ٹرمپ کی خارجہ پالیسی،عالمی احتجاج اورتنقید
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یادرہے کہ امریکی صدرنے کینیڈااور میکسیکو سے درآمدات پر25 فیصداورچین سے درآمدات پر10 فیصداضافی ٹیرف لاگوکرنے کے حکم نامے پر دستخط کردئیے ہیں۔امریکی صدرکا کہناہے کہ ان محصولات کو ’’غیرقانونی غیرملکیوں اورمہلک منشیات کے بڑے خطرے کی وجہ سے نافذکیاہے، جس میں فینٹانل بھی شامل ہے‘‘۔میکسیکونے بھی اس اقدام پراحتجاج کیاہے اورممکنہ طورپرجوابی تجارتی اقدامات اٹھانے کاعندیہ دیاہے۔میکسیکوکی صدرکلاڈیا شین بام نے کہاہے کہ امریکاکی جانب سے میکسیکوکی تمام درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائدکرنے کے اعلان کے بعدوہ امریکا پرمحصولات سمیت دیگرجوابی اقدامات متعارف کرائیں گے۔انہوں نے وزیراقتصادیات کوہدایت کی ہے کہ وہ ’’پلان بی‘‘ پرعمل درآمدکریں،جس میں میکسیکوکے مفادات کے دفاع کے لئے ٹیرف اورنان ٹیرف اقدامات شامل ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کاکہناہے کہ یہ فیصلہ چین، کینیڈا اورمیکسیکوکوامریکامیں زہریلی ادویات کی اسمگلنگ روکنے کے وعدوں پرعمل درآمدکے لئے جوابدہ ٹھہرانے کے لئے کیاگیاہے۔تاہم، ناقدین کے مطابق،یہ اقدام دراصل امریکی معیشت کوتحفظ دینے اورملکی صنعتوں کوفروغ دینے کے لئے کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ،اس پالیسی سے امریکا کی اندرونی سیاست پربھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، خاص طورپران ریاستوں میں جہاں صنعتیں درآمدات پرمنحصرہیں۔
ٹرمپ کے اس اعلان کے بعدکہ’’غیرقانونی تارکینِ وطن کوگوانتاناموبے کیمپ میں بھیج دیا جائے‘‘ اس حکم نامے کے جاری ہونے کے بعدجہاں غیرقانونی تارکینِ وطن میں سخت تشویش اوراضطراب پیدا ہو گیا ہے وہاں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی انسانی ہمدردیوں کی بناپراسے مؤخرکرنے کامشورہ دیاہے۔ یادرہے کہ اس فیصلے کے بعداب تک 8 ہزارسے زائد افرادامریکاچھوڑ چکے ہیں،جس کے نتیجے میں سستی لیبرکی قلت پیداہوگئی ہے۔اس قلت کے باعث امریکی صنعتوں،خصوصازرعی اورتعمیراتی شعبے میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔مزدوروں کی کمی کے باعث امریکی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوسکتا ہے، جس سے کاروباروں پردبا بڑھے گا۔امریکی عوام کی قوت خرید پر بھی برااثر پڑے گااوریہ بھی عین ممکن ہے کہ مہنگائی کا دور جرائم میں بھی اضافہ کردے،اس لئے کسی بھی طورپرعجلت کامظاہرہ کرنے کی بجائے ان غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی طورپر معافی دیکرامریکی ٹیکس گاروں میں اضافہ کرکے ملکی معیشت کوسنبھالادیاجائے۔
امریکااورہالینڈنے پاکستان میں قائم ایک بڑے سائبرکرائم نیٹ ورک کوختم کرنے کادعویٰ کیا ہے۔ اس نیٹ ورک کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی امدادسے چلنے والے درجنوں پروگرامزکوبھی بندکرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اس اقدام کے پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اورہم ان منفی اثرات سے بچنے کے لئے کیامؤثراقدامات اٹھاسکتے ہیں،ایک مفصل مضمون اس کے لئے درکارہوگالیکن صرف چند اشارئیے عرض کئے دیتاہوں۔
جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈیجیٹل معیشت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کرداراداکرتی ہے اور پاکستان میں بھی اس شعبے کی ترقی پرخصوصی توجہ دی جارہی ہے۔تاہم سائبر سکیورٹی کے مسائل سے بھی ہم دوچارہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے ملک میں سوشل میڈیاکے غلط استعمال نے سیاسی انارکی میں بے حد اضافہ کردیاہے،اس کے تدارک کے لئے موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی جیسے عوامل پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت پرمنفی اثرات ڈال رہے ہیں۔پاکستانی آئی ٹی سیکٹر کے کاروباری نقصانات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے اورآئی ٹی سیکٹرجوکسی بھی ترقی یافتہ مملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصورکی جاتی ہے، پاکستان میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی یہ صنعت کاسانس بندہوتا دکھائی دے رہا ہے اوربیرونِ ملک سے حاصل کردہ پراجیکٹس کو بروقت مکمل کرنے کے لئے پریشان ہیں۔ یقیناان تمام مشکلات اورڈیجیٹل جرائم سے نمٹنے کے لئے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس کے لئے کئی مرتبہ ان صفحات پرطریقہ کارپر بھی بحث کرچکاہوں۔
اگرآپ کویادہوتوٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں میں نیٹوسے علیحدگی کاامکان ظاہرکیاگیاتھا۔یقیناٹرمپ انتطامیہ اس سے بھی واقف ہوگی کہ اگرامریکانیٹوسے لاتعلق ہوجاتاہے تواس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ نیٹومیں امریکاکی شمولیت کا بنیادی مقصدیورپی اتحادیوں کوتحفظ فراہم کرنا ہے۔ علیحدگی سے یورپی یونین کے دفاعی نظام پردبابڑھے گا۔نیٹوکی کمزوری کا براہ راست فائدہ روس کوہو سکتا ہے،خاص طورپر یوکرین جنگ میں اس کی پوزیشن مزید مضبوط ہوسکتی ہے۔گرین لینڈکے معاملے پرامریکااور ڈنمارک کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔نیٹوکے دیگر ممبران ڈنمارک کے ساتھ کھڑے ہوں گے،جس سے امریکاکے لئے سفارتی مسائل پیداہوسکتے ہیں۔
یوکرین پرروسی حملے کے بعدامریکانیٹوکے ساتھ مل کریوکرین کی بھرپورمددکررہاہے تاہم، ٹرمپ انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ ممکنہ پالیسیاں اس خطے میں جنگ کی بجائے معاشی پابندیوں سے یوکرین میں ہوتی ہوئی شکست اورروس کے بڑھتے اقدام کو روکاجا سکتا ہے۔ ٹرمپ نیٹوپر انحصارکم کرنے کے نظریے پریقین رکھتے ہیں جس کے باعث یوکرین کے لئے امریکی امدادمیں کمی آ سکتی ہے۔ٹرمپ کی خارجہ پالیسی زیادہ ترمعاشی وتجارتی تعلقات پرمرکوزہوسکتی ہے، جس کے نتیجے میں روس کے ساتھ مذاکرات اور ممکنہ معاہدے کاامکان بڑھ سکتا ہے۔امریکاکی ممکنہ پسپائی سے یورپ کواپنی دفاعی حکمت عملی پرنظرثانی کرنی پڑے گی،جس سے نیٹوکے اندرتناؤپیداہوسکتاہے۔
ٹرمپ کے غزہ کے بارے میں بیانات نے عرب ممالک میں تشویش پیداکردی ہے۔ان کے سابقہ دورمیں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی اسرائیل نوازرہی ہے،جس کے دوبارہ ممکنہ اطلاق سے خطہ دوبارہ بدامنی کی طرف لوٹ سکتاہے جس کے پہلے سے کہیں زیادہ مضر اثرات ہوسکتے ہیں۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات، اردن، مصرکے علاوہ دیگر خلیجی ممالک امریکی پالیسی سے مزیددورہوسکتے ہیں۔اگرامریکااسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھتاہے،توفلسطین کی صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ایران اورامریکا کے تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں،جس کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام بڑھے گا۔آئندہ آنے والے وقت میں اسی خطے میں اسرائیل کی ترکی کے مخاصمت میں اضافہ ہوسکتاہے جو یقینا ٹرمپ کے لئے ایک بڑاچیلنج ثابت ہو سکتاہے۔
امریکی تجارتی پالیسیاں،امیگریشن اصلاحات، اورسائبرکرائم کے خلاف اقدامات عالمی سیاست اور معیشت میں اہمیت رکھتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ پالیسیاں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے بنائی گئی ہیں،وہیں دوسری طرف ان کے عالمی سطح پرشدیدردعمل دیکھنے میں آرہاہے۔ان پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات کاجائزہ لینا ضروری ہوگاتاکہ ان کے ممکنہ مثبت اورمنفی نتائج کوبہتر طریقے سے سمجھاجاسکے۔ان پالیسیوں کا اثر صرف امریکاپرہی نہیں بلکہ عالمی معیشت پربھی پڑے گااوران کے تحت مختلف ممالک کونئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
امریکی خارجہ ودفاعی پالیسی میں ممکنہ تبدیلیاں عالمی سطح پراثراندازہوسکتی ہیں۔ نیٹوسے علیحدگی، یوکرین میں امریکی کردار میں کمی،اورمشرق وسطیٰ میں اسرائیل نوازپالیسی کے نتیجے میں امریکاکے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔ان پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات عالمی سفارتی،اقتصادی، اور سیکیورٹی صورتحال پرگہرے نقوش چھوڑسکتے ہیں جس کابہرحال سب سے پہلے امریکی اتحادی شکارہوں گے کیونکہ گزشتہ صدی سے امریکاکی یہ تاریخی روایت ہے کہ دوستوں کومفادکے لئے استعمال کرنے کے بعدان کی فوری قربانی ضروری ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے نتیجے میں پاکستان میں ہوسکتے ہیں درآمدات پر کرنے کے کے ساتھ ہیں جس ہے اور کے لئے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کا چین پر ٹیرف میں کمی کا عندیہ، امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر عائد کردہ اپنے انتہائی مہنگے ٹیرف کو کم کرنے کے ارادے کا اعادہ کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ کسی بھی ریلیف کی ٹائم لائن بیجنگ پر منحصر ہوگی۔
دوسری جانب ریاست ایریزونا، کولوراڈو، کنیکٹی کٹ، الینوائے اور نیویارک سمیت 12 امریکی ریاستوں کے ایک گروپ نے امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر ٹیرف لگانے کے صدر ٹرمپ کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں چین سمیت امریکی تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف کی نئی شرحوں کا اعلان کر سکتے ہیں، یہ دوسرے ممالک کے ساتھ امریکی انتظامیہ کے مذاکرات کے نتائج پر منحصر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
صدر ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ وہ کتنی جلدی 145 فیصد ٹیرف کو کم کر سکتے ہیں جو انہوں نے زیادہ تر چینی اشیا پر عائد کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ ان پر منحصر ہے، ہمارے پاس ایک ایسی صورتحال ہے, جہاں ہمارے پاس ایک بہت اچھی جگہ ہے، جسے امریکا کہا جاتا ہے اور جسے برسہا برس سے لوٹا گیا ہے۔
’آخر میں، میرے خیال میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت اچھی ڈیلز ہوں گی، اور ویسے اگر ہمارا کسی کمپنی یا ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے، تو ہم ان کے ساتھ ٹیرف طے کرنے جا رہے ہیں۔‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ’بہت اچھی طرح‘ رہے ہیں، اور وہ امید کرتے ہیں کہ فریقین ایک معاہدے تک پہنچیں گے۔’ورنہ، ہم قیمت مقرر کریں گے۔‘
مزید پڑھیں:
کیا امریکی انتظامیہ چین کے ساتھ ’فعال طریقے سے‘ بات کر رہی ہے، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سب کچھ فعال ہے، ہر کوئی اس کا حصہ بننا چاہتا ہے جو ہم کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے تبصرے اس وقت سامنے آئے جب وال اسٹریٹ میں اس امید پر دوسرے دن کاروبار مثبت رہا کہ واشنگٹن اور بیجنگ تناؤ کو کم کریں گے جو دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان ایک موثر تجارتی پابندی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
بینچ مارک ایس اینڈ پی 500 گزشتہ روز 1.67 فیصد زائد پر بند ہوا، جب کہ ٹیک ہیوی نیس ڈیک کمپوزٹ 2.50 فیصد بڑھ گیا، جس نے گزشتہ روز امریکی سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے تبصروں سے حوصلہ پکڑا کہ چین کے ساتھ تجارت ’غیر پائیدار‘ تھی۔
مزید پڑھیں:
بدھ کے روز، وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے چینی سامان پر 50 سے 60 فیصد تک ٹیرف کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ میں اس معاملے سے واقف لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ ڈیوٹی میں نرمی کے لیے کئی آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن توقع کریں گے کہ بیجنگ اس کے بدلے میں امریکی اشیا پر 125 ٹیرف کم کرے گا۔
منگل کو، صدر ٹرمپ نے عوامی طور پر تسلیم کیا کہ چین پر ان کا 145 فیصد ٹیرف ’بہت زیادہ‘ ہے اور کسی وقت یہ شرح کافی حد تک نیچے آئے گی۔
مزید پڑھیں:
چین نے کہا ہے کہ وہ محصولات جیسے تحفظ پسندانہ اقدامات کی مخالفت کرتا ہے، لیکن اگر امریکا اپنے تجارتی تحفظات کو بڑھانے کا خواہاں ہے تو وہ ’آخر تک لڑنے‘ کے لیے تیار ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے بدھ کے روز باقاعدہ میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ چین جنگ نہیں چاہتا لیکن ہم اس سے خوفزدہ بھی نہیں ہیں۔
’اگر امریکا بات کرنا چاہتا ہے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں، اگر امریکا واقعی بات چیت سے حل چاہتا ہے تو اسے چین کو دھمکیاں دینا اور بلیک میل کرنا بند کردینا چاہیے اور برابری، احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد پر بات چیت کرنی چاہیے۔‘
امریکا چین تجارتی جنگ نے عالمی اقتصادی سست روی کا خدشہ بڑھا دیا ہے، اس ہفتے کے شروع میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اپنی 2025 کی شرح نمو کی پیش گوئی کو 3.3 فیصد سے کم کر کے 2.8 فیصد کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکاٹ بیسنٹ امریکا امریکی صدر بیجنگ تجارتی جنگ ٹیرف چین ڈونلڈ ٹرمپ سیکریٹری خزانہ شرح نمو واشنگٹن وال اسٹریٹ