افسران کا ڈیوٹی کے بعد سرکاری گاڑیوں کا استعمال، وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست پر سماعت جسٹس وقار احمد اور جسٹس قاضی جواد احسان اللہ نے کی۔ اسلام ٹائمز۔ سرکاری گاڑیوں کے ڈیوٹی کے بعد استعمال کے خلاف پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست پر سماعت جسٹس وقار احمد اور جسٹس قاضی جواد احسان اللہ نے کی۔ وکیل درخواست گزار ملک سلمان خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے درخواست سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف کی ہے، سرکاری افسران ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کو بے رحمانہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ افسران سرکاری گاڑیوں کو پرائیویٹ تقریبات میں بھی استعمال کرتے ہیں، سرکاری گاڑیاں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی جاتی ہیں، سرکاری افسران جس طرح گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، یہ قومی خزانے پر بوجھ ہے، عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں درخواست پر سماعت سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف سرکاری افسران کے ڈیوٹی
پڑھیں:
حکومت کا چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس نہ بڑھانے کا فیصلہ
حکومت نے مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز مسترد کر دی ہے، جس سے عوام اور مقامی آٹو انڈسٹری کو ریلیف ملا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان میں 2025 میں کس کمپنی کی گاڑیاں زیادہ فروخت ہوئیں؟
وزارت صنعت و پیداوار نے تجویز دی تھی کہ تمام مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کیا جائے، تاہم 1400cc سے کم انجن والی گاڑیوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔
تاہم، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس تجویز کو مسترد کر دیا، کیونکہ اس سے 25 فیصد جی ایس ٹی ادا کرنے والی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح کم ہو جاتی، جس سے ٹیکس آمدنی میں کمی کا خدشہ تھا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے اس بات پر زور دیا کہ آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت ٹیکس بیس کو وسیع کرنا ضروری ہے، اور اس تجویز سے ٹیکس آمدنی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سوزوکی پاکستان کی ’آل ان ون‘ کار انشورنس میں خاص کیا ہے؟
مارچ 2023 میں، حکومت نے مالیاتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے لگژری گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی تھی۔ یہ اضافہ 1400cc یا اس سے زیادہ انجن والی گاڑیوں اور ایس یو ویز پر لاگو ہوا تھا۔
پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، کیونکہ آٹو انڈسٹری پہلے ہی مہنگائی اور کمزور طلب کا سامنا کر رہی ہے۔ PAMA کے مطابق، سیلز ٹیکس میں اضافہ مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر سکتا تھا، جس سے فروخت میں کمی اور حکومت کی ٹیکس آمدنی میں کمی واقع ہو سکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:خیبر پختونخوا: نان کسٹم گاڑیوں کی پروفائلنگ نہ کرنے پر حکومت کیا کارروائی کرے گی؟
حکومت کے اس فیصلے سے چھوٹی گاڑیوں کے خریداروں کو ریلیف ملا ہے، اور آٹو انڈسٹری کو استحکام حاصل ہوا ہے۔ تاہم، حکومت نے لگژری گاڑیوں پر 25 فیصد سیلز ٹیکس برقرار رکھا ہے، تاکہ مارکیٹ میں توازن قائم رکھا جا سکے اور ٹیکس آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے۔
یہ فیصلہ عوامی مفاد اور معیشت کی بہتری کے لیے اہم قدم ہے، جو مہنگائی کے دباؤ میں عوام کو ریلیف فراہم کرتا ہے اور مقامی صنعت کو سہارا دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹو انڈسٹری ایف بی آر پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ٹیکس چھوٹی گاڑیاں