پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور انتقال کر گئے،صدر،وزیر اعظم ، بلاول بھٹو ودیگر کا اظہار افسوس
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور انتقال کر گئے،صدرمملکت آصف علی زرداری،وزیراعظم شہبازشریف ،چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری ودیگر رہنمائوں نے یوسف تالپور کے انتقال پر اظہار افسوس کیا ہے ۔اہلخانہ کے مطابق نواب یوسف تالپور کافی عرصہ سے علیل تھے،وہ مسلسل 6 بار عمرکوٹ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے سابق وزیر و سینئر سیاستدان نواب محمد یوسف تالپور کے انتقال پر اظہار افسوس کیا ہے ۔ صدر مملکت نے مرحوم نواب یوسف تالپور کی سیاسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ، صدر مملکت نے مرحوم نواب یوسف تالپور کے ورثا کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ، صدر مملکت نے سو مرحوم کیلئے دعائے مغفرت، اہل خانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا کی ہے ۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے نواب یوسف تالپر کے انتقال پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواب یوسف تالپر کے انتقال کی خبر میرے لئے باعثِ صدمہ ہے۔ نواب یوسف تالپور پیپلز پارٹی کا اثاثہ تھے۔انہوں نے کہا کہ نواب یوسف تالپور نے ایم آر ڈی کے دوران بہادری سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دوسری جانب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی غلام مصطفی شاہ نے نواب یوسف تالپور کے انتقال پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور ایک تجربہ کار، مدبر اور دور اندیش سیاستدان تھے۔سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے نواب یوسف تالپور کے انتقال پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ نواب یوسف تالپور کی وفات پیپلز پارٹی اور جمہوری سیاست کے لئے بڑا نقصان ہے۔ صوبائی وزیرایکسائز مکیش کمار چاولہ نے پی پی پی رہنما، سینئر سیاستدان ایم این اے نواب یوسف تالپور کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا،انہوں نے نواب یوسف تالپور کے فرزند نواب تیمور تالپور و دیگر لواحقین سمیت سوگوار کارکنان سے اظہار تعزیت کیا۔مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ نواب یوسف تالپور کا انتقال پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں،نواب یوسف تالپور ایک زیرک سیاستدان اور کئی مرتبہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ نواب یوسف تالپور کی پارٹی و عوامی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،اللہ نواب یوسف تالپور کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر دے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: نواب یوسف تالپور کے رکن قومی اسمبلی پیپلز پارٹی کے کہ نواب یوسف صدر مملکت کہا کہ
پڑھیں:
حکومت کینال منصوبے پر کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے، وفاقی وزیر قانون
سینیٹ کے اجلاس میں چولستان کینال منصوبے پر مسابقتی قراردادوں پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے مابین کشیدگی، گرما گرم بحث اور واک آؤٹ دیکھنے میں آیا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان بالا کو آگاہ کیا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے یقین دلایا کہ چولستان کینال اسکیم کے لیے پانی کی منتقلی سے متعلق خدشات کو آئینی طور پر اور سندھ حکومت کی مشاورت سے حل کیا جائے گا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں وفاقی حکومت پہلے ہی اتحادی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے ساتھ اس معاملے کو اٹھا چکی ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کابینہ کے سینئر رکن اور مشیر رانا ثنا اللہ نے سندھ حکومت سے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے رابطہ کیا، اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اس سلسلے میں ’کچھ بھی غلط نہیں کیا جائے گا‘۔
تھرپارکر میں حالیہ ضمنی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی پر طنز کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ سندھ میں مسترد ہونے کے بعد ’بے معنی احتجاج‘ کر رہے ہیں، اس طرح کی سیاست نہ تو ملک اور نہ ہی مقصد کے لیے کام کرتی ہے۔
اجلاس میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا جب پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ میں نہر کے مسئلے پر ان کی جماعت کی قرارداد پر غور کیا جائے، پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے اصرار کیا کہ ان کی پارٹی کی قرارداد پر پہلے غور کیا جائے۔
جب چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے پوائنٹس آف آرڈر کو وقفہ سوالات شروع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، تو پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج کیا، نعرے بازی کی اور حکومت پر الزام لگایا کہ وہ کارپوریٹ فارمنگ اقدام کے لیے چولستان کی جانب پانی موڑ رہی ہے، وہ احتجاجاً چیئرمین کے پوڈیم کے قریب جمع ہوئے۔
یہ جھگڑا اس وقت ذاتی نوعیت اختیار کر گیا جب پی ٹی آئی کے سینیٹر فلک ناز چترالی نے پیپلز پارٹی پر منافقت کا الزام عائد کیا، جس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو ’گھڑی چور‘ قرار دیا، اور اپنی پارٹی قیادت کے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے قلم اور گھڑی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے بھی نہر منصوبے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔
’ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ‘
بعد ازاں جب وزیر قانون تارڑ ایوان سے خطاب کر رہے تھے تو بابر اعوان نے کورم کی نشاندہی کی، لیکن عملے نے تصدیق کی کہ کورم مکمل ہے۔
قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا کہ یہ نئے پارلیمانی سال کا پہلا اجلاس ہے، اور اسے گزشتہ سال کے دوران کی گئی غلطیوں پر خود احتسابی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں پورا نظام مفلوج ہے اور عوام پانی کے مسئلے پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس معاملے پر پیپلز پارٹی کا موقف متضاد اور منافقانہ رہا ہے اور پارٹی قیادت نہر منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرنے والے قانون سازوں کی حمایت نہیں کر رہی۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پارلیمنٹ محض ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گئی ہے، شبلی فراز نے حال ہی میں منظور کیے گئے متعدد قوانین کا حوالہ دیا جن میں 26ویں ترمیم بھی شامل ہے۔
انہوں نے خیبر پختونخوا سے 11 ارکان کی مسلسل غیر حاضری کا ذکر کیا اور متنبہ کیا کہ اگر انتخابات نہ ہوئے تو 2027 تک سینیٹ میں صوبے کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔
انہوں نے جیل میں قید پی ٹی آئی سینیٹرز کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد میں تاخیر اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر بھی تنقید کی، جس میں آئین کے آرٹیکل 59، 60 اور 218 کی خلاف ورزی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم آئین پر عمل کریں، ایک اور کورم کال کی وجہ سے سماعت ملتوی کردی گئی۔ اجلاس جمعہ کو صبح ساڑھے 11 بجے دوبارہ شروع ہوگا۔
قبل ازیں سینیٹ نے پوپ فرانسس کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
پیپلز پارٹی کا سی سی آئی اجلاس بلانے کا مطالبہ
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن نے سندھ اور دیگر صوبوں کو متاثر کرنے والے پانی کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متنازع نہری منصوبوں کے منصوبوں کو روک دے، جس کے بارے میں انہوں نے متنبہ کیا کہ اس سے بین الصوبائی اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 100 سال میں پہلی بار دریائے سندھ میں ریکارڈ کم بہاؤ ہے، جب ملک خشک ہو رہا ہے تو حکومت کو بتانا چاہیے کہ ان نئی نہروں کا پانی کہاں سے آئے گا۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت نے قومی اتفاق رائے کے بغیر دریائے سندھ پر نئی نہر کی تعمیر کی مسلسل مخالفت کی ہے، اور اسے نشیبی علاقوں کے لوگوں کے لیے ’زندگی اور موت‘ کا مسئلہ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت صرف سندھ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک قومی ایمرجنسی ہے جو ہر شہری اور ذریعہ معاش کو متاثر کرتی ہے، پانی کے بغیر ہماری زراعت، مویشی اور معیشت نہیں چل سکتی، ہم پانی کی منصفانہ تقسیم کے اپنے آئینی اور اخلاقی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ عارضی سیاسی تصفیے سے آگے بڑھے اور ادارہ جاتی میکانزم کے ذریعے بنیادی مسئلے کو حل کرے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ مسئلہ سی سی آئی میں حل ہونا چاہیے نہ کہ بیک ڈور مذاکرات کے ذریعے، ہمیں قومی اتحاد کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے اب کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے بدین، ٹھٹہ اور سجاول جیسے قحط زدہ اضلاع میں بگڑتے ہوئے حالات پر روشنی ڈالی اور کسانوں اور مقامی برادریوں میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کے بارے میں متنبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں دیوار سے لگا دیا گیا تو ہم پرامن طور پر لیکن بھرپور مزاحمت کریں گے، پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ عوام کے حقوق کے لیے کس طرح کھڑا ہونا ہے، ہم صرف ایک قسم کی سیاست جانتے ہیں، وہ ہے بنیادی حقوق کا دفاع۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے ارسا کی حالیہ رپورٹوں کی صداقت پر بھی سوال اٹھایا اور پانی کی تقسیم میں شفافیت کے فقدان کو تنقید کا نشانہ بنایا، کسی بھی صوبے کا حصہ یکطرفہ طور پر منتقل نہیں کیا جا سکتا، یہ کوآپریٹو وفاقیت نہیں ہے، یہ ناانصافی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئیے اسے فوری طور پر سنجیدگی اور بات چیت کے ساتھ حل کریں، ڈرامے کے ساتھ نہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ یہی وجہ اور آئین غالب آئے گا۔
Post Views: 1