ٹی بیگز کا استعمال آسان مگر صحت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران چائے کی درآمد میں بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، اس عرصے میں پاکستانی 96 ارب 49 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی چائے پی چکے ہے۔
رواں مالی سال چائے کی درآمد میں 35 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے کیونکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں 71 ارب 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی چائے درآمد کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نون چائے: کشمیریوں کی روایتی نمکین گلابی چائے کیسے تیار ہوتی ہے اور اس کے صحت کے لیے فوائد کیا ہیں ؟
بہت زیادہ چائے پینا تو نقصان دہ ہے ہی، لیکن ان چائے پینے والے افراد میں ایک بڑی تعداد ٹی بیگز کا استعمال کرنے والوں کی ہے، جو ماہرین کے مطابق چائے کو مزید مضر صحت بنا سکتی ہے۔
جدید دور میں ہر فرد آسانیوں کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن اس کے برے اثرات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، ٹی بیگز کا استعمال بھی آسانی کے لیے کیا جاتا ہے، دفتروں میں خاص طور پر ٹی بیگز کی چائے کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
یہ طریقہ نہ صرف وقت بچانے کے لیے اپنایا جاتا ہے بلکہ چائے تیار کرنے میں بھی زیادہ سہولت فراہم کرتا ہے۔
ٹی بیگز انسانی صحت کو کیسے متاثر کرتے ہیں؟ماہر امراض معدہ و جگر ڈاکٹر سارہ بشیر نے ٹی بیگز کے استعمال کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، ان کے مطابق، ٹی بیگز میں استعمال ہونے والا کچھ مواد انسان کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ اکثر ٹی بیگز میں کم معیار کے کاغذ، پلاسٹک اور بلیچنگ ایجنٹس کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ کیمیکلز چائے کی پتی کے ساتھ پانی میں شامل ہو کر انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جو کہ معدے اور جگر جیسے حساس اعضا پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
’ہمارے ہاں ٹی بیگز کے استعمال کا کلچر بہت ہی عام ہو چکا ہے، اب نہ صرف دفتر بلکہ گھروں میں بھی بہت معمول کے مطابق ٹی بیگز کا استعمال عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے، اب تو مختلف قسم کی گرین ٹی بیگز بھی دستیاب ہیں۔‘
مزید پڑھیں: ارشد خان چائے والا نے ایک کروڑ روپے کا آئیڈیا کیسے بیچا؟
ڈاکٹر سارہ کے مطابق ان ٹی بیگز کے مختلف فلیورز مارکیٹ میں موجود ہیں، بچے اور بڑے سب ہی بہت شوق سے ان ٹی بیگز کے قہوے اور چائے پینا پسند کرتے ہیں۔ ’ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض ٹی بیگز میں مائیکروپلاسٹک کے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں۔‘
جب یہ بیگز پانی میں ڈوبتے ہیں، تو یہ مائیکروپلاسٹک انسانی جسم میں جذب ہو کر مختلف اعضا تک پہنچ سکتے ہیں، جس سے طویل المدتی صحت کے مسائل جیسے ہارمونل عدم توازن، کینسر کے خطرات اور دیگر امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ مائیکروپلاسٹک کیمیکلز کا جسم پر اثر دیرینہ ہو سکتا ہے اور ان کا مکمل اثر ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ ان کے استعمال سے صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: رواں برس غذائی اخراجات میں ہونے والے نصف سے زیادہ اضافے کا سبب چائے اور کافی کیوں؟
ڈاکٹر سارہ بشیر کے مطابق بہتر ہے کہ کھلی چائے کا استعمال کیا جائے کیونکہ اس میں کیمیکلز اور پلاسٹک کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے اور یہ زیادہ قدرتی اور محفوظ ہوتی ہے۔
’اگرچہ ٹی بیگز کا فوری طور پر کوئی سنگین اثر نہیں ہوتا مگر ان کے طویل المدتی استعمال سے صحت کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، اس لیے ٹی بیگز کے بجائے کھلی چائے زیادہ بہتر اور صحت مند ترجیح ہے۔‘
ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ سب سے بہتر بات تو یہی ہے کہ چائے کا استعمال کم سے کم کیا جائے، وہ افراد جنہیں چائے پینے کی بہت زیادہ عادت ہے انہیں چاہيے کہ وہ دن میں زیادہ سے زیادہ 2 مرتبہ چائے پیئیں، زیادہ چائے پینے کے نقصانات ایک الگ بحث ہے۔
کیا ٹی بیگز سے مائیکرو پلاسٹک چائےمیں شامل ہوجاتے ہیں؟بارسلونا یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق، مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی ٹی بیگ میں کینسر کا سبب بن سکتی ہے، تجارتی طور پر دستیاب پلاسٹک پولیمر سے بنے ٹی بیگ پر کیے گئے تجربات سے پتا چلا کہ گرم پانی کے ایک قطرے میں پولی پروپیلین سے بنے ٹی بیگ 1.
سیلولوز سے بنے ٹی بیگ 13 کروڑ 50 لاکھ مائیکرو پلاسٹک ذرات خارج کرتے ہیں، جبکہ نائیلون 6 سے بنے ٹی بیگ میں 80 لاکھ سے زائد ذرات پانی میں حل ہو جاتے ہیں، یہ مائیکرو پلاسٹک ذرات گرم پانی میں حل ہو کر ایسے کیمیکلز پیدا کرتے ہیں جو کینسر کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔
اس سے قبل کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کی ایک تحقیق جو جریدے انوائرمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں محققین نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا ٹی بیگز سے پلاسٹک کے ننھے ذرات چائے میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، اور کیا یہ ذرات انسانوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں مقبول چائے کی تاریخ، فوائد اور نقصانات
تحقیق کے دوران محققین نے الیکٹرون مائیکرو اسکوپی کی مدد سے دریافت کیا کہ ایک پلاسٹک ٹی بیگ سے پانی میں 11.6 ارب مائیکرو پلاسٹک اور 3.1 نانو پلاسٹک ذرات شامل ہو جاتے ہیں۔
محققین کے مطابق یہ تعداد دیگر غذائی اشیا میں پلاسٹک ذرات کی موجودگی کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔
ایک اور تجربے میں محققین نے آبی جانداروں، جیسے کہ آبی پسوؤں، کو ٹی بیگز میں موجود مائیکرو اور نانو پلاسٹک کی کچھ مقدار کھانے کو دی، ان جانداروں نے تو بچاؤ کی حالت میں خود کو بچالیا، تاہم ان کی جسمانی ساخت اور رویے میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں، جسے محققین نے فکرمندانہ قرار دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکٹرون مائیکرو اسکوپی انوائرمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بلیچنگ ایجنٹس پلاسٹک تحقیق ٹی بیگ ڈاکٹر سارہ بشیر کینسر گرین ٹی بیگز مائیکرو پلاسٹک میک گل یونیورسٹیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پلاسٹک ٹی بیگ ڈاکٹر سارہ بشیر کینسر گرین ٹی بیگز مائیکرو پلاسٹک ٹی بیگز کا استعمال سے بنے ٹی بیگ ٹی بیگز میں ڈاکٹر سارہ کے استعمال ٹی بیگز کے سکتے ہیں پانی میں کرتے ہیں کے مطابق چائے کی شامل ہو جاتا ہے صحت کے کے لیے
پڑھیں:
خطرے سے دوچار ہمپ بیک وہیل کا بڑا گروہ بلوچستان کے ساحل پر نمودار
معدومیت کے خطرے سے دوچار عرب ہمپ بیک وہیل کا ایک بڑا گروپ گزشتہ رات بلوچستان کے شہر گوادر کے قریب دیکھا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ناخدا امیر داد کریم کی قیادت میں ماہی گیروں کے ایک گروپ نے گوادر کے پہاڑ سے تقریباً 11 ناٹیکل میل جنوب میں سمندری پانیوں میں 6 سے زائد عربی وہیلوں کو مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت کرتے ہوئے دیکھا۔
گزشتہ ہفتے، بروڈس وہیل کے ایک گروپ کی گوادر (مشرقی خلیج) سے اطلاع ملی تھی، جو بلوچستان کے ساحل کی حیاتیاتی تنوع کی صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اب تک پاکستان سے ڈولفن اور وہیل کی 27 اقسام پائی جا چکی ہیں جو کہ پیداواری ساحلی اور سمندری پانیوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔
بحیرہ عرب کے ہمپ بیک وہیل بیلین وہیل کی ایک قسم ہے جو یمن اور سری لنکا کے درمیان بحیرہ عرب میں پائی جاتی ہے۔ ہر سال جنوبی سمندروں کی طرف ہجرت نہیں کرتی اور بحیرہ عرب تک ہی محدود رہتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر وہیل عام جھینگوں اور چھوٹی مچھلیوں کو کھانے کے لیے گرمیوں کے دوران انٹارکٹک کے پانیوں کی طرف ہجرت کرتی ہیں۔ کھانے کا یہ بھرپور ذریعہ انہیں چربی کی موٹی تہوں پر مشتمل بناتا ہے، جو سرد مہینوں میں ان کی توانائی کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ تب وہ افزائش نسل کے لیے گرم پانیوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔
بحیرہ عرب کے ہمپ بیک وہیل کی بڑی آبادی عمان کے پانیوں میں رہتی ہے اور جنوب مغربی مون سون کے ختم ہونے کے بعد جھینگے اور دیگر چھوٹی مچھلیوں کو کھانے کے لیے پاکستانی پانیوں کی طرف ہجرت کرتی ہے۔ پاکستان کے پانیوں سے ڈبلیو ڈبلیو ایف نےعربی وہیل کے بہت سے ریکارڈ نے رپورٹ کیے ہیں۔
زیادہ ترمشاہدے ایک یا دو وہیل پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ موجودہ واقعہ میں چھ سے زیادہ وہیل مچھلیوں پر مشتمل ایک بڑے گروہ کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان کے ساحل کے ساتھ اتنے بڑے گروپ کا ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کی کم ہوتی ہوئی آبادی بحال ہو رہی ہے۔ 1963 سے 1967 تک پاکستان کے ساحل سمیت عربی وہیلوں میں وہیل کی کارروائیوں میں سوویت بیڑے نے وہیل کو نشانہ بنایا تھا۔