ذرا کم عمر لڑکوں کی جانب بھی توجہ دیجیے
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) ہمارے معاشرے میں اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ لڑکیوں کی تربیت پر تمام توجہ مرکوز کی جائے۔ جی نسلوں کا سوال ہے جبکہ لڑکوں کی تربیتی آبیاری پر دھیان نہیں دیا جاتا جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ لڑکوں کی تربیت معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔
والدہ کے ساتھ بالخصوص والد کا بیٹوں کو سکھانا اس لیے اہم ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر ان کا واسطہ بیرونی دنیا سے زیادہ پڑتا ہے۔
اگر ٹریننگ نہ کی گئی تو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ جو حالات چل رہے ہیں ان میں اگر کم عمر لڑکوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو واضح نہ کیا گیا اور ان کو غلط بات پر نہ ٹوکا گیا تو لڑکے خودسر اور ضدی ہو کر والدین کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیں گے جو انہوں نے اپنے بیٹوں سے وابستہ کر رکھی ہیں۔(جاری ہے)
بدتہذیب لڑکے راحت کی بجائے باعثِ زحمت بن جاتے ہیں اور بڑھاپے میں والدین کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
تلخ حقیقت ہے کہ آج کل کے بہت سے لڑکے تمیز سے بات کرنے کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اگر بڑے انہیں کسی بات پر ٹوکتے ہیں تو پلٹ کر ایسا جواب آتا ہے کہ بندہ دم بخو رہ جاتا ہے۔ نہ سلام نہ دعا نہ ہی کوئی لحاظ۔ سب آہستہ آہستہ رخصت ہوتا جا رہا ہے۔لڑکے کی تربیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرہ کا فرض شناس شہری، خدمت گزار بیٹا، عزت کرنے والا داماد، غم گسار شوہر اور بہنوں کی سرپرستی کرنے والا بھائی بن سکے۔
تربیت سے حقوق و فرائض کی آگاہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس ڈیجیٹل دور میں کڑی نگاہ رکھیے کہ ٹین ایج لڑکوں کی دوستیاں کس سے اور کس سبب ہیں۔ وہ کس سے ملتے ہیں۔ ملاقات کے دوران موضوعِ گفتگو کون سی باتیں ہوتی ہیں۔ خیال اس لیے رکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں کالعدم تنظیموں کے کارندے برین واشنگ کی تکنیک کے ذریعے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔نیز مشاہدے میں آیا ہے کہ صاحب ثروت گھرانوں میں آٹھ سال کے بچوں کو ذاتی سمارٹ فون الاٹ کر دیا جاتا ہے اور وہ پڑھائی کرنے کی بجائے گھنٹوں گھنٹوں باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اب اتنی سی عمر میں کیا باتیں ہو سکتی ہیں کیا معلوم؟۔ جب کوئی دوست احباب یا ہمسایہ شکایت کر دے کہ اتنے سے بچے کے ہاتھ میں موبائل دینے کی کیا ضرورت ہے تو ان طنزیہ جملوں کی پاداش میں لڑکوں سے موبائل ہی چھین لیا جاتا ہے۔
بہتر تو یہ ہے کہ بچے کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کا طریق کار بتایا جائے، سوشل میڈیا اخلاقیات سے روشناس کروایا جائے۔ موبائل سکرین ٹائم مقرر کر دیا جائے۔ ذرا زرا سی بات پر قدغن لگانا کہاں کی دانشمندی ہے؟۔حالات کا تقاضا ہے کہ پڑھائی کےساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے لڑکوں کی ٹریننگ اس نہج کی ہو کہ لڑکے کم عمری میں ہی تجارت کے معاملات سے روشناس ہوں۔
علاوہ ازیں اگر بچے سوشل پلیٹ فارم سے کمانے کا میلان رکھتے ہیں تو اس پر بھی ان کو سکھایا جائے کہ یہ والا بہترین ٹریک ہے یا پرخطر یا یہ وی لاگ کرنے سے نقصان یا بدنامی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ ٹین ایج لڑکے فالورز حاصل کرنے کے چکر میں کم عمری میں بندوق سے ایکٹنگ کرتے کرتے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں یا عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔دراصل المیہ ہے کہ ہمارے بدترین سیاسی حالات نے ملک و قوم کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
نہ کوئی امنگ ہے اور نہ ہی کوئی تحریک۔ جو نوجوانوں کو بہترین مستقبل کی جانب گامزن رکھے۔ اس لیے یوتھ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کا راستہ ان کے لیے انتہائی سہل ہے۔ لیکن اس کے استعمال سے متعلق والدین کوئی آگاہی ہی نہیں دیتے۔کم عمر لڑکوں کو لگثری گاڑیاں دینا ماورائے عقل ہے۔ جب وہ تیز رفتاری سے کسی کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیتے ہیں تب ہوش کے ناخن لیے جاتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ اس بچے کا مستقبل کیا ہو گا جس کی چڑھتی جوانی ہی سلاخوں کے سائے سے داغ دار کر دی ہو۔ پچھتانے سے بہتر ہے کہ کم عمری میں لڑکوں کو گاڑیاں قطعاً نہ دی جائیں۔ نیز ڈیجیٹل ڈیوائسز بھی بلاضرورت نہ تھمائی جائیں کیونکہ قبل از وقت ایسی اشیاءتھمانا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آپ کا بچہ ایک مشق نہیں جسے آپ جلدی جلدی نمٹا دیں۔ تربیت ایک ٹائم اور توجہ مانگتی ہے۔ لہذا اپنے لڑکوں پر نگاہ رکھیے، باخبر رہیے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں بلکہ لنکا ڈھانے کے مترادف ہے تو پھر ہو سکتا ہے کہ لڑکوں کی ٹریننگ کے فقدان کے سبب خدانخواستہ اگلی خبر آپ کا تعاقب کر رہی ہو۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سوشل میڈیا کی تربیت اس لیے کے لیے
پڑھیں:
ایک اور معروف ٹک ٹاکر گھر میں مردہ پائی گئیں؛ 2 افراد گرفتار
سندھ کے شہر گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی معروف ٹک ٹاکر سمیرا راجپوت اپنے گھر میں پُراسرار حالات میں مردہ پائی گئیں۔
سمیرا راجپوت کی اچانک موت کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹک ٹاکر کی لاش کو لوڈر رکشے میں لے جایا جا رہا ہے۔
سمیرا راجپوت ایک ابھرتی ہوئی سوشل میڈیا شخصیت تھیں جنھوں نے اپنی مختصر ویڈیوز اور منفرد انداز سے کافی شہرت حاصل کی تھی۔
ان کی اچانک موت نے نہ صرف ان کے مداحوں کو غمزدہ کر دیا بلکہ ان کے خاندان کی جانب سے سنگین الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
سمیرا کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ان کی موت حادثاتی نہیں بلکہ قتل ہے، جس کے ذمہ دار سمیرا کے سابق شوہر ہیں۔
والدین نے الزام عائد کیا کہ سمیرا کو گھریلو تشدد کا سامنا تھا اور وہ کئی بار اپنی زندگی کے حوالے سے خوف کا اظہار کر چکی تھیں۔
گھوٹکی کے ڈی ایس پی نے کیس سے متعلق میڈیا کو بتایا کہ سمیرا کی 15 سالہ بیٹی کا بیان قلم بند کیا گیا ہے۔
جس میں بیٹی نے بتایا کہ چند افراد ماں سمیرا راجپوت پر زبردستی شادی کا دباؤ ڈال رہے تھے اور انکار پر زہریلی دوا دیکر قتل کردیا۔
تاحال پولیس یا انتظامیہ کی جانب سے موت کی اصل وجہ کے بارے میں حتمی بیان سامنے نہیں آیا تاہم پولیس نے شک کی بنیاد پر دو افراد کو گرفتار کر لیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کے بقول لاش پر تشدد کے شواہد نہیں ملے۔ خون کے نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں تاکہ موت کی وجہ کا تعین کیا جا سکے۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد سمیرا کو انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی اپیل کی جا رہی ہے۔
ادھر شوبز اور آن لائن کمیونٹی کے کئی افراد نے بھی سمیرا کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے بعد امکان ہے کہ حکام اس واقعے کی تحقیقات کرکے حقائق کو سامنے لایا جائے گا۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی ٹک ٹاکر کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہو۔ اس سے قبل اسلام آباد میں بھی ایک نوجوان ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو دوستی نہ کرنے پر قتل کردیا گیا تھا۔