بزنس کمیونٹی نے ٹریڈ ایکٹ ترامیم کو مسترد کردیا،حنیف لاکھانی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر،کے سی سی آئی کے سابق سینئر نائب صدر اور پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن(پائما) کے سابق چیئرمین حنیف لاکھانی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چیمبرز،ایسوسی ایشنز اور دیگر تمام ٹریڈباڈیز کی دو سال کی مدت کوبرقرار رکھے کیونکہ ملک بھر کی تمام تجارتی انجمنوں بشمول چیمبرز آف کامرس،درآمدی وبرآمدی ایسوسی ایشنز،اسمال اورویمن چیمبرز آف کامرس نے متفقہ طور پرٹریڈ ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کو مسترد کردیا ہے۔حنیف لاکھانی نے کہا کہ منتخب باڈیز کی مدت باقاعدہ ایکٹ کی منظوری سے ہی دو سال کی گئی تھی اور اس کی منظورہ سینٹ آف پاکستان نے بھی کی تھی، اب یہ مدت کم کر کے دو بارہ ایک سال کر دی گئی ہے جو کہ بزنس کمیونٹی کے مینڈیٹ کی بھی توہین کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کو وہ مدت برقرار رکھی جائے جو تاجروں کی جانب سے تفویض کردہ مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے دو سال ہو۔ حنیف لاکھانی نے مزید کہاکہ تجارت کے اداروں میں انتخابات کرانا آسان نہیں ہے اور حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا چاہیے، چیمبرز کے عہدیداروں کی مدت دو سال ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چیمبرزاور ٹریڈ ایسوسی ایشنز کے تمام عہدیداروں کو دو سال کا مینڈیٹ ملا ہے اور یہ ترمیم قابل قبول نہیں ہے، اورجبرا” نافذ کئے گئے اس نئے قانون کو بزنس کمیونٹی قبول نہیں کریگی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایسوسی ایشنز چیمبرز ا دو سال
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔