(گزشتہ سےپیوستہ)
غزہ کے نوجوانوں نے جنگ کو ایک نیا رخ دیا ہے، تاریخ کا ایک نیا باب وا کیا ہے، بموں اور ٹینکوں کے سامنے اپنے عزم، حوصلے اور جرات و بہادری کو لاکھڑا کیا ہے۔ تیزی سے وائرل ہوتی ویڈیوز کو روکنے کیلئے سوشل میڈیا پر بیٹھے متعصب مالکان اورامریکیو اسرائیلی بیانیے کے چوکیدار اس فکر میں ہیں کہ ان ویڈیوز پر کوئی نئی پابندی لگا دیں۔ ایسی خبروں کو پھیلنے سے روکیں اوردنیاکو صرف وہ جھوٹ دکھائیں جو یہودی مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
کسی نے سوشل میڈیاپر کیا خوب شئیر کیا ہے: ایک شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ جنگ ختم ہورہی ہے، ہم غزہ کے بچوں کو اپنے گھر بسائیں گے۔ اس شخص کی بیوی نے جواب دیا: نہیں! بلکہ ہم اپنے بچوں کو غزہ کے بچوں کے پاس بھیجیں گے تاکہ وہ غزہ کے کھنڈرات میں ان کی تربیت کریں۔اس خاتون سے سوال کیا گیاکہ تم نے ایساکیوں سوچا؟اس کاجواب بھی سن لیں کہ یہ کوئی معمولی خاتون نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی اعلیٰ عہدیدار ہے اوراس کاتعلق بھی یورپ کے ایک ملک سے ہے۔اس نے کہا کہ میں نے دوران جنگ غزہ میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بچوں اور بچیوں کوملنے کااتفاق ہوا،ایک بات سب میں مشترک دیکھی کہ وہ مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود،اپنی آنکھوں سے اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں اورتمام عزیزواقارب کے پرخچے اڑتے دیکھنے کے باوجودصبرکادامن یہ کہتے ہوئے تھامے رکھا کہ یہ تمام شہدا توکامیاب ہوگئے ہیں اورہمیں کامیابی کاراستہ دکھاگئے ہیں۔ان تمام بچوں کامانناتھاکہ موت سے کیساخوف،کیاوائٹ ہائوس اوردیگرمحلوں میں رہنے والوں کو موت نہیں آتی؟ ۔۔۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
مسلمانوں کو بے دخل کرنے، ان کے علاقوں سے دربدر کرنے اور دوسرے ملکوں میں بسانے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کے بجائے ظالم فوجی اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس سے فلسطینیوں پر مظالم کی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنےمیں مصروف ہیں۔ چھٹیوں میں دوسرے ملکوں کا سفر کرنے والے یہودی فوجیوں کو خطرہ ہے کہ کوئی پہچان نہ لے اور ہماری فیس بک پوسٹس ہمارے خلاف گواہ نہ بن جائیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اس جنگ کے کئی پہلو ہیں، ایک طویل تاریخ،فلسطینیوں نے سامراجی طاقت سے مذاکرات کرکے دیکھے، اقوام متحدہ کی ہر شرط مان کر دیکھ لیا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ سات اکتوبر سے ایک دن پہلے پہنچ جائیے اور کھڑے ہوکر دیکھیے تو سارا عالم عرب ہی اسرائیل سے دوستی گانٹھنے میں مصروف تھا، فلسطینیوں کا کسی جگہ بھی نام تک نہیں تھا۔ اپنے مفادات کی اسیر اسلامی ریاستیں فلسطینیوں کی عسکری مدد تو کب کی چھوڑ چکیں، انہوں نے سفارتی اور اخلاقی امداد بھی بندکردی تھی۔ ایسے میں سات اکتوبر کا واقعہ پیش آیا اور بازی الٹ دی گئی۔ دنیا کو پتہ چل گیا کہ فلسطینی الگ وجود رکھتے ہیں، ان کی مزاحمت زندہ ہے، ان کے حوصلے بلند اور ان کے جوان آج بھی وطن پر جان قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیاگیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کیلئے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیئر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ ادھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں واضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہاہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دےرہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکا کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی ا ور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہو نے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انہیں خبر ہو کہ جن کا خیال تھا رہے ہیں کہ کی مزاحمت جائے گا تھا کہ غزہ کے
پڑھیں:
غزہ میں مستقل جنگ بندی کی راہ میں اسرائیل بڑی رکاوٹ ہے، قطر
منگل کے روز امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ قطر امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں قیدیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ قطر کے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم شیخ محمد بن عبد الرحمٰن آل ثانی نے کہا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے معاہدے کی راہ میں اسرائیل ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ منگل کے روز امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ قطر امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں قیدیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے، لیکن صورتحال اب بھی جمود کا شکار ہے، خاص طور پر اسرائیلی افواج کی رفح میں کارروائیوں کی وجہ سے، جس کے نتیجے میں مصر سے انسانی امداد کا ایک اہم راستہ بند ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی سیکریٹری روبیو کے ساتھ ملاقات میں آل ثانی نے غزہ اور شام کی صورتحال پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں تعمیر نو کے عمل کے لیے اقتصادی پابندیوں میں نرمی پر زور دیا۔