسکری قیادت نے دوطرفہ دفاعی شراکت داری پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور علاقائی امن کے فروغ میں پاکستان کے کلیدی کردار کو سراہا۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے چین کی مسلسل حمایت کو سراہا اور پاکستان کی جانب سے عسکری سطح پر ہر شعبے میں تعاون کو مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔یہ دورہ دونوں برادر ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی و عسکری تعلقات کی گہرائی کا مظہر ہے اور اس امر کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ علاقائی سلامتی کو فروغ دینے کے لیے اعلیٰ سطحی روابط اور مشاورت کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے چندے کیلئے میرے پاس آتے تھے: اسحاق ڈار
  • بانی پی ٹی آئی سیاست میں آنے سے پہلے چندے کیلئے میرے پاس آتے تھے: اسحاق ڈار
  • عمران خان کے عزیزوں سے خطرات، جمائمہ نے قاسم اور سلیمان کو ایک مرتبہ پھر پاکستان جانے سے روک دیا
  • آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن
  • انتظامیہ کو نظر بندیوں، پابندیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، میر واعظ
  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • پاک فوج مزاحمت کی علامت اور خطے میں امن کی ضامن ہے، چین
  • فیلڈ مارشل کی چینی سیاسی وعسکری قیادت سے ملاقاتیں، دفاعی تعاون کو وسعت دینے کا عزم
  • پی ٹی آئی تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی: بیرسٹر گوہر
  • آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا چین کا سرکاری دورہ، اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں