Nai Baat:
2025-07-26@14:24:09 GMT

واپسی کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

واپسی کا سفر

سکینہ سردی سے کانپ رہی تھی ۔سر کو کمبل سے ڈھانپنے کی کوشش کرتی تو پاؤں ننگے ہو جاتے ۔پاؤں سردی سے بچانے کی کوشش میںسر سے کمبل ہٹ جاتا۔چھوٹا بھائی اس کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔سکینہ نے بھائی کو کمبل سے ڈھانپ دیا ۔نصیرات کیمپ کے چھوٹے سے خیمے میں سکینہ اپنی بہن اوربھائیوںکے ساتھ پناہ گزیں تھی۔سردی اور بھوک سے اس کا برا حال تھا۔آسمان بادلوں سے چھپا ہوا تھا ‘یخ بستہ ہواؤں اور بارش نے سردی کی شدت میں اضافہ کر دیا تھا۔بارش کا پانی خیمے کے اندر آ چکا تھا۔پناہ گزیں کیمپ میں آج کھانے کے کئی ٹرک آئے تھے ۔اس کے بڑے بھائی عبد اللہ لوہے کی ایک ٹوٹی ہوئی دیگچی میںکھانالینے گئے تھے۔یہ دیگچی انہیں اپنے گھر کے ملبے سے ملی تھی۔ملبے سے اسے اپنے چھوٹے بھائی کا ایک ٹوٹا ہواکھلونا او ر بہن کی گڑیا بھی ملی تھی جس کے دو بازو ٹوٹ گئے تھے ۔گڑیاکو وہ اپنے ساتھ کیمپ میں لے آئے تھے۔ سکینہ کے چھوٹے بہن بھائی دن میں کیمپ میں ان ٹوٹے پھوٹے کھلونوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔غزہ پر صیہونی فوج کی وحشیانہ بمباری سے اس کے والدین اور خاندان کے کئی افرادشہید ہو گئے تھے۔کفن میں لپٹے ہوئے ان شہدا کے چہروں کی مسکراہٹ وہ کبھی نہیں بھول سکی تھی ۔دو گھنٹے کے بعد عبداللہ کھانا لے کر خیمے میں پہنچے۔عبداللہ نے سکینہ کو کھانے کی دیگچی دیتے ہوئے جنگ بندی کی خوشخبری سنائی اور کہا کہ اب انشا اللہ ہم واپس چلیں گے اور گھر کے ملبے کے باہر خیمہ لگا کر رہیں گے۔کھانا کھا کر انہوں نے اپنی چند چیزیں سمیٹیں۔سکینہ نے چھوٹے بھائی کو گود میں اٹھایا اورعبد اللہ کی رہنمائی میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔کیمپ میں پناہ گزیں اہلیان غزہ اپنے گھروں کو واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے ‘ان کے گھر ان کی منزل تھے۔ پہلے روزہزاروں فلسطینی غزہ کے شمالی علاقے کی طرف جانے کے انتظار میں نصیریت میں جمع ہو گئے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد صیہونی فوج کی جانب سے غزہ کے باشندوں کو نقل مکانی کرنے کا حکم تو دے دیا گیا تھالیکن صیہونی فوج نے اسلام اور مسلمان دشمنی کا روایتی مظاہرہ کیا۔ حماس پر جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر فلسطینیوں کو شمالی غزہ واپس جانے سے روک دیا گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کے اعلامیے میں کہاگیا کہ ایک نئے معاہدے پر پہنچنے کے بعد فلسطینیوں کو گزرنے کی اجازت دی جائے گی۔ حماس نے اہل غزہ کی واپسی روکنے کو جنگ بندی کی خلاف ورزی اور اہل غزہ کی واپسی کو فلسطینیوں کی فتح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کی واپسی اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے منصوبوں کی ناکامی اور شکست ہے ۔

اسرائیل کی جانب سے کراسنگ پوائنٹس اور نتساریم راہداری کھولنے کے بعد فلسطینیوں نے غزہ کے شمال کی طرف واپسی شروع کر دی۔ کراسنگ پوائنٹس کھلنے کی خبریں ملتے ہی بے گھر خاندانوں نے پناہ گاہوں اور کیمپوں میں خوشی سے نعرے لگائے ۔غزہ کی حماس حکومت کے مطابق پہلے دن تین لاکھ سے زائد بے گھر افراد اپنے علاقے میںواپس آئے۔مسلمانوں کے قبلہ اوّل بیت المقدس کی پاک سر زمین ان کی ہے جہاں وہ نسلوں سے رہ رہے ہیں۔غزہ شہر میں ایک منہدم عمارت کے سامنے کچی سڑک کے اوپر انہیں خوش آمدید کہنے کے لیئے ایک بینر آویزاں کیا گیا تھا جس پر’ ’غزہ میں خوش آمدید‘‘ لکھا ہوا تھا۔اپنے علاقے میں پہنچنے کے بعد مردوں نے فرط جذبات سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔اپنوں کے بچھڑنے کا غم اورواپسی کی خوشی کے ملے جلے جذبات ان کے چہروں سے عیاں تھے۔انہوں نے اپنے تباہ حال گھر کے باہر جائے نماز بچھا کر شکرانے کے نوافل ادا کئے ۔طویل مدت کے بعد واپس آنے والوں کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر تباہ ہو گئے ہیں اس کے باوجود یہ ہماری زندگی کا سب سے خوشی کا دن ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے ہماری روح اور زندگی لوٹ آئی ہے ۔اپنے پیاروں کو کھو دینے‘عزیزوں کے زخمی ہونے کے علاوہ گھر بار‘مال و متاع سے محروم یہ باہمت اور بہادرمسلمان ملبے کے ڈھیروں کو پھر سے مسکن بنانے کے لئے پر امید نظر آ رہے ہیں۔

غزہ کے فلسطینیوںکے خلاف اسرائیل کی جنگ کے ابتدائی دنوں سے غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے فلسطینی شہریوں کے لیئے بند تھے ۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد لاکھوں بے گھر فلسطینی اسرائیلی ٹینکوں کی زیرنگرانی تباہ حال غزہ کے شمال کی طرف لوٹ رہے ہیں۔تقریباً چھ لاکھ فلسطینی جنوبی غزہ سے شمالی غزہ کی جانب واپس جا چکے ہیں۔اپنے گھروں کو واپس لوٹنے والوں کے پاس کوئی کار‘ رکشہ‘گدھا گاڑی یا کوئی اور سواری نہیں ہے۔ کچھ لوگ ضروری سامان سے بھرے ہوئے ریڑھے کھینچتے نظر آتے ہیں جبکہ بیشتر اپناسامان اٹھائے ہوئے چل رہے ہیں۔انہیں ساحلی شاہراہ پر بیس کلو میٹر سے زائد فاصلہ پیدل طے کرنا پڑ رہا ہے ۔اپنے گھروں کو واپس جانے والے جانتے ہیں کہ ان کے پاس اب اپنی کوئی چھت نہیں رہی‘ ان کے گھرملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ وہاں ان کے پیارے ہیں اور نہ ہی زندگی گزارنے کے لئے اشیائے ضرورت اور سازو سامان ہے۔اپنی زمین سے محبت اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ واپس جا کر اپنے گھروں کے پاس خیمے لگا کر رہ رہے ہیں۔ اپنی زمین پہنچ کر وہ شکرانے کے نوافل ادا کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گھر دوبارہ تعمیر کریں گے خواہ ریت اور گارے سے کیوں نہ کرنے پڑیں ۔ہم اپنی سر زمین مرتے دم تک نہیں چھوڑیں گے۔

غزہ پراسرائیل کے فضائی اور زمینی عسکری حملے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔غزہ کی چوبیس لاکھ آبادی میں سے سینتالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہیدو زخمی اورآبادی کا بہت بڑا حصہ بے گھر ہو چکاہے۔ بہت سے لوگ اپنے گھروں کے ملبے میں پناہ کے لیئے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں اور کئی اپنے کھو جانے والے رشتے داروں کو تلاش کر رہے ہیں۔غزہ جو کبھی ایک پر رونق اور ہنگامہ خیزشہر ی مرکزتھاتباہ شدہ ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غزہ کی تعمیر نو اس وقت سب سے اہم انسانی اور بین الاقوامی معاملہ ہے ۔جس میں تجارتی سامان کی ترسیل،بینکوں کی بحالی، بے گھر لوگوں کی عارضی رہائش کا انتظام ،گھروں،ہسپتالوں اور دیگر عمارتوں سمیت پورے بنیادی ڈھانچے کی تعمیرنو،اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروریات زندگی شامل ہیں۔تعمیر نو کے لیے عالم اسلام اور پوری دنیاکے تعاون کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ضروریات زندگی محدود کر کے اپنے بھائی بہنوں کے کھلے دل سے مدد کریں۔اسرائیلی حکومت غزہ کی تعمیر نو میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مسلم امہ اور عالمی طاقتیں اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ غزہ کے لیے ضروری سامان زندگی اور عارضی رہائش گاہوں کی فوری فراہمی میں حائل کی جانے والی رکاوٹیں ختم کرے تا کہ غزہ کے بے سروسامان اور کھلے آسمان تلے موسم کی سختیاں برداشت کرنے والے لاکھوں شہریوں کی زندگی کا از سر نو آغاز اورسکولوں ہسپتالوں سمیت رہائشی ٹاورز کی تعمیر شروع ہو سکے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اپنے گھروں کیمپ میں اپنے گھر کی تعمیر رہے ہیں کے بعد کی طرف غزہ کے غزہ کی بے گھر

پڑھیں:

وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس آنے والے متعدد افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں حکام کی جانب سے تشدد، بدسلوکی اور ناجائز حراستوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور 'او ایچ سی ایچ آر' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپس آںے والے افغانوں میں خواتین، لڑکیوں، سابق حکومت اور اس کی فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں، ذرائع ابلاغ کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ کسی مہاجر یا پناہ گزین کو ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ماضی کی بنا پر مظالم کا خدشہ ہو۔

(جاری ہے)

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں محض صنفی بنیاد پر ہی ان کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔خفیہ زندگی، تشدد اور مظالم

رپورٹ میں گزشتہ سال واپس آنے والے 49 لوگوں سے کی گئی بات چیت کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ان میں شامل سابق حکومت اور فوج کے اہلکار افغانستان میں انتقامی کارروائی کے خوف سے خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ طالبان حکام نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں ان کے خلاف لڑنے والوں کو عام معافی دی جائے گی۔

اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آںے کے بعد ملک چھوڑ دینے والی ٹیلی ویژن کی ایک سابق رپورٹر نے بتایا کہ ملک میں واپسی کے بعد انہیں اور دیگر خواتین کو نہ تو روزگار کے مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی انہیں تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی ہے۔ ان حالات میں وہ خود کو گھر میں نظربند محسوس کرتی ہیں۔

ایک سابق سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ 2023 میں افغانستان واپس آںے کے بعد انہیں دو راتوں تک ایک گھر میں بند کر کے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس دوران طالبان حکام نے انہیں ڈنڈوں اور تاروں سے مارا پیٹا، پانی میں غوطے دیے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر بناوٹی طور پر پھانسی دی۔ اس تشدد کے نتیجے میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ملک بدری سے گریز کا مطالبہ

پناہ گزینوں کو ایسے ملک میں واپس بھیجنا بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے جہاں انہیں مظالم، تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا، جبری گمشدگی یا دیگر ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ ہو۔

رپورٹ میں رکن ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم کسی افغان فرد کو اس کے ملک میں واپس بھیجنے سے قبل یہ جائزہ ضرور لیں کہ کہیں اسے واپسی پر اپنے حقوق کی پامالی کا خدشہ تو نہیں۔ جن لوگوں کو ایسا خطرہ لاحق ہو انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں، رکن ممالک خطرات سے دوچار افغانوں کو ملک چھوڑنے اور اپنے ہاں گرفتاری یا ملک بدری کے خوف سے بے نیاز ہو کر رہنے کے لیے محفوظ راستے مہیا کریں۔

2023 سے اب تک لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں جس کے باعث افغانستان میں محدود وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں رکن ممالک سے افغانوں کے لیے امدادی مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

امدادی وسائل کی ضرورت

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ اگرچہ افغان حکام نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں واپس آنے والوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سبھی لوگوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں تمام افغانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اور افغان لوگوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ساڑھے 3 ارب کی کرپشن کے بدلے تقریبا ڈیڑھ ارب واپسی، کوہستان کرپشن اسکینڈل میں نیب نے بڑی پلی بارگین منظور کر لی
  • دورہ ویسٹ انڈیز کیلیے قومی ٹیم کا اعلان، رضوان کپتان، بابر اور شاہین کی بھی واپسی
  • امریکی ایلچی نے جنگ بندی معاہدہ ناکام ہونے کا ذمہ دارحماس کو قرار دیدیا
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بُلالیے
  • امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بلالیے
  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
  • امریکا جانے والے غیر ملکیوں پر 250 ڈالر کی اضافی ویزا فیس عائد
  • امریکا آنیوالے تمام غیر ملکیوں کو اب 250 ڈالرز اضافی ویزا فیس دینا ہوگی
  • ماحول دوست توانائی کی طرف سفر سے واپسی ناممکن، یو این چیف