عوام بجلی بلزکے سبب خودکشیاں کررہے ہیں، وفاق پاکستان پر رحم کرے، سندھ حکومت
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
مختلف شہروں میں ہم نے سولر لائٹس لگائیں، سوا مہینے سے سکھر اور دیگر شہر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں
پیپلز پارٹی عوام کے ساتھ زیادتی پرچپ نہیں بیٹھے گی،وفاقی حکومت سے بہت سارے اختلافات ہیں
سندھ حکومت کے ترجمان اورمیئر سکھر بیرسٹرارسلان اسلام شیخ نے کہاہے کہ وفاق نے سندھ کو نقشے سے الگ کیا ہوا ہے،وزیر اعظم سے گزارش ہے اپنا نظام درست کریں، سندھ کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے، عوام پوچھتی ہے ،سندھ کا موٹر وے سندھ حکومت کیوں نہیں بنا رہی، وفاقی حکومت نے پورے پاکستان میں موٹر وے قائم کر دیے، حیدر آباد یا سکھر کی بات آتی ہے تو موٹر وے منصوبہ تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے،،دعا ہے چاچا بھتیجی کی جوڑی سلامت رہے۔سندھ حکومت کے ترجمان اور میئر سکھر ارسلان اسلام شیخ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کو وفاقی حکومت سے بہت سارے اختلافات ہیں، پوری پاکستانی قوم معیشت کے باعث پریشان ہے، بجلی کے بلوں پر خودکشیاں ہوئی، وفاق پاکستان پر رحم کرے۔بیرسٹرارسلان اسلام نے کہا کہ سکھر میں سیبکو اور حیدرآباد میں حیسکو کراچی میں کے الیکٹرک ہے، سیبکو میں دس اضلاع آتے ہیں پینسٹھ سے زائد تعلقے آتے ہے، سیبکو کے ایک اضلاع میں باون کروڑ کی خورد برد ہوئی ہے،۔بیرسٹرارسلان اسلام نے کہا کہ سندھ کے مختلف شہروں میں ہم نے سولر لائٹس لگائی، سوا مہینے سے سکھر اور دیگر شہر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی عوام کے ساتھ زیادتی میں چپ نہیں بیٹھے گی۔انہوں نے کہا کہ تھر کا دورہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی سب سے سستی بجلی بنانے جا رہی ہے، چیئرمین پیپلز پارٹی کے کہنے پر لوگوں کو مفت بجلی بھی دی جا رہی ہے، اس کے علاوہ گیس کا مسئلہ سندھ میں بڑھتا جا رہا ہے۔میئر سکھر نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 158 کے مطابق گیس جہاں پروڈیوس ہوتی ہے پہلے وہاں کی مانگ پوری کی جاتی ہے، گیس سندھ سے نکلنے کے باوجود سندھ کو نہیں ملتی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی سندھ حکومت نے کہا کہ
پڑھیں:
ای چالان کے نام پر ایک نیا بھتا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251031-03-3
قاسم جمال
کراچی کے عوام کی مشکلات اور پریشانیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی کو سندھ اور وفاقی حکومت نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں لیکن ان کا جی نہیں بھر رہا ہے۔ ای چالان کے نام پر ایک ایسا نیا ٹیکس کراچی کے شہریوں پر مسلط کردیا گیا ہے جس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ایک جانب شہر کراچی جو وفاق اور سندھ کو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ شہر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ کراچی کے نوجوانوں پر پہلے ہی روزگار کے دروازے مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں اور کراچی کے ڈومیسائل پر وڈیروں جاگیرداروں کے رشتہ دار بھرتی ہورہے ہیں۔ سندھ سیکرٹریٹ میں پرانے ملازمین ریٹائر ہورہے ہیں اور نئی بھرتی صرف اندرون سندھ کے لوگوں کی ہی کی جارہی ہے۔ 2030 میں سندھ سیکرٹریٹ میں ایک بھی کراچی والا نہیں ہوگا۔ کراچی کے نوجوان فوڈ پانڈا اور چنگ چی رکشا ہی چلاتے رہے گے۔ کراچی کے نوجوان جو اپنے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں اور نوجوانوں کی اکثریت اپنے بہتر مستقبل کے لیے اب بیرون ممالک جانے پر مجبور ہوگئی ہے اور روزآنہ پندرہ ہزار کے قریب نوجوان ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ سندھ حکومت ایک جانب کراچی کے عوام کو کسی بھی قسم کی سہولت دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس شہر میں بجلی ہے نہ گیس ہے، نہ ٹرانسپورٹ، نہ سڑکیں، نہ سیوریج کا کوئی نظام۔ اب ایک نیا ظلم اور ستم ای چالان کے نام پر کراچی کے عوام پر ڈھایا جارہا ہے۔
کراچی میں ایک جانب سڑکیں تباہی وبربادی کا شکار ہیں اور پورا شہر موہن جودڑو کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہیوی ٹریفک، ٹرالے، کوچز، ٹینکرز بدمست ہاتھی کی طرح عوام کو اپنے ٹائروں کے نیچے کچل رہے ہیں۔ ہیوی ٹریفک کی نہ کوئی فٹنس چیک کرتا ہے اور نہ ان کے ڈرائیوروں کے لائسنس۔ حکومت کو صرف اور صرف کراچی کے شہریوں کو اذیت اور پریشان کرنے کا کوئی موقع چاہیے۔ سندھ حکومت دبئی، سنگاہ پور، لندن، امریکا کے ٹریفک نظام کی بات کررہی ہے۔ حکومت کو اگر ان ملکوں کا ٹریفک نظام نافذ کرنا ہے تو پہلے وہ یہاں کی سڑکوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے لیکن حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کراچی کے لوگوں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کرے گی۔ کراچی کے عوام ٹریفک جام ہونے سے ذہنی مریض ہوچکی ہے۔ ریڈ لائن منصوبہ تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مکمل نہیں ہورہا ہے اور اس منصوبے کو مکمل ہونے میں مزید ڈیڑھ دو سال لگنے کے امکانات ہیں۔ ایسے میں کراچی کے منتخب ہونے والے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی نے بے حسی کی چادر اوڑھ لی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شہر لاوارث ہوچکا ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہے۔ ای چالان نے شہر میں ایک قیامت مچادی ہے۔ کراچی میں 27 اکتوبر سے لگنے والے نئے کیمروں کے بعد صرف 6 گھنٹوں میں ڈیڑھ کروڑ روپے کے چالان کیے گئے اور پولیس اسے اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام اصلاح نہیں، عوام سے رقم بٹورنے کا نیا ذریعہ بن گیا ہے۔ غریب شہری کی 30 ہزار کی موٹر سائیکل پر 25 ہزار کا جرمانہ لگانا کہاں کا انصاف ہے؟
یہ قانون نہیں، بلکہ کھلا بھتا ہے جسے جدید ٹیکنالوجی کے نام پر عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال چالیس ہزار ٹریفک پولیس اہلکار اندرونِ سندھ سے بھرتی کیے گئے تھے لیکن ان اہلکاروں سے ٹریفک کنٹرول کرنے کے بجائے انہیں چالان کے نام پر بھتا خوری اور رشوت خوری پر لگا دیا گیا۔ پہلے اجرک پلیٹ کے نام پر کراچی والوں کو لوٹا گیا اور اب ای چالان کے نام پر بھتا خوری کا ایک نیا قانون شہر میں مسلط کیا جارہا ہے۔ ایک جانب سندھ میں گھوٹکی سے لیکر حیدرآباد تک بغیر نمبر پلیٹ کے موٹر سائیکل ودیگر گاڑیاں کھلے عام دھڑلے کے ساتھ چل رہی ہیں اور کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں دوسری جانب کراچی کے مظلوم شہریوں پر ای چالان کے نام پرایک ایسا قانون اور ٹیکس کا نظام نافذ کردیا گیا ہے کہ کراچی والے دھائی دے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں کراچی کی تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں اور اس ظالمانہ چالان کو عدالت میں چیلنج کر کے اسے منسوخ کرایا جائے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ کراچی پر یہ ظلم نہ کرے اور ای چالان کے نام پر بھاری جرمانوں میں کمی کی جائے اور پورے ای چالان نظام کو شفاف طریقے سے چلایا جائے۔ اتنے زیادہ اور بھاری چالان عوام برداشت نہیں کرسکتے اور اس ظلم کے نتیجے میں نفرت کی سیاست پروان چڑھے گی اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو پھر شہر میں امن وامان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی پر رحم کرے ان کے صبر کو نہ آزمائے۔ کراچی کے شہریوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا نہ دی جائے اور مشرقی پاکستان والے حالات یہاں پیدا نہ کیے جائیں ورنہ کراچی کے عوام اگر اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر حکمرانوں کو جائے پناہ تک نہیں ملے گی۔