Daily Mumtaz:
2025-09-18@00:26:03 GMT

پاک بھارت میچز؛ متنازع لمحات کون کون سے رہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

پاک بھارت میچز؛ متنازع لمحات کون کون سے رہے؟

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی کے اہم معرکے میں کل پاکستان اور روایتی حریف بھارت کی ٹیمیں دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گی۔
نیوزی لینڈ کیخلاف افتتاحی میچ میں شکست کے بعد قومی ٹیم کیلئے بھارت کیخلاف میچ کرو یا مرو کی صورتحال اختیار کرگیا ہے، میچ شکست کی صورت میں گرین شرٹس ٹورنامنٹ سے تقریباً باہر ہوجائیں گے۔

اہم معرکے سے قبل شائقین کرکٹ کیلئے کچھ یادگار ترین متنازع لمحات کا ذکر بھی کرتے ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔

میانداد کی کینگرو چھلانگ:

پاکستان کے لیجنڈ کرکٹر جاوید میانداد نے ہمیشہ اپنی بیٹنگ یا سلیجنگ سے مخالفین کو پریشان کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا اور 1992 کے ورلڈکپ میں بھارت کے خلاف میچ بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔

سڈنی میں بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے کی جانب سے حد سے زیادہ اپیلیں کرنے سے میانداد تنگ آگئے اور بلے باز نے مورے کے ساتھ بات چیت کی۔ بعد ازاں ایک رن مکمل کرنے کے بعد میانداد نے کینگرو کی طرح چھلانگ لگائی تاکہ وہ بھارتی وکٹ کیپر کی نقل کرسکیں۔

کمنٹیٹرز اور مداحوں نے اس مضحکہ خیز پہلو کو دیکھا لیکن بھارتی کپتان محمد اظہر الدین کو نہیں، جو میانداد کی حرکتوں پر برہم نظر آئے۔

پرساد کا انتقام:

اوپنر عامر سہیل 1996 کے ورلڈکپ کے کوارٹر فائنل میں بھارت کے ہدف کا تعاقب کررہے تھے جب بائیں ہاتھ کے بلے باز کی جارہانہ بیٹنگ کے باعث ٹیم کو میچ کا نقصان اٹھانا پڑا۔

بنگلورو میں جیت کیلئے 289 رنز کے ہدف کے تعاقب میں عامر سہیل اور ان کے ساتھی اوپنر سعید انور نے 10 اوورز میں 84 رنز بنائے۔ عامر سہیل نے بھارتی فاسٹ بولر وینکٹیش پرساد کو باؤنڈری لگا کر گیند باز کو شاٹ کی سمت انگلی کرکے اشارہ کیا جو پاکستانی ٹیم کو بھی کافی مہنگا ثابت ہوا۔

پرساد نے جوابی حملہ کرتے ہوئے عامر سہیل کو اگلی گیند پر آؤٹ کیا جس پر اسٹیڈیم شائقین کے شور سے گونج اٹھا اور گیند باز نے بدلے میں عامر سہیل کو رخصتی کا اشارہ کیا۔

انضمام الحق کا مداح پر حملہ:

انضمام الحق نے 1997 میں ٹورنٹو میں ایک میچ کے دوران اسٹینڈ میں ایک بھارتی مداح کا سامنا کیا اور یہ واقعہ آنے والے برسوں تک بحث کا موضوع بنا رہا تھا۔

انضمام الحق باؤنڈری پر کھڑے تھے کہ ایک بھارتی سپورٹر نے بلے باز کو آلو کے نام سے پکارا جو پاکستانی بیٹر کو زرا بھی نہ بھایا۔جب میگا فون پر آواز بلند ہوئی تو انضمام الحق نے اپنے ایک کھلاڑی کو ڈریسنگ روم سے بیٹ لانے کی ہدایت کی اور سکیورٹی کی مداخلت سے پہلے ہی اسٹینڈ کے اندر ہی مداح کا تعاقب کرنے پہنچ گئے۔

انضمام الحق کو اس فعل پر سزا تو دی گئی لیکن کئی سال بعد اعتراف کیا گیا کہ یہ نعرے واقعی ذاتی، توہین آمیز اور ناقابل قبول تھے۔

گمبھیر اور آفریدی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ:

بھارتی بلے باز گوتم گمبھیر نے 2007 میں ایک میچ میں پاکستانی اسٹار کرکٹر شاہد آفریدی کو باؤنڈری لگا کر سخت جملے کسنا شروع کردیے۔

گوتم گمبھیر اور آفریدی نے کچھ زبانی بات چیت کے بعد پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا اور بلے باز اور گیند باز کے درمیان ایک رن کے درمیان تصادم ہوگیا۔

دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کو تلخ جملوں کا تبادلہ کیا اور ڈرامائی ٹی وی تصاویر میں نازیبا الفاظ واضح طور پر نظر آرہے تھے، اس سے قبل امپائر نے مداخلت کرکے معاملے کو رفع دفع کرایا۔

شعیب اختر اور ہربھجن کا جھگڑا:

پاکستان کے فاسٹ بولر شعیب اختر کبھی بھی لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹے اور کچھ ایسا ہی 2010 کے ایشیا کپ میں ہربھجن سنگھ کے ساتھ ہوا تھا۔

میچ کے دوران شعیب اختر نے ہربھجن سنگھ کو ایک گیند مس کرائی اور سلیجنگ کی لیکن اس کے نتیجے میں بلے باز نے محمد عامر کی گیند پر آخری اوور میں چھکا لگا کر بھارت کو فتح دلائی۔

ہربھجن نے شعیب اختر کے سامنے زبردست جشن منایا، جنہوں نے انہیں بتایا کہ کہاں جانا ہے۔

شعیب اختر اور ہربھجن نے حال ہی میں چیمپیئنز ٹرافی کی پروموشن ویڈیو میں ٹی وی پر اس لمحے کو مزاحیہ انداز میں دوبارہ پیش کیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انضمام الحق عامر سہیل میں ایک بلے باز

پڑھیں:

بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • اینڈی پائیکرافٹ کے معاملے پر پاکستان کے سامنے تجاویز رکھ دی
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • ایشیا کپ: پاکستان کے میچز میں رچی رچرڈسن کی تقرری کا امکان
  • پاک بھارت ٹاکرے کے متنازع میچ ریفری ’اینڈی پائی کرافٹ‘ کون ہیں؟
  • سوشل میڈیا کی ہوس اور ڈالرز کی لالچ، بچوں نے باپ کے آخری لمحات کا وی لاگ بنادیا
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  • پی سی بی کا سخت مؤقف، اینڈی پائیکرافٹ کے معاملے پر پاکستان کے سامنے تجاویز رکھ دی گئیں
  • ایشیا کپ: پاک بھارت میچ میں تنازعہ کا شکار ہونے والے میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کون ہیں؟
  • ایشیا کپ، پاک-بھارت میچ میں تنازعہ کا شکار ہونے والے میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کون ہیں؟
  • کیا اب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ایسے ہی چلے گی؟