UrduPoint:
2025-09-18@12:40:34 GMT

ذرا کم عمر لڑکوں کی جانب بھی توجہ دیجیے

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

ذرا کم عمر لڑکوں کی جانب بھی توجہ دیجیے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) ہمارے معاشرے میں اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ لڑکیوں کی تربیت پر تمام توجہ مرکوز کی جائے۔ جی نسلوں کا سوال ہے جبکہ لڑکوں کی تربیتی آبیاری پر دھیان نہیں دیا جاتا جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ لڑکوں کی تربیت معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

والدہ کے ساتھ بالخصوص والد کا بیٹوں کو سکھانا اس لیے اہم ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر ان کا واسطہ بیرونی دنیا سے زیادہ پڑتا ہے۔

اگر ٹریننگ نہ کی گئی تو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ جو حالات چل رہے ہیں ان میں اگر کم عمر لڑکوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو واضح نہ کیا گیا اور ان کو غلط بات پر نہ ٹوکا گیا تو لڑکے خودسر اور ضدی ہو کر والدین کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیں گے جو انہوں نے اپنے بیٹوں سے وابستہ کر رکھی ہیں۔

(جاری ہے)

بدتہذیب لڑکے راحت کی بجائے باعثِ زحمت بن جاتے ہیں اور بڑھاپے میں والدین کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

تلخ حقیقت ہے کہ آج کل کے بہت سے لڑکے تمیز سے بات کرنے کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اگر بڑے انہیں کسی بات پر ٹوکتے ہیں تو پلٹ کر ایسا جواب آتا ہے کہ بندہ دم بخو رہ جاتا ہے۔ نہ سلام نہ دعا نہ ہی کوئی لحاظ۔ سب آہستہ آہستہ رخصت ہوتا جا رہا ہے۔

لڑکے کی تربیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرہ کا فرض شناس شہری، خدمت گزار بیٹا، عزت کرنے والا داماد، غم گسار شوہر اور بہنوں کی سرپرستی کرنے والا بھائی بن سکے۔

تربیت سے حقوق و فرائض کی آگاہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس ڈیجیٹل دور میں کڑی نگاہ رکھیے کہ ٹین ایج لڑکوں کی دوستیاں کس سے اور کس سبب ہیں۔ وہ کس سے ملتے ہیں۔ ملاقات کے دوران موضوعِ گفتگو کون سی باتیں ہوتی ہیں۔ خیال اس لیے رکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں کالعدم تنظیموں کے کارندے برین واشنگ کی تکنیک کے ذریعے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔

نیز مشاہدے میں آیا ہے کہ صاحب ثروت گھرانوں میں آٹھ سال کے بچوں کو ذاتی سمارٹ فون الاٹ کر دیا جاتا ہے اور وہ پڑھائی کرنے کی بجائے گھنٹوں گھنٹوں باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اب اتنی سی عمر میں کیا باتیں ہو سکتی ہیں کیا معلوم؟۔ جب کوئی دوست احباب یا ہمسایہ شکایت کر دے کہ اتنے سے بچے کے ہاتھ میں موبائل دینے کی کیا ضرورت ہے تو ان طنزیہ جملوں کی پاداش میں لڑکوں سے موبائل ہی چھین لیا جاتا ہے۔

بہتر تو یہ ہے کہ بچے کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کا طریق کار بتایا جائے، سوشل میڈیا اخلاقیات سے روشناس کروایا جائے۔ موبائل سکرین ٹائم مقرر کر دیا جائے۔ ذرا زرا سی بات پر قدغن لگانا کہاں کی دانشمندی ہے؟۔

حالات کا تقاضا ہے کہ پڑھائی کےساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے لڑکوں کی ٹریننگ اس نہج کی ہو کہ لڑکے کم عمری میں ہی تجارت کے معاملات سے روشناس ہوں۔

علاوہ ازیں اگر بچے سوشل پلیٹ فارم سے کمانے کا میلان رکھتے ہیں تو اس پر بھی ان کو سکھایا جائے کہ یہ والا بہترین ٹریک ہے یا پرخطر یا یہ وی لاگ کرنے سے نقصان یا بدنامی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ ٹین ایج لڑکے فالورز حاصل کرنے کے چکر میں کم عمری میں بندوق سے ایکٹنگ کرتے کرتے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں یا عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔

دراصل المیہ ہے کہ ہمارے بدترین سیاسی حالات نے ملک و قوم کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

نہ کوئی امنگ ہے اور نہ ہی کوئی تحریک۔ جو نوجوانوں کو بہترین مستقبل کی جانب گامزن رکھے۔ اس لیے یوتھ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کا راستہ ان کے لیے انتہائی سہل ہے۔ لیکن اس کے استعمال سے متعلق والدین کوئی آگاہی ہی نہیں دیتے۔

کم عمر لڑکوں کو لگثری گاڑیاں دینا ماورائے عقل ہے۔ جب وہ تیز رفتاری سے کسی کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیتے ہیں تب ہوش کے ناخن لیے جاتے ہیں۔

ذرا سوچیے کہ اس بچے کا مستقبل کیا ہو گا جس کی چڑھتی جوانی ہی سلاخوں کے سائے سے داغ دار کر دی ہو۔ پچھتانے سے بہتر ہے کہ کم عمری میں لڑکوں کو گاڑیاں قطعاً نہ دی جائیں۔ نیز ڈیجیٹل ڈیوائسز بھی بلاضرورت نہ تھمائی جائیں کیونکہ قبل از وقت ایسی اشیاءتھمانا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آپ کا بچہ ایک مشق نہیں جسے آپ جلدی جلدی نمٹا دیں۔

تربیت ایک ٹائم اور توجہ مانگتی ہے۔ لہذا اپنے لڑکوں پر نگاہ رکھیے، باخبر رہیے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں بلکہ لنکا ڈھانے کے مترادف ہے تو پھر ہو سکتا ہے کہ لڑکوں کی ٹریننگ کے فقدان کے سبب خدانخواستہ اگلی خبر آپ کا تعاقب کر رہی ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سوشل میڈیا کی تربیت اس لیے کے لیے

پڑھیں:

  214 افسران کی سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر، لاہور ہائیکورٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب کو طلب کر لیا

لاہور ہائیکورٹ نے 214 سرکاری افسران کی سوشل میڈیا میں ذاتی تشہیر کے معاملے پر پنجاب حکومت سے وضاحت طلب کرلی ہے۔

بیوروکریٹس اور پولیس افسران کے سوشل میڈیا کے استعمال کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

جسٹس احمد ندیم ارشد نے ہریرہ ضیا ڈار کی درخواست پر سماعت کی، جس میں درخواست گزار کی جانب سے بیرسٹر وقاص شاہد تارڑ پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے سندھ ہائیکورٹ کا ججز اور عدالتی عملے کے لیے سوشل میڈیا ضابطہ اخلاق جاری

عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو آئندہ سماعت پر رپورٹ سمیت طلب کر لیا جبکہ کیبنٹ ڈویژن سے بھی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ پنجاب حکومت کو بھی تحریری وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ پنجاب کے 214 بیوروکریٹس اور پولیس افسران سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے لاہور ہائیکورٹ: سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر کا معاملہ، چیف سیکریٹری پنجاب طلب

یہ افسران سوشل میڈیا کے ذریعے ذاتی تشہیر کرتے ہیں۔ عدالت پولیس اور بیوروکریٹس پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کرے۔

مزید بتایا گیا کہ 214 افسران کی فہرست بھی پٹیشن کے ساتھ منسلک کی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پنجاب حکومت سرکاری افسران سوشل میڈیا کا استعمال

متعلقہ مضامین

  •   214 افسران کی سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر، لاہور ہائیکورٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب کو طلب کر لیا
  • سوشل میڈیا اسٹار عمر شاہ کے آخری لمحات کیسے تھے؟ چچا کا ویڈیو بیان وائرل
  • سکولز میں بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد منظور
  • بیوروکریٹس اور پولیس افسران کے سوشل میڈیا کے استعمال کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
  • این سی سی آئی اے کی جیل میں تفتیش، سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق سوالات پر عمران خان مشتعل ہوگئے
  • این سی سی آئی اے کی عمران خان سے جیل میں تفتیش: سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق سوال پر جذباتی ردعمل
  • عمران خان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ استعمال کرنے والے کا نام بتانے سے انکار
  • اداکارہ کا طلاق کے بعد فوٹو شوٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • کرینہ کپور کی ہم شکل؟ سارہ عمیر کے بیان پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
  • سوشل میڈیا کی ہوس اور ڈالرز کی لالچ، بچوں نے باپ کے آخری لمحات کا وی لاگ بنادیا