آڈٹ رپورٹس پر تنازع سنگین، اے جی پی نے الزامات مسترد کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) اور قومی اسمبلی (این اے) سیکریٹریٹ کے درمیان سال 2024-25ء کی وفاقی آڈٹ رپورٹس پر سنگین تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ سبکدوش ہونے والے اے جی پی نے غلطیوں اور غلط رپورٹنگ کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے، جبکہ اسپیکر اپنے اس فیصلے پر قائم ہیں کہ یہ رپورٹس خلاف ورزیوں کے باعث واپس بھیجی جائیں۔ روزنامہ دی نیوز میں قومی اسمبلی کے ترجمان کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اے جی پی نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ یہ رپورٹس واپس بھیجی گئی ہیں، اور اعداد شمار میں کوئی ’’غلطی‘‘ ہے۔ تنازع گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا جب اسپیکر نے مالی سال 2023-24ء سے متعلق آڈٹ رپورٹس (آڈٹ ایئر 2024-25) اے جی پی کو واپس بھجوا دیں۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اس کی دو وجوہات بتائی تھیں: رپورٹس وزارتِ پارلیمانی امور کے ذریعے بھیجنے کے بجائے براہ راست سیکریٹریٹ کو ارسال کی گئیں، اور ان رپورٹس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل آن لائن شائع کر دیا گیا، جسے ’’ایوان کی توہین‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ پیر کے روز جاری وضاحت میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے محکمے (ڈی اے جی پی) نے ان الزامات کو ’’بے بنیاد اور گمراہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2023-24ء کی آڈٹ رپورٹس اور مالیاتی گوشوارے آئین کے آرٹیکلز 168 تا 171 کے مطابق وزیرِاعظم کے ذریعے صدرِ مملکت کو ارسال کیے گئے تھے۔ صدر مملکت نے 12؍ اپریل 2025ء کو ان رپورٹس کی منظوری دی جس کے بعد یہ رپورٹس دونوں ایوانوں کو بھیجی گئیں۔ اے جی پی کے مطابق، ان رپورٹس کو 13؍ اگست کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا لیکن اسی روز اجلاس ملتوی ہونے کے باعث پیش نہ ہو سکیں۔ بعد ازاں سیکریٹریٹ نے ہدایت دی کہ رپورٹس جمع کر کے پیش کیے جانے تک خفیہ رکھی جائیں۔ رپورٹ کے مطابق، سینیٹ کو بھیجی گئی رپورٹس تاحال سینیٹ سیکریٹریٹ کے پاس ہیں۔ اے جی پی آفس نے واضح کیا کہ اعداد و شمار میں کوئی غلطی نہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مجموعی آڈٹ رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری میں یہ رقوم بطور حوالہ درج کی گئیں تاکہ اسٹیک ہولڈرز سیکٹر وائز جائزہ لے سکیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آڈٹ رپورٹس مکمل معیارِ جانچ کے بعد تیار کی گئیں اور ان میں کوئی غلطی نہیں۔ تاہم، اے جی پی کی وضاحت قومی اسمبلی کے بنیادی اعتراض کو براہِ راست دور نہیں کرتی کہ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیشی سے پہلے ویب سائٹ پر کیوں عام کی گئیں۔ سیکریٹریٹ کے مطابق یہی بڑی وجہ تھی جس کی بنیاد پر رپورٹس واپس بھجوائی گئیں۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب مجموعی آڈٹ رپورٹ میں تین لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا ذکر سامنے آیا۔ یہ رقم وفاقی بجٹ 14.
انصارعباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی ا ڈیٹر جنرل ا ڈٹ رپورٹس ا ڈٹ رپورٹ ان رپورٹس میں کوئی کے مطابق اے جی پی کی گئیں
پڑھیں:
سعودی عرب: کرپشن اور منصب کے غلط استعمال پر 100 ملزمان گرفتار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سعودی عرب کے محکمہ انسداد بدعنوانی کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ اکتوبر 2025 کے دوران متعدد فوجداری اور انتظامی مقدمات پر کارروائی عمل میں لائی گئی ہے جو سرکاری مال کے تحفظ اور ہر طرح کی بدعنوانی کے انسداد کے لیے جاری کوششوں کا حصہ ہے۔
سعودی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق محکمہ انسداد بدعنوانی نے وضاحت کی ہے کہ اُس نے اس عرصے میں نگرانی کے عمل سے متعلق 4895 دورے کیے اور 478 ملزمان سے مختلف مقدمات میں تحقیقات کی گئیں۔
رپورٹس کے مطابق یہ تحقیقات رشوت اور عہدے کے ناجائز استعمال جیسے جرائم کے حوالے سے کی گئیں۔
تحقیقات کے بعد 100 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جبکہ بعض کو ضمانتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق یہ مقدمات کئی سرکاری وزارتوں اور اداروں سے کے اہلکاروں کے خلاف ہیں جن کا تعلق وزارتِ داخلہ، وزارت بلدیات، وزارت تعلیم، وزارت صحت اور وزارت ہیومن ریسورسز سے ہے۔
محکمے کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات ان اطلاعات اور شکایات کے سلسلے کی پیروی میں کیے گئے ہیں جو اسے موصول ہوتی ہیں نیز اُن خلاف ورزیوں کی بنیاد پر جو اس کے معائنے میں سامنے آتی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق سعودی عرب میں محکمہ انسداد کرپشن نے واضح کیا ہے کہ وہ احتساب کے اصول کو نافذ کرنے اور شفافیت کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہے، ساتھ ہی عوام سے اپیل کی کہ وہ مالی یا انتظامی بدعنوانی کے کسی بھی شبہے کی اطلاع مقررہ سرکاری ذرائع سے دیں۔