Islam Times:
2025-11-03@10:47:36 GMT

سانحہ جامشورو کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، کاظم میثم

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

سانحہ جامشورو کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، کاظم میثم

اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جامشورو حادثے نے گلگت بلتستان کی فضا کو سوگوار کر دیا اور اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جامشورو حادثے نے گلگت بلتستان کی فضا کو سوگوار کر دیا اور اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس افسوسناک سانحے کو دو دن سے زیادہ گزرنے کے باوجود سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداوں کی سرد مہری سے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کی سرزمین اہلبیت کے پیروکاروں کے لیے عرصہ دراز سے مقتل گاہ بنی ہوئی ہے۔ شہید حسن ترابی ہو یا شہید خادم حسین الغروی، کشمراہ کے فرزند شہید عارف حسین، شہید نبی گیول رنگاہ ہو یا سانحہ عباس ٹاون کے شہید عامر و دیگر، کراچی ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے کواردو کے دو بھائی شہید نذیر ہو یا بشیر، اسی طرح ملت جعفریہ کے قابل فخر عالم دین علامہ جلبانی ہو یاخرم زکی، علی رضا عابدی ہو یا رضا تقوی، سبط جعفر رضوی یا شہید تقوی ان سمیت دیگر ہزاروں شہدا کے قاتلوں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے میں حکومت ناکام رہی ہے۔   انہوں نے کہا کہ کراچی وادی حسین شہدا سے بھرے پڑے ہیں۔ ان سب کے ذمہ دار یہاں کی حکومتیں ہیں۔ سانحہ جامشورو میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجرمانہ خاموشی انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ سندھ حکومت بھی اس المناک سانحے پر چپ سادھ بیٹھی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ مجرموں کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے اور ایف آئی آر بھی فرمائشی دفعات کے ساتھ بنائی جا رہی ہے۔ تھانہ اور پولیس کی قاتلوں کے ساتھ گھٹ جوڑ کے تانے بانے مل رہے ہیں۔ لہذا جوڈیشل انکوائری کے ذریعے سے سانحے کے حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس سانحے میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے تمام افراد نہ صرف قیمتی تھے بلکہ زین ترابی، آغا جان رضوی اور علی کاظم کو جانی خطرہ بھی لاحق تھا۔ وزیراعلی' سندھ اور سندھ حکومت نے اس سانحے پر جس طرح چشم پوشی کی وہ افسوسناک ہیں۔   ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف اس سانحے میں چار جانوں کا چلے جانا اور دوسری طرف خراش تک نہ آنا بہت سارے سوالوں کے جوابات کے لیے کافی ہے۔ شہدا کی میتوں کی کراچی سے روانگی ہو یا لواحقین کی حوصلہ افزائی ہر دو عمل سندھ کی حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ ہم بحیثت گلگت بلتستان کے باسی بھی اور بحیثیت مکتب اہلبیت کے پیروکار کے مقتدر حلقوں اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے قاتلوں کو سزا دیں۔ سندھ کی سرزمین ہو یا کرم کی سرزمین، کوئٹہ ہو یا گلگت بلتستان ہمیں جینے کا حق دیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: گلگت بلتستان

پڑھیں:

یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب

بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔

یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔

شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔

انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔

1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔

یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔

18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔

ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہیں: امیر مقام
  • گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
  • کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
  • خیرپور:فنکشنل لیگ کے تحت سانحہ درزا شریف کی 10ویں برسی کا انعقاد
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا گلگت بلتستان کے پاکستان سے الحاق کے دن پر خصوصی پیغام
  • وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی ترقی اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے پُرعزم ہے: شہباز شریف
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • ہم نے مختصر دور حکومت میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دی، گلبر خان
  • گلگت بلتستان کا 78 واں یوم آزادی کل منایا جائے گا، صدر مملکت شریک ہوں گے
  • سانحہ بھاگ میں شہید ایس ایچ او کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعزیت، اعزازات کا بھی اعلان