Express News:
2025-06-09@20:02:14 GMT

انسان خود کو نہ بدلے تو حالات اُسے بدل کر رکھ دیتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

تعارف:

  حسن رضا، ایچ آر ماہر اور ایک ٹیک کمپنی کے سی ای او ہیں۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر میں مختلف اداروں کے ساتھ و ابستہ رہے۔ کنسلٹنسی کے مختلف پروجیکٹس بھی کیے۔ کم و بیش دو عشروں تک مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد اپنی کمپنی قائم کی۔

سوال: ایچ آر کا بنیاد ی کام کیا ہے۔

جواب: ایچ آر کسی بھی ادارے کا ایک شعبہ ہوتا ہے جو ملازمین کے مختلف معاملات کو دیکھتا ہے۔ اس میں ملازمین کی بھرتی، تربیت ، انتظامیہ کے ساتھ تعلقات ، متعلقہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کروانا ایچ آر کی ذمہ داری ہے۔

سوال: ٹیک ایچ آر(Tech HR) کی اصطلاح سے کیا مراد ہے؟

جواب: ٹیک انڈسڑی میں ایچ آر سے مراد ہیومن ریسورس کے مختلف کاموں کو ڈیجیٹل ٹولز، سافٹ وئیرز اور آرٹیفیشل اینٹلی جنس کے ذریعے سے کرنا ہے۔ اس میں ملازمین کی کارکردگی، جاب پر رہنے والا عرصہ، آن لائن ٹریننگز، ریموٹ ورکنگ، کام کی جگہ کا کلچر، ٹیکس کٹوتی، کارکردگی کی ٹریکنگ، ملازمین کے ساتھ سیشنز اور اس نوعیت کی دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔

سوال: پاکستان میں ایچ آر کا سکوپ کیا ہے؟

جواب: بدلتے رجحانات کے ساتھ پاکستان میں بھی کاروباری دنیا میں نت نئے آئیڈیاز اور رجحانات کو اپنایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ، پاکستا ن میں کاروباری اداروں میں ایچ آر کا تصور نہیں تھا۔گلوبلائزیشن کے بعد اور انٹرنیٹ کے عام ہوجانے سے یہاں ایچ آر کا تصور آیا۔ اب پاکستان کی تمام بڑ ی کمپنیوں، کاروباری اداروں میں ایچ آر کی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے۔ بالخصوص آئی ٹی انڈسٹر ی کی ترقی کے بعد ایچ آر کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر، بینکنگ، آئی ٹی، ہیلتھ اور ایجوکیشن میں اس کا رول بڑھ گیا ہے۔

سوال: آپ زندگی کا ایک طویل عرصہ کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمت کرتے رہے ، پھر آپ نے اپنی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کیسے کر لیا؟

جواب: یہ اچھا سوال ہے۔ جب آپ ملازمت کر رہے ہوتے ہیں تو آپ بنیادی اخراجات پورے کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک لگی بندھی تنخواہ ہر ماہ مل جاتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ میری بنیادی ضروریا ت پوری ہو رہی ہیں۔ تو سلسلہ چل رہا ہے تو چلتے رہنے دیں۔ لیکن میرے والد مجھے کہا کرتے تھے کہ تم کوئی اپنا کام کرو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ میں کہا کرتا تھا تنخواہ مل رہی ہے، زندگی سکون سے چل رہی ہے۔ تو رہنے دیں ٹھیک ہے۔ مگر وہ کہتے تھے کہ نہیں تم کوئی اپنا کام شروع کرو۔ وہ کیونکہ انگلینڈ میں رہتے تھے تو جب بھی پاکستان آتے تو ہماری اسی موضوع پر بات چیت ہوتی تھی۔ ملازمت پیشہ آدمی رِسک لینے سے گھبراتا ہے۔ سوچ وہی فکس سیلری والی رہتی ہے۔ لیکن جب آپ Owner بنتے ہیں تو پھر آپ کا ڈر اور خوف ختم ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ ، اپنے آپ کو بطور لیڈر اوپر لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک بات بتا تا ہوں ، جس سے میں گروسری وغیرہ لیتا تھا ، تو ادھار وغیرہ چلتاہے۔ کچھ ایسے معاملات ہوئے کہ تنخواہ لیٹ ہو گئی۔ راشن والے کو کچھ پیسے دینے تھے تو اس نے بہت شور مچایا۔ آپ پیسے نہیں دے رہے ، تو میرے ذہن میں میرے والد کا جملہ آیا کہ اگر تم بزنس نہیں کرنا چاہتے تو ٹھیک ہے مگر تمہار ا کوئی اور بھی ذریعہ آمدن ہونا چاہیے۔ تو مجھے خیال آیا کہ اگر چالیس پچاس ہزار روپیہ میں اپنی مہارت سے کما سکتا ہوں تو کیوں نہ کمایا جائے۔ تو پھر میں نے جاب کے ساتھ ساتھ کوئی کنسلٹنسی آ جانی تو وہ کر دینی، مختصر دورانیے کا کوئی کام کر دینا تو اس طرح میرا آمدنی کا ذریعہ بنتا گیا۔

جب میں نے دیکھا کہ میرا بیک اپ آہستہ آہستہ مضبوط ہو رہا ہے تومیں نے سوچا کہ مجھے اس طرف آنا چاہیے۔ دو ہزار بیس میں جب کووڈ تھا تو اس وقت مجھے ٹیک انڈسٹری میں آنے کا موقع ملا۔ اس وقت پاکستان میں ٹیک اور فارماسویٹیکل دو ہی سیکٹر بڑھوتری کی جانب گامزن تھے۔ ٹیک سٹارٹ اپس کے ساتھ کنسٹلنٹی شروع کر دی، اس طرح میرا اپنا کام شروع ہوا۔ تو میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ راشن والا مجھے نہ کہتا اور مجھے خیال نہ آتا تو شاید میری زندگی میں یہ ٹرننگ پوائنٹ نہ آتا۔اس کے علاو ہ قاسم علی شاہ بھی مجھے کہا کرتے تھے کہ اپنا کام شروع کرو، تو یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔

سوال: آپ کی کمپنی کی ڈ ومنز کیاہے وہ کس نوعیت کے کام کرتی ہے؟

جواب: میری کمپنی ٹیک بیسڈ ایچ آر کمپنی ہے۔ جس میں مختلف ٹیک کمپنیز کے ایچ آر کو ہم ہر ماہ اکٹھا کرتے ہیں۔ ہمارے ہر میٹ اَپ کے مختلف تھیمز ہوتے ہں۔ کارپوریٹ سیکٹر کے اکثر سیشنز ، بنیادی طور پر نیٹک ورکنگ سیشنز ہوتے ہیں، لیکن ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ علمی سیشنز ہوں اور نئے رجحانات اور موضوعات پر بات ہو۔ مثلاً گزشتہ ایک میٹ اَپ میں ہم نے ایک گلوبل ٹرینڈ تھا Open Salary Forum ، یعنی ہر ایک کو ہر کسی کی تنخواہ کا علم ہو، اس پر ہم نے بات چت کی۔ پاکستان میں اس موضوع پر بات کرنا بڑا مشکل ہے۔ کچھ کلچر ل روایت ہے ، سماجی مسائل بھی ہیں۔ ہم نے Open Salary Forum پر بات چتہ کی۔ ہم نے ایچ آر کے بہترین آٹھ، دس ماہرین کو بلایا اور انہوں نے اس موضوع پر بات کی۔ ہم نے پھر Mentoring  Reverse پر بات کی۔ یہ دور ایسا ہے کہ جس میں آپ اپنے سینئیرز سے تو سیکھتے ہی ہیں مگر اب آپ اپنے جونئیرز سے بھی سیکھتے ہیں۔ اس موضوع پر ہم نے ایک نشست رکھی ، ایچ آر کے لو گوں کو بلایا اور اس پر بات چیت کی۔ ٹیکنا لوجی سے وابستہ نوجوان سیکھناچاہتے ہیں، وہ سینئیرز سے بھی سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ایکLearning Forum بنا دیا ہے۔ اب لو گ ادھر آتے ہیں، بات چیت کرتے ہیں۔

سوال: اپنا کام شروع کرنے کا ابتدائی تجربہ کیسا رہا؟

جواب: آغاز میں تو کچھ مشکلات تھیں۔ کیونکہ میرے اہلِ خانہ بھی اس نئے تجربے سے کچھ مطمئن نہیں تھے۔ انہی دنوں ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک تصویر اور پوسٹ بہت وائرل ہوئی، جس میں ایک شخص نے خود کشی کر لی تھی۔ پوسٹ میں تھا کہ اس کی بیوی اسے کہتی تھی کہ جاؤ اور کما کر لاؤ اور مجھے نہیں پتہ کہ کس طرح کمانا ہے۔ اب پتہ نہیں اْ س شخص پر کتنا دباؤ اور حالات کاجبر ہو گا کہ اس نے یہ قدم اٹھایا۔ بعد میں اس شخص کی بیوی نے معافی بھی مانگی۔ مگر وہ شخص تو جان سے گیا۔ جتنے بھی نوجوان میرے پا س آتے ہیں یا وہ اپنا کام شروع کر رہے ہوتے ہیں تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ آپ نے صبر سے کام لینا ہے، یہ مشکل وقت ہے ، گز ر جائے گا، اللہ پا ک اپنا رحم فرمائے گا اور آپ کو ضرور رزق دے گا۔ گھر والوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مدد کریں۔ میں خوش قسمت رہا کہ میرے گھروالوں نے اس معاملے میں میرے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ کیونکہ میرے والد نے انہیں بتایا ہوا تھا کہ آپ نے دو ، تین ماہ اس کو تنگ نہیں کرنا۔ میراپہلا ماہ مشکل گزرامگربعد میں پھر معاملات بہتر ہوتے چلے گئے۔

سوال: ہمارے ہاں ایک عمومی تاثر ہے کہ تنخواہ دار طبقہ بزنس کی جانب نہیں جاتا، کیونکہ بزنس کے لیے بہت زیادہ پیسہ درکا رہے مگر حالیہ عرصے میں ٹیک کمپنیز نے اس تاثر کی نفی کی ہے ، اب سرمائے سے زیادہ آئیڈیا یا مہارت کی اہمیت ہے ، آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: دیکھیں، اس معاملے کا تعلق سوچ سے ہے۔ سی ای او بننے سے پہلے ، سی ای او کی طرح سوچنا پڑتا ہے۔ تو جب آپ کی سوچ ہی سی ای او والی نہیں ہوگی تو پھر آپ سی ای او نہیں بن پائیں گے۔ بدقسمتی سے جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں یا پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ تم نے نوکر ی ہی کرنی ہے۔ سی ای او نہیں بننا۔ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ ہمارا پڑھا ئی کا نظام اور گرومنگ نوکری کے لیے ہوتی ہے، بزنس کے لیے نہیں۔ میں اولڈ راوین ہوں، جب میں وہاں پڑھ رہا تھا تو کئی میرے ہم جماعت پولیس میں آنا چاہتے تھے اور کچھ وکالت کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے کیسز کے معاملات تھے۔ بعض اینکر بننا چاہتے تھے تو وہ بن گئے۔ کوئی اس وقت یہ نہیں کہتا تھا کہ میں نے اپنی کمپنی کھولنی ہے۔ میں ادھر چلا جاؤں ، اْدھر چلا جاؤں، اب وہ سارے ٹھیک ہیں۔ ایک تو یہ مائنڈسیٹ ہے۔ اب جوں جوں سوشل میڈیا پھیل رہا ہے، تو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔

سوال: ٹیک انڈسٹری میں کامیاب ہونے کے لیے کیا ضروری ہے؟

جواب: ٹیک میں کامیاب ہونے کے لیے ٹیکنالوجی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ کے پاس ایک اچھا آئیڈیا ہونا ضروری ہے۔ اگر پیسے نہیں ہیں تو کسی انویسٹر کو ڈھونڈیں۔ ہمارے ہاں کام کے مختلف طریقہ کار ہیں۔ ایک بزنس مین ہے ، وہ آتا ہے، ایک ٹیم بناتا ہے اور اس سے کام کرواتا ہے۔ دوسرا ہوتا ہے فری لانسر ، فری لانسر کیا کرتا ہے ، وہ پروجیکٹ پکڑتا ہے، کام کرتا ہے ، پیسے کماتا ہے لیکن وہ ٹیم نہیں بناتا۔ اب تیسرا کیا ہے کہ ایک انویسڑ ہے، اس کا پیسہ ہے، وہ اچھے آئیڈیے کو پیسہ دینا چاہتا ہے، کوئی بھی فرد اچھے کاروباری آئیڈیا کیساتھ اس کے پاس جائے تو وہ انویسٹ کرتا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ کام آپ کرو، میں اپنا مارجن لوں گا اور Partner  Sleeping کے طور پر کام کروں گا۔

سوال: ایسے انویسٹرز کہاں ملتے ہیں؟

جواب: ایسے انویسٹرز پاکستان میں دستیاب ہیں لیکن انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے، ہمارے ہاں طلباء کیا کرتے ہیں کہ وہ نیٹ ورکنگ نہیں کرتے ، یونیورسٹی اور دیگر افراد کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ ہمیں سپورٹ نہیں کیا۔ اب نجی سیکٹر کی جامعات اس طرف آرہی ہیں۔ وہ طلباء کو انٹرپرینیورشپ کی طرف لے کر آرہے ہیں۔ وہ گالا اور اس نوعیت کی سرگرمیاں کرواتے ہیں تا کہ طلباء کو بتایا جا سکے کہ آپ نے اپنے آئیڈیا کو بیچنا کیسے ہے۔ اگر آپ پاکستان میں نہیں بیچ سکتے تو باہر بیچ دیں۔ میں جن سافٹ وئیر ہاؤسز کے ساتھ کام کر رہا ہوں انہوں نے ایک پروڈکٹ بنائی، پاکستان میں کسی نے اسے نہیں خریدا، انہوں نے باہر بیچ دی، اب ان کے پاس ڈالرز میں پیسے آرہے ہیں۔ پھر اس میں ایک اور پہلو بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ خالی اچھا آئیڈیا کافی نہیں ہے، اس کو پیش کرنا بھی آنا چاہیے۔ آگے جا کر اس کو بیچنا بھی ہے۔ تین چار دوست اکٹھے ہوتے ہیں، انہیں آئیڈیا ز تو اچھے سوجھتے ہیں مگر انہیں بیچنا نہیں آتا، آپ کو ایسی ٹیم چاہیے جس میں آپ اپنی Strength پرکھیلیں، کوئی ایک ممبر بہترین کمیونیکیشن سکل کا مالک ہو، کوئی اچھا تجزیہ کر لیتا ہے، کوئی پریزنیٹیشن اچھی بنالیتا ہوگا، تو یہ ٹیم بنانا ضروری ہے۔

سوال: آپ نے ذکر کیا کہ یہ سوچ کا معاملہ ہے ، یہ بتائیں کہ سوچ میں تبدیلی کیسے آئے، کیا اس کے لیے کوئی عمر کی حد ہے یا کیا کچھ کرنا ہوگا کہ سوچ بدلے؟

جواب: اس میں ایسے ہے کہ جو Change Management ہے یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، اگر آپ اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس تبدیلی کے عمل کے لیے کتنے آمادہ ہیں۔ ہمار ے ہاں لوگوں کو جم میں جانے کا شوق ہوتا ہے۔ جاتے ہیں، ورک کرتے ہیں، لیکن ہم ڈسپلنڈ نہیں رہتے۔ اس میں ہمیں ناکامی ہوتی ہے۔ موٹیویشن کے ساتھ ڈسپلن ضروری ہے۔ یہ سوچنا کہ میں نے کارپوریٹ سیکٹر میں جانا ہے ، یا کسی اور جگہ جاناہے تو میں نے کوشش اور محنت کتنی کی ہے۔ میرے پاس سٹریٹیجی کیا ہے۔ اس پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے۔ ریسرچ کے مطابق اگرآپ اپنے آپ کو جوانی میں تبدیل کرلیں تو زیادہ بہتر ہوتا ہے ، بعد میں مشکلات آتی ہیں۔ مگر ناممکن نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کریں گے توپھر حالات آپ کو تبدیل کردیں گے۔ اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو ایک قدم بڑھائیں اورپھر مستقل مزاجی اور تسلسل کو برقرار رکھیں۔ Change Management میں تسلسل لازمی ہے۔ وگرنہ کامیابی کے روٹھ جانے کا احتمال ہوتا ہے۔ میں مختلف جامعات میں جاتا ہوں، لیکچر دیتاہوں، بڑے اچھے لیکچر ز ہوتے ہیں، تالیاں بج جاتی ہیں، طلباء خوش ہوتے ہیں۔ مگر بعد میں اس کا فالو اپ نہیں ہوتا۔

سوال: آپ ٹریننگز بھی کرواتے ہیں۔ آپ کا کیا تجزیہ ہے کہ ہمارے نوجوان کہاں کوتاہی کرتے ہیں۔ کونسی تعلیم حاصل کریں یا سکلز سیکھیں تا کہ خود روزگار کمانے کے قابل ہو جائیں۔

جواب: سب سے زیادہ کمی جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ ہے صبر۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہر چیز جلدی ہو جائے۔ میں جاؤں آفس میں، ایک بڑا سا آفس ہو ، سجا سجایا ہو، میں گھنٹی بجاؤں اور ملازم چائے لے کر آ جائے۔ یہ ہو گا ضرور لیکن فوراً نہیں ہو سکتا۔ ایجوکیشن میں ڈگری اور سکلز دونوں ضروری ہیں۔ اگر ہروقت کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا چاہیے۔ میرے ایک دوست بہت اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ ہرسال کوئی نیا کورس کرلیتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ ان سب کورسز کے لیے آپ کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ پیسے کا عمل دخل نہیں ہوتا، نیت کا عمل دخل ہے۔ میں جب نیک نیتی سے شروع کرتا ہوں تو اللہ میری مدد کرتا ہے۔ اگر کسی نوجوان نے کوئی ڈگری کر لی ہے، ایم بی اے یا کچھ اور، تو وہ کہتے ہیں کہ بس میں نے بہت پڑھ لیا۔اب مزید نہیں پڑھنا۔ پھر ہمارے ہاں ایسا بھی ہے کہ جب ہم اپنا کیریئر شروع کر رہے ہوتے ہیں توہمیں وہ نوکری نہیں ملتی جو ہم چاہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ نوکری ملتی ہے،جو ہم نہیں چاہتے۔ اس کے لیے ہم نے کوئی سکل نہیں سیکھی ہوتی۔میرا ایک سٹوڈنٹ تھا وہ دبئی گیا جاب ڈھونڈنے۔ اس کو ایچ آر کی جاب نہیں ملی۔ اس کو کسی بینک میں کسٹمر سروس کی جاب مل گئی۔ اس نے مجھے فون کیا کہ میری رہنمائی کریں۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں کسٹمر سروس کی کچھ ویڈیوز اورآرٹیکلز بھیجتا ہوں، اس کو دیکھو۔ اس نے کہا کہ سر مجھے لگتا ہے کہ مجھے یہ جاب چھوڑنا ہو گی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اگر تم ایچ آر میں آنا چاہتے ہو تو آجا ؤ گے، لیکن یہ تمہارے لئے ایک موقع ہے۔ اس کو ضائع مت کرو۔ اس نے وہ ٹریننگز دیکھیں ، کوئی چھ ، آٹھ ماہ بعد اس کو اپنی فیلڈ میں جاب مل گئی۔ بعد میں بتانے لگا کہ وہ کسٹمر سروس جاب والی تربیت میرے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ سیکھنا ضروری ہے۔ یہ آپ کو Back Pay کرتا ہے۔ اس طرح مختلف کورسز ہیں ، اے آئی کے کورسز ہیں ، جو ان کو سیکھ لے گا، آگے جا کر ان کے لیے فائدہ مند ہو ں گے۔

سوال: سوچ کی تبدیلی کے محرکات یا عوامل کون سے ہیں؟

جواب: سوچ کی تبدیلی کے مختلف عوامل ہیں، پہلے تو ایک Mentor ہو جو آپ کی زندگی میں اہم رول ادا کرے۔ آپ کو گائیڈکرے ، وہ فیملی ممبر، کولیگ یا دوست بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا وہ لوگ جوآپ کو ستاتے ہیں، تنگ کرتے ہیں،ان کو اپنی زندگی میں بلاک کر دیں۔ کیونکہ وہ آپ کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ کہیں گے کہ پاکستان میں کچھ نہیں ہو سکتا، ۔ ان لوگوں سے ا پنی کامیابیاں شئیر کریں جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔

میری والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے دیں۔ دنیا میں کوئی فرد ، آپ کے لیے کچھ نہیں کرے گا، آپ کو خود ہی اپنے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنا کام شروع کر کر رہے ہوتے ہیں پاکستان میں میں ایچ ا ر اپنے ا پ کو ایچ ا ر کا ایچ ا ر کی ہمارے ہاں چاہتے ہیں کے مختلف کرتے ہیں نا چاہتے نا چاہیے ضروری ہے سی ای او ا پ اپنے کرتا ہے نہیں ہو ہوتا ہے کے ساتھ ا ئیڈیا اگر ا پ پر بات اور اس کے پاس رہا ہے نے ایک کیا ہے کچھ نہ کہ اگر ہیں کہ تا ہوں کے لیے کام کر

پڑھیں:

فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام

عیدالاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالٰی کے حضور پیش کی تھی۔ اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوںکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔

اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ صرف ایک والد کی طرف سے اپنے بیٹے کی جان دینے کا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عظیم آزمائش تھی۔

حضرت اسماعیلؑ کا رضا مند ہونا، حضرت ابراہیم ؑ کا صبر، اور پھر اللہ تعالیٰ کا فدیہ بھیج دینا ۔ یہ سب ایمان، وفاداری اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہی واقعہ آج بھی قربانی کی صورت میں دہرایا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے ہاں دو عیدیں منائی جاتی ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی…لیکن ان میں سے عید الاضحی کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کیوںکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور اللہ سے وفاداری کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن فقط ظاہری مسرتوں اور چمک دمک کا مظہر نہیں، بلکہ یہ اندرونی پاکیزگی، خلوص نیت، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا کرنے کا نام ہے۔

عید کے موقع پر جب لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں، دل کی کدورتیں دور کرتے ہیں، اور خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو یہ محض رسمی عمل نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے اتحاد، اخوت، اور بھائی چارے کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ عید الفطر، رمضان کے بابرکت مہینے کے اختتام پر خوشی کا پیغام ہوتی ہے، جہاں روزے داروں کو اللہ کی طرف سے انعام و انعام ملتا ہے۔ جبکہ عید الاضحی، ایمان کے ایک عظیم امتحان کی یادگار ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کیا۔ یہ واقعہ صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ اللہ کی رضا کے آگے ہر چیز ہیچ ہے، حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی۔ عید الاضحی دراصل قربانی کے فلسفے کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں پیش کر کے، اپنی بندگی، عاجزی، اور فرمانبرداری کا عملی ثبوت دیتا ہے۔

عیدِ قربان پر معاشی سرگرمیاں

عید الاضحی کا معیشت پر بھی نمایاں اثر پڑتا ہے۔ لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت، قصائیوں، چارہ فروشوں، اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کے لیے یہ دن معاشی سرگرمی کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی علاقوں سے جانور شہروں میں آتے ہیں، بازار سجتے ہیں، اور ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ اگرچہ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔ قربانی کے جانوروں کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق عید الاضحیٰ 2023ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.1 ملین (61 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 531 ارب روپے تھی۔ اس برس قربان کیے گئے جانوروں گائے اور بیل 2.6 ملین، بکرے 3 ملین، بھیڑیں 350,000، بھینسیں: 150,000 اور اونٹ: 87,000 تھے۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق، ان قربانیوں سے حاصل ہونے والی کھالوں کی مالیت تقریباً 7 ارب روپے تھی، تاہم شدید گرمی اور مناسب دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے کھالوں کا تقریباً 35 فیصد حصہ ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ یوں ہی پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ 2024ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.8 ملین (68 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 500 ارب روپے سے زائد تھی۔ قربان کیے گئے جانوروں میں 28 لاکھ گائے، 33 لاکھ بکرے، 1.65 لاکھ بھینسیں، 99 ہزار اونٹ اور 3.85لاکھ بھیڑیں شامل تھیں۔

عید الاضحیٰ 2025ء کے دوران پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی تعداد اور مالیت کے حوالے سے سرکاری یا مستند اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں تاہم، گزشتہ سالوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال بھی تقریباً 6.5 سے 7.0 ملین (65 سے 70 لاکھ) جانور قربان کیے جا سکتے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 500 سے 550 ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔

قربانی کی اصل روح

قربانی اسلام کا ایک عظیم شعائر ہے، جو صرف ایک رسم یا ظاہری عمل نہیں بلکہ انسان کے باطن کی پاکیزگی اور خلوص نیت کا امتحان ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اْسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (سور? الحج: 37)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا، عاجزی اور اخلاص کا اظہار ہے۔ قربانی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان صرف جانور ہی نہیں، بلکہ اپنے نفس کی قربانی دیتا ہے۔

اس میں وہ اپنی خواہشات، ضد، انا، حسد، خود غرضی، اور دنیاوی لالچ کو راہِ خدا میں چھوڑنے کا عہد کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت صرف بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری نہ تھی، بلکہ مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے کا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ آج بھی قربانی کی اصل روح ہے۔ اگر ہم اس عبادت کو صرف گوشت حاصل کرنے، یا رسم نبھانے کی حد تک محدود رکھیں گے تو ہم اس کے اصل مقصد سے محروم ہو جائیں گے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم دنیا میں اپنے مفادات اور نفس پر قابو پاتے ہوئے، خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔

عبادت یا دکھاوا؟

بدقسمتی سے آج کل قربانی جیسے عظیم اور پاکیزہ عمل کو ایک معاشرتی ’’ایونٹ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جہاں عبادت کی جگہ نمائش، اخلاص کی جگہ فخر، اور عاجزی کی جگہ برتری کا اظہار نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جانوروں کی ویڈیوز، ان کی قیمتوں کا دکھاوا اور غیر ضروری تشہیر نے اس مقدس فریضے کو سطحی اور مصنوعی بنا دیا ہے۔ جہاں پہلے قربانی خالص نیت سے کی جاتی تھی، وہیں اب کئی لوگ اسے محض دوسروں کو مرعوب کرنے اور اپنی حیثیت جتانے کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ قربانی کے جانور کی قیمت، جسامت یا نسل کبھی بھی عبادت کا معیار نہیں تھے۔

اصل عبادت تو نیت، تقویٰ اور عاجزی میں پنہاں ہے۔ جانور کو محبت سے پالنا، اس کی خدمت کرنا اور نرمی سے سنتِ ابراہیمیؑ کے مطابق ذبح کرنا، یہ سب وہ اقدار ہیں جو ہمیں قربانی کے ذریعے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر جب ہم اس عمل کو سوشل میڈیا پر ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ گویا روحِ قربانی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ عبادت کو دکھاوے سے پاک رکھنا ایمان کا تقاضا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔ لہذا اگر نیت خالص نہ ہو تو عمل خواہ کتنا بھی عظیم ہو، اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کو اس کے اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ انجام دیں۔

قربانی اور اسلامی مساوات

اسلام نے ہمیشہ معاشرتی مساوات کی تعلیم دی ہے اور عید الاضحی اس کا عملی مظہر ہے۔ قربانی کا گوشت صرف گھر والوں تک محدود نہ رہے بلکہ رشتہ داروں، ہمسایوں اور مستحق افراد تک پہنچے، کیوں کہ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔ اگر ہر صاحب حیثیت فرد سچے دل سے قربانی کرے اور گوشت کو صحیح طور پر تقسیم کرے، تو معاشرے میں بھوک اور محرومی کی شدت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

اجتماعی قربانی اور جدید رجحانات

آج کے تیز رفتار اور مصروف طرزِ زندگی میں جب وقت، جگہ، اور وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قربانی ایک قابلِ عمل، بامقصد اور بابرکت حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ، جنہیں نہ جگہ میسر ہے، نہ جانور کی دیکھ بھال کا وقت اور نہ ذبح و تقسیم کا تجربہ، وہ اجتماعی قربانی کے ذریعے نہ صرف اپنی عبادت ادا کر لیتے ہیں بلکہ بہتر نظم و نسق کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

مساجد، مدارس، سماجی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اجتماعی قربانی کے عمل کو نہایت منظم انداز میں سرانجام دیتے ہیں، جس سے جانوروں کی دیکھ بھال، اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح اور گوشت کی ترسیل، سب کچھ احسن انداز میں انجام پاتا ہے۔ اسی طرح یہ قربانی نہ صرف ایک فرد کی عبادت رہتی ہے بلکہ ایک اجتماعی فلاحی عمل میں ڈھل جاتی ہے، جہاں سینکڑوں مستحقین کے گھروں میں خوشیاں پہنچتی ہیں۔ مزید یہ کہ کورونا کے بعد کے دور میں، صحت اور صفائی کے خدشات کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی کو مزید پذیرائی ملی ہے۔ اس سے نہ صرف ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ جانوروں کے فضلے، خون اور باقیات کے بہتر طریقے سے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

آن لائن قربانی نے بھی انفرادی سطح پر ایک نئی سہولت مہیا کی ہے۔ اب لوگ موبائل ایپس، ویب سائٹس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے قربانی کا جانور منتخب کر سکتے ہیں، ادائیگی کر سکتے ہیں، اور ذبح کے بعد گوشت کی ترسیل بھی حاصل کر سکتے ہیں، تاہم اس سہولت کے ساتھ ایک اہم ذمہ داری بھی جڑی ہے کیوں کہ قربانی محض ’’ٹرانزیکشن‘‘ نہیں بلکہ عبادت ہے۔ اس لیے نیت کا اخلاص، اعتماد والے ادارے کا انتخاب اور شفافیت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔

کچھ افراد آن لائن قربانی کے ذریعے اپنی عبادت کو باآسانی مکمل تو کر لیتے ہیں، لیکن اس عمل سے دوری کی وجہ سے اس عبادت کی روحانی گہرائی کو پوری طرح محسوس نہیں کر پاتے۔ اس لیے، جہاں یہ سہولت کارآمد ہے، وہیں روحانی تعلق اور شعور کو قائم رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اجتماعی قربانی کا رجحان اگر خلوص، نظم اور مقصدیت کے ساتھ قائم رہے تو یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک ایسی سماجی عبادت بھی بن سکتی ہے جو انفرادی نفع سے بڑھ کر اجتماعی فلاح کا سبب بنتی ہے۔

خاندانی بندھن

عید الاضحی صرف عبادت اور قربانی کا موقع نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہوار ہے جو خاندان کے افراد کو قلبی طور پر قریب لاتا ہے۔ گھر کے تمام افراد، چاہے وہ بچے، جوان ہوں یا بزرگ، سب مل کر عید کی تیاریوں میں حصہ لیتے ہیں۔

جانور کی دیکھ بھال، چارہ ڈالنا، پانی دینا اور اس سے مانوس ہونا، یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو خاندان میں محبت، تعاون اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ خواتین کھانے کی تیاری میں مشغول ہوتی ہیں، مرد حضرات انتظامات سنبھالتے ہیں، اور بچے جوش و خروش سے گھومتے پھرتے ہیں۔ اس سب کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں وہ قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے جو عام دنوں میں شاید نہ ہو۔ یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، اور رشتہ داروں سے جڑا رہنا ہی معاشرتی سکون کا اصل ذریعہ ہے۔

خواتین کا کردار: قربانی، پکوان اور سخاوت

عید الاضحی کے موقع پر خواتین کا کردار قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کے اندرونی امور کو سنبھالتی ہیں بلکہ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم، سلیقے سے رکھنا اور پکوان کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تنظیمی صلاحیتیں اور وقت پر ہر کام کی انجام دہی قربانی کی مجموعی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ کئی خواتین اس موقع کو سخاوت اور ہمدردی کے اظہار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ضرورت مندوں کے گھروں تک گوشت پہنچاتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے روایتی کھانے نہ صرف ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ محبت سے بھرپور بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کی اصل رونق انہی کے دم سے ہے۔

جانوروں سے محبت دراصل بچوں کی تربیت

قربانی سے پہلے جانور سے تعلق قائم کرنا، اس سے شفقت سے پیش آنا اور اس کی دیکھ بھال میں دلچسپی لینا ایک ایسا تربیتی عمل ہے جو بچوں کی شخصی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب بچہ کسی جاندار کے ساتھ پیار کا رشتہ بناتا ہے اور پھر اس کے فراق پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ اس کے اندر ہمدردی، برداشت، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ عمل بچوں کو محض مذہبی معلومات نہیں دیتا بلکہ ان کے جذبات اور اخلاقیات کو نکھارتا ہے۔ یہ سبق وہ کتابوں سے نہیں بلکہ عملی تجربے سے سیکھتے ہیں کہ اصل قربانی یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو رضائے الٰہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

صفائی اور شہری ذمہ داریاں

عید الاضحی کے بعد شہروں اور محلوں میں صفائی کا جو منظر پیش آتا ہے وہ ہماری اجتماعی غفلت کی تصویر ہوتا ہے۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے صفائی کی مہم چلاتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم بطور ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔ گوشت کے فضلات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا، خون کو پانی سے دھونا، اور آس پاس کے ماحول کو صاف رکھنا صرف حکومت کا نہیں، ہر فرد کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کیوں کہ ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، اور قربانی جیسے مقدس موقع پر اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو یہ عبادت کی روح کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنے گھروں بلکہ گلی محلوں کو بھی پاکیزہ بنائیں تاکہ عید واقعی ایک خوشگوار تجربہ بن سکے۔

عید کا حقیقی حسن

عید کی خوشیوں کا اصل حسن تب نمایاں ہوتا ہے جب یہ صرف امیروں یا صاحبِ استطاعت لوگوں تک محدود نہ رہے، بلکہ غربا، یتامیٰ اور نادار افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں۔ اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا خاندان ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی بچہ عید پر نیا لباس نہیں پہن سکا، تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔

عید کے موقع پر احساس، درد مندی اور سخاوت وہ اقدار ہیں جو ہمیں ایک باوقار معاشرہ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسیوں، ملازمین، اور کمزور طبقات کو نظر انداز کر کے صرف اپنے خاندان کی خوشیوں میں مگن رہیں گے، تو یہ خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عید کو خدمتِ خلق، انفاق اور باہمی محبت کا ذریعہ بنائیں۔

خطبہِ عید

نمازِ عید کے بعد کا خطبہ محض رسمی خطاب نہیں بلکہ ایک بیداری اور اصلاح کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہزاروں افراد یکجا ہو کر دل و دماغ کے ساتھ بات سننے کو تیار ہوتے ہیں، اور اگر اس موقع پر دین کے ساتھ سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے تو ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر خطیب قربانی کی روح، معاشرتی اتحاد، صفائی کی اہمیت، اور معاشرتی ذمہ داریوں پر سیر حاصل گفتگو کرے، تو سننے والوں کے رویے اور سوچ میں فرق آ سکتا ہے۔ یہ موقع قوم کو متحد، باشعور، اور باعمل بنانے کا موقع ہے، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

عید الاضحیٰ کا بین الاقوامی رنگ

دنیا بھر میں عید الاضحیٰ مختلف ثقافتی رنگوں، زبانوں اور مقامی روایات کے ساتھ منائی جاتی ہے، لیکن اس کی اصل روح’’قربانی برائے رضائے الٰہی‘‘ ہر جگہ یکساں ہے۔ افریقہ میں قبیلے کے لوگ اجتماعی طور پر جانور ذبح کرتے ہیں، بنگلہ دیش میں پورا محلہ ایک ساتھ مل کر حصہ ڈالتا ہے، اور یورپ و امریکہ میں مسلمان تارکین وطن اپنی کمیونٹیز میں عبادت کے ساتھ اپنی شناخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان مختلف اندازوں کے باوجود جو چیز سب کو جوڑتی ہے وہ قربانی کی اصل نیت، وحدتِ امت، اور اخوت کا پیغام ہے۔ یہ عالمی منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم چاہے کسی بھی ملک میں ہوں، ہماری عبادت ایک ہے، اور ہمارا خالق بھی ایک۔

مہنگائی

گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی نے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے قربانی جیسے فریضے کو ایک کٹھن آزمائش بنا دیا ہے۔ جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، جس سے وہ ذہنی دباؤ اور سماجی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے استطاعت کو بنیاد بنایا ہے، اور جو شخص واقعی قربانی کا متحمل نہیں، وہ شرعی طور پر معذور ہے، محروم نہیں۔ دین ہمیں دکھاوے سے روکتا ہے اور نیت کے اخلاص کو سب سے بلند رکھتا ہے۔ اس مشکل معاشی ماحول میں وہ افراد جو صاحبِ حیثیت ہیں، ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسرے بھائیوں کو قربانی میں شامل کریں یا ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

قربانی کا گوشت

قربانی کے فوراً بعد اکثر گھروں میں گوشت کی بھرمار ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس گوشت کا درست انداز میں استعمال نہ ہو تو یہ نعمت ضیاع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوشت کو ذخیرہ کرنے کے لیے صفائی، درجہ حرارت اور مناسب پیکنگ کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فریزر میں بلاوجہ گوشت بھرنا اور مہینوں تک اسے ضائع کر دینا، اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم گوشت کی تقسیم میں توازن رکھیں، عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور مستحقین کو بھی شامل کریں، اور اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف نعمت کا شکر ادا ہو گا بلکہ دوسروں کا حق بھی ادا کیا جا سکے گا۔

نوجوان نسل کے لیے پیغام

عید کا دن نوجوانوں کے لیے محض تعطیل یا تفریح کا موقع نہیں، بلکہ تربیت اور کردار سازی کا ایک نادر موقع ہے۔ جب نوجوان قربانی کی تیاری، جانور کی دیکھ بھال، اور اس کے ساتھ محبت میں شریک ہوتے ہیں، تو ان کے اندر احساس، ذمہ داری، اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ انہیں یہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ قربانی صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی جہاد ہے، جس کا مقصد اپنے اندر کی خود پسندی، غفلت، اور دنیا پرستی کو ختم کرنا ہے۔ اگر نوجوان اس عبادت کے گہرے مفہوم کو سمجھ لیں، تو وہ اپنی زندگی کو خدمت، خلوص، اور قربانی کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں، جو مستقبل میں انہیں ایک بہتر انسان، شہری اور مسلمان بننے میں مدد دے گا۔  

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • بھارتی ریاست منی پور میں کرفیو؛ انٹرنیٹ معطل، مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں جاری
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں، شیخ رشید
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں: شیخ رشید احمد
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہوتے جارہے ہیں: شیخ رشید
  • بیروزگار نوجوان جعلی نوکری کے لیے کمپنیوں کو یومیہ فیس کیوں دیتے ہیں؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟