تپن بوس امن کا پیامبر اور انسانیت کا علمبردار
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
جب بھی دو ملکوں کے تعلقات کی بات کی جاتی ہے تو بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ایک سنگین موضوع کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سیاست اورکئی دیگر عوامل نے ان تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، مگر ایسے میں کچھ شخصیات اُبھرتی ہیں جو اس پیچیدہ صورتِ حال کو ایک نیا زاویہ دیتی ہیں اور ان میں ایک اہم نام تپن بوس کا تھا۔
یہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے نہ صرف بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی تھی بلکہ امن انسانیت اور حقوقِ انسانی کے حوالے سے ایک روشن پیغام بھی دیا تھا۔ میری چند ملاقاتیں تپن بوس سے ہوئیں اور ان ملاقاتوں کے دوران جو گفتگو اور خیالات ان سے سننے کو ملے وہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔
تپن بوس کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کے پیغام کو ایک سنجیدہ مشن کے طور پر لے کر چل رہے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی تو نہ صرف جنوبی ایشیا کا منظر بدل جاتا بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی امن کے نئے امکانات روشن ہوتے۔ تپن بوس نے ہمیشہ کہا تھا کہ دونوں ملکوں کی محبت اور نفرتوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ممکن ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عوامی سطح پر بات چیت اور مکالمہ شروع ہو۔
جب میں پہلی بار تپن بوس سے ملی تو ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی۔ وہ نہ صرف ایک مہذب اور ذہین شخص تھے بلکہ ان میں ایک گہری محبت اور امن کا پیغام بھی تھا۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ اس بات کی جھلک تھی کہ ایک دن بھارت اور پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف سمجھیں گے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ گزرے وقتوں کی غلط فہمیاں بھی دورکر پائیں گے۔
اس ملاقات میں تپن بوس نے مجھے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ تحفے کے طور پر دیا تھا۔ ان کتابوں کا نام تھا ’’سیج سیریز: ہیومن رائٹس آڈٹ آف پیس پروسیسز۔‘‘ یہ کتابیں نہ صرف بھارت اور پاکستان کے امن کی حقیقت کو اجاگرکرتی ہیں بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والے امن معاہدوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو بھی تفصیل سے بیان کرتی ہیں۔
’’سیج سیریز‘‘ کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے میں نے یہ پایا کہ تپن بوس نے نہ صرف ایک فکری لائحہ عمل دیا تھا بلکہ ایک عملی راستہ بھی تجویزکیا تھا جس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کیا جا سکتا تھا۔ ان کی تحریریں اور خیالات ایک نئے افق کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں جہاں سرحدیں صرف جغرافیائی حدود تک محدود ہوں گی اور جہاں دلوں میں محبت اور انسانیت کا راج ہوگا۔
تپن بوس کا یہ یقین تھا کہ اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آئیں تو نہ صرف ان دو ممالک کی ترقی کی راہیں کھلیں گی بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں استحکام آئے گا۔ ان کے نزدیک بھارت اور پاکستان کا رشتہ محض دو ممالک کا تعلق نہیں بلکہ ایک ثقافتی تاریخی اور جغرافیائی رشتہ تھا جو ہزاروں سالوں پر محیط تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کو سمجھیں ان کے درمیان ثقافتی روابط قائم ہوں اور دونوں طرف سے نفرت کی دیواروں کو گرا کر ایک نیا آغازکیا جائے۔
ان ملاقاتوں کے دوران تپن بوس نے کئی بار اس بات پر زور دیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے سب سے اہم چیز عوامی سطح پر گفتگو اور مکالمہ ہے۔ ان کے مطابق حکومتوں اور سیاستدانوں کے درمیان اختلافات کو کم کرنا اور عوامی سطح پر تعاون بڑھانا ہی وہ راستہ تھا جس سے امن کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ یہ خیال کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کتاب میں نہ صرف امن کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ انسانی حقوق کی پاسداری پر بھی زور دیا۔
’’سیج سیریز ہیومن رائٹس آڈٹ آف پیس پروسیسز‘‘ کی کتابوں میں تپن بوس نے عالمی سطح پر امن کی کوششوں کا جائزہ لیا تھا اور ان کے نتائج کا تجزیہ کیا تھا۔ ان کے مطابق امن کے عمل میں انسانی حقوق کا تحفظ ایک لازمی جزو ہونا چاہیے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک کسی معاہدے یا عمل میں عوامی حقوق کی پاسداری نہیں کی جائے گی تب تک وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ان کی تحریریں اس بات کا پختہ ثبوت تھیں کہ وہ نہ صرف امن کے حامی تھے بلکہ تپن بوس ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ عالمی سطح پر ہونے والی جنگوں اور تنازعات کی جڑیں بیشتر اوقات اس بات میں ہوتی ہیں کہ مختلف ممالک کے درمیان تعاون اور سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے اختلافات کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو دنیا کے دوسرے خطے بھی ان کی پیروی کر سکتے تھے اور یہ عالمی امن کی جانب ایک اہم قدم ہوتا۔
تپن بوس کے نظریات اور خیالات نہ صرف بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کی جانب ایک سنگ میل ثابت ہو سکتے تھے بلکہ عالمی سطح پر بھی امن محبت اور انسانیت کے اصولوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔ ان کی کتابیں ان کا کام اور ان کا پیغام آج بھی اس بات کا غماز ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو نہ صرف عالمی امن کے لیے کام کر رہے تھے بلکہ انسانیت کے لیے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھتے تھے۔
تپن بوس کا رخصت ہونا بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی کمی نہ صرف محسوس کی جائے گی بلکہ اس خلا کو پر کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم ان کا پیغام ان کے خیالات اور ان کی کتابیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ وہ امن کے علمبردار تھے اور ان کی جدوجہد کی روشنی ہمیشہ ہمارے راستوں کو منورکرتی رہے گی۔
میرے پاس تپن بوس کی کتابوں کا یہ مجموعہ آج بھی موجود ہے اور جب میں ان کی کتاب کے صفحات کو پلٹتی ہوں، مجھے یہ یاد آتا ہے کہ ایک دن بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں وہ مثبت تبدیلی آئے گی جس کا تپن بوس نے خواب دیکھا تھا۔ ان کی باتیں ان کی تحریریں اور ان کی ملاقاتیں ہمیشہ میری یادوں کا حصہ رہیں گی اور میں یہ یقین رکھتی ہوں کہ اگر دونوں ممالک نے ان کی سوچ اور پیغام کو سمجھا تو ہندوستان اور پاکستان ایک مختلف مقام پہ کھڑے ہوں گے جہاں امن ہوگا اور ہمارا آنے والا کل تابناک ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارت اور پاکستان کے تعلقات ممالک کے درمیان دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے اور انسانی تعلقات میں محبت اور دیا تھا تھا کہ اس بات اور ان امن کے امن کی کہ ایک
پڑھیں:
میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔
ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔