Express News:
2025-06-09@13:19:31 GMT

تپن بوس امن کا پیامبر اور انسانیت کا علمبردار

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

جب بھی دو ملکوں کے تعلقات کی بات کی جاتی ہے تو بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ایک سنگین موضوع کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سیاست اورکئی دیگر عوامل نے ان تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، مگر ایسے میں کچھ شخصیات اُبھرتی ہیں جو اس پیچیدہ صورتِ حال کو ایک نیا زاویہ دیتی ہیں اور ان میں ایک اہم نام تپن بوس کا تھا۔

یہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے نہ صرف بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی تھی بلکہ امن انسانیت اور حقوقِ انسانی کے حوالے سے ایک روشن پیغام بھی دیا تھا۔ میری چند ملاقاتیں تپن بوس سے ہوئیں اور ان ملاقاتوں کے دوران جو گفتگو اور خیالات ان سے سننے کو ملے وہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔

تپن بوس کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کے پیغام کو ایک سنجیدہ مشن کے طور پر لے کر چل رہے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی تو نہ صرف جنوبی ایشیا کا منظر بدل جاتا بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی امن کے نئے امکانات روشن ہوتے۔ تپن بوس نے ہمیشہ کہا تھا کہ دونوں ملکوں کی محبت اور نفرتوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ممکن ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عوامی سطح پر بات چیت اور مکالمہ شروع ہو۔

جب میں پہلی بار تپن بوس سے ملی تو ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی۔ وہ نہ صرف ایک مہذب اور ذہین شخص تھے بلکہ ان میں ایک گہری محبت اور امن کا پیغام بھی تھا۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ اس بات کی جھلک تھی کہ ایک دن بھارت اور پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف سمجھیں گے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ گزرے وقتوں کی غلط فہمیاں بھی دورکر پائیں گے۔

اس ملاقات میں تپن بوس نے مجھے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ تحفے کے طور پر دیا تھا۔ ان کتابوں کا نام تھا ’’سیج سیریز: ہیومن رائٹس آڈٹ آف پیس پروسیسز۔‘‘ یہ کتابیں نہ صرف بھارت اور پاکستان کے امن کی حقیقت کو اجاگرکرتی ہیں بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والے امن معاہدوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو بھی تفصیل سے بیان کرتی ہیں۔

’’سیج سیریز‘‘ کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے میں نے یہ پایا کہ تپن بوس نے نہ صرف ایک فکری لائحہ عمل دیا تھا بلکہ ایک عملی راستہ بھی تجویزکیا تھا جس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کیا جا سکتا تھا۔ ان کی تحریریں اور خیالات ایک نئے افق کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں جہاں سرحدیں صرف جغرافیائی حدود تک محدود ہوں گی اور جہاں دلوں میں محبت اور انسانیت کا راج ہوگا۔

تپن بوس کا یہ یقین تھا کہ اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آئیں تو نہ صرف ان دو ممالک کی ترقی کی راہیں کھلیں گی بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں استحکام آئے گا۔ ان کے نزدیک بھارت اور پاکستان کا رشتہ محض دو ممالک کا تعلق نہیں بلکہ ایک ثقافتی تاریخی اور جغرافیائی رشتہ تھا جو ہزاروں سالوں پر محیط تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کو سمجھیں ان کے درمیان ثقافتی روابط قائم ہوں اور دونوں طرف سے نفرت کی دیواروں کو گرا کر ایک نیا آغازکیا جائے۔

ان ملاقاتوں کے دوران تپن بوس نے کئی بار اس بات پر زور دیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے سب سے اہم چیز عوامی سطح پر گفتگو اور مکالمہ ہے۔ ان کے مطابق حکومتوں اور سیاستدانوں کے درمیان اختلافات کو کم کرنا اور عوامی سطح پر تعاون بڑھانا ہی وہ راستہ تھا جس سے امن کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ یہ خیال کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کتاب میں نہ صرف امن کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ انسانی حقوق کی پاسداری پر بھی زور دیا۔

’’سیج سیریز ہیومن رائٹس آڈٹ آف پیس پروسیسز‘‘ کی کتابوں میں تپن بوس نے عالمی سطح پر امن کی کوششوں کا جائزہ لیا تھا اور ان کے نتائج کا تجزیہ کیا تھا۔ ان کے مطابق امن کے عمل میں انسانی حقوق کا تحفظ ایک لازمی جزو ہونا چاہیے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک کسی معاہدے یا عمل میں عوامی حقوق کی پاسداری نہیں کی جائے گی تب تک وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ان کی تحریریں اس بات کا پختہ ثبوت تھیں کہ وہ نہ صرف امن کے حامی تھے بلکہ تپن بوس ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ عالمی سطح پر ہونے والی جنگوں اور تنازعات کی جڑیں بیشتر اوقات اس بات میں ہوتی ہیں کہ مختلف ممالک کے درمیان تعاون اور سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے اختلافات کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو دنیا کے دوسرے خطے بھی ان کی پیروی کر سکتے تھے اور یہ عالمی امن کی جانب ایک اہم قدم ہوتا۔

 تپن بوس کے نظریات اور خیالات نہ صرف بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کی جانب ایک سنگ میل ثابت ہو سکتے تھے بلکہ عالمی سطح پر بھی امن محبت اور انسانیت کے اصولوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔ ان کی کتابیں ان کا کام اور ان کا پیغام آج بھی اس بات کا غماز ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو نہ صرف عالمی امن کے لیے کام کر رہے تھے بلکہ انسانیت کے لیے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھتے تھے۔

تپن بوس کا رخصت ہونا بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی کمی نہ صرف محسوس کی جائے گی بلکہ اس خلا کو پر کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم ان کا پیغام ان کے خیالات اور ان کی کتابیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ وہ امن کے علمبردار تھے اور ان کی جدوجہد کی روشنی ہمیشہ ہمارے راستوں کو منورکرتی رہے گی۔

میرے پاس تپن بوس کی کتابوں کا یہ مجموعہ آج بھی موجود ہے اور جب میں ان کی کتاب کے صفحات کو پلٹتی ہوں، مجھے یہ یاد آتا ہے کہ ایک دن بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں وہ مثبت تبدیلی آئے گی جس کا تپن بوس نے خواب دیکھا تھا۔ ان کی باتیں ان کی تحریریں اور ان کی ملاقاتیں ہمیشہ میری یادوں کا حصہ رہیں گی اور میں یہ یقین رکھتی ہوں کہ اگر دونوں ممالک نے ان کی سوچ اور پیغام کو سمجھا تو ہندوستان اور پاکستان ایک مختلف مقام پہ کھڑے ہوں گے جہاں امن ہوگا اور ہمارا آنے والا کل تابناک ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھارت اور پاکستان کے تعلقات ممالک کے درمیان دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے اور انسانی تعلقات میں محبت اور دیا تھا تھا کہ اس بات اور ان امن کے امن کی کہ ایک

پڑھیں:

 تین جڑواں سعودی بھائیوں نے حاجیوں کی خدمت کرکے دل جیت لئے

مکہ مکرمہ: حج 2025 کے دوران سعودی عرب کی اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام عوامی خدمت کیمپوں میں ایک دلچسپ اور نایاب منظر دیکھنے کو ملا: تین جڑواں بھائیوں کے جوڑوں نے حاجیوں کی خدمت کے لیے ایک ساتھ شرکت کی۔

یہ چھ نوجوان رضاکار ریاض کے الربیع محلے میں موجود سِول ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں شامل جڑواں بھائیوں کے نام درج ذیل ہیں: حسام اور عصام سعید القَرنی، عزام اور عمار سلیمان السلیمان، اور ولید اور مہند عبدالکریم العتیبی۔

یہ جڑواں صرف شکل و صورت میں ہی نہیں بلکہ جذبے، خدمت، اور اسکاؤٹنگ سے محبت میں بھی ایک جیسے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسکاؤٹنگ ان کے لیے ایک وقتی مشغلہ نہیں بلکہ ایک مستقل طرزِ زندگی ہے، جو بچپن ہی سے ان کا مشن بن چکا ہے۔

حسام اور عصام کا کہنا تھا: "ہمیں بچپن سے اپنے وطن سے محبت سکھائی گئی، اور اسکاؤٹنگ کے ذریعے ہمیں حاجیوں کی خدمت کا موقع ملا، جہاں ہم رہنمائی، ابتدائی طبی امداد، اور دیگر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ہر لمحہ ہمیں صبر، ہمدردی اور نظم و ضبط سکھاتا ہے۔"

عزام اور عمار نے کہا: "ہم سمجھتے تھے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں، مگر حج کی خدمت کے دوران جو دباؤ اور ٹیم ورک ہم نے سیکھا، اس نے ہمارے تعلق میں مزید گہرائی پیدا کی۔"

ولید اور مہند العتیبی نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ تجربہ زندگی بدل دینے والا ہے۔ ہم صرف خدمت نہیں کر رہے بلکہ سیکھ رہے ہیں کہ بھیڑ میں پُرسکون کیسے رہنا ہے، بغیر تعریف کے کام کیسے کرنا ہے، اور اسکاؤٹنگ ایک مکمل تربیتی میدان کیسے ہے۔"

یہ جڑواں بھائی نہ صرف حاجیوں کی خدمت میں مثالی کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ ایک مثبت قومی اور دینی پیغام بھی دنیا کو دے رہے ہیں۔


 

متعلقہ مضامین

  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • حضرت ابراہیم (ع) رہتی دنیا تک انسانیت کے امام، رہبر اور رہنما رہینگے، علامہ مقصود ڈومکی
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  •  تین جڑواں سعودی بھائیوں نے حاجیوں کی خدمت کرکے دل جیت لئے
  • علی ظفر کی بیدری سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • عید الاضحی کا اہم پیغام
  • ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، علامہ بشارت زاہدی 
  • ریل رابطہ خوش آئند مگر انسانیت پر مبنی اقدام اصل راستہ ہے، میرواعظ کشمیر
  •   پاکستان نے انسانیت اور کشمیریت پر حملہ کیا،شکست خوردہ مودی کی ہٹ دھرمی