یومِ تاسیس: سعودی عرب کی تاریخ، ثقافت اور اتحاد کی علامت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
سعودی عرب کی تاریخ میں بعض ایام غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں جو اس کی شناخت، ثقافت اور روایات کی گہری عکاسی کرتے ہیں۔ انہی ایام میں ایک نمایاں دن (یومِ تاسیس) یا (سعودی فاؤنڈیشن ڈے) ہے، جو ہر سال 22 فروری کو منایا جاتا ہے۔
یہ دن سعودی ریاست کی تاریخی بنیادوں، ثقافتی ورثے اور ریاستی تشکیل کے سفر کی یاد دلاتا ہے۔ اس دن کا مقصد عوام کو ان کی تاریخ اور عظیم روایات سے جوڑنا اور ریاست کی مستحکم بنیادوں کو اجاگر کرنا ہے، جو آج بھی سعودی عرب کی ترقی اور یکجہتی کا سنگِ بنیاد ہیں۔
سعودی عرب کی بنیاد ریاست کی حیثیت سے ایک طویل تاریخی سفر کی نمائندہ ہے، جس کی جڑیں قبل از اسلام کے زمانے تک پھیلی ہوئی ہیں۔
پانچویں صدی عیسوی کے آغاز میں بنو حنیفہ قبیلہ الیمامہ کی طرف آیا اور وادی حنیفہ کے کناروں پر آباد ہو کر العارض کے علاقے میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ یہ علاقہ بعد ازاں اسلامی ریاست کا حصہ بنا۔ اس نے خلافتِ راشدہ کے دور میں استحکام پایا، تاہم خلافت کے خاتمے کے بعد یہاں سیاسی انتشار اور زوال پیدا ہوا۔
نویں صدی ہجری میں امیر مانع بن ربیعہ المریدی نے اپنی قوم کے ہمراہ اس خطے کی طرف ہجرت کی اور 1446 عیسوی میں درعیہ کی بنیاد رکھی، جو بعد میں سعودی ریاست کی تشکیل کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔ درعیہ کی تعمیر اور استحکام نے تجارتی قافلوں کی حفاظت، داخلی امن اور قبائل کے اتحاد کو فروغ دیا۔
280 سال بعد، امام محمد بن سعود نے 1727 میں درعیہ کی امارت سنبھالی اور سیاسی وحدت کے ساتھ ساتھ معاشی خوشحالی کو فروغ دیا۔ یہ سعودی عرب کی تاریخ میں سعودی عرب کی پہلی ریاست کہلاتی ہے۔ ان کی قیادت میں درعیہ ایک مستحکم مرکز میں تبدیل ہوئی، جس نے اندرونی امن، تجارتی ترقی اور حج کے قافلوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ انہی بنیادوں پر ریاست سعودی عرب کی پہلی شکل سامنے آئی، جو بعد میں ان کے بیٹوں اور پوتوں کی قیادت میں مزید مضبوط ہوئی۔ سعودی عرب کی پہلی ریاست 1818 تک رہی۔
پہلی سعودی ریاست کے حکام 4 رہے، جن میں سب سے پہلے امام محمد بن سعود تھے (1727-1765)، پھر امام عبد العزیز بن محمد (1765-1803)، پھر امام سعود بن عبد العزیز (1803-1814) اور آخر میں امام عبد اللہ بن سعود جو 1814 عیسوی سے لیکر 1818 تک رہے۔
1824 میں امام ترکی بن عبداللہ نے دوسری سعودی ریاست کی بنیاد رکھی، جس کا مرکز ریاض بنایا گیا۔ اس دور میں داخلی استحکام کو فروغ ملا ۔ ریاست نے مختلف قبائل کو متحد کرنے کی کامیاب کوشش کی تاہم 1891 میں دوسری ریاست کا اختتام ہوا۔
تیسرا دور جدید سعودی عرب کی تشکیل کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جب 1902 میں شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے ریاض شہر کی شکل میں اپنے آباؤ اجداد کی وراثت دوبارہ حاصل کی۔ شاہ عبدالعزیز نے تدریجی طور پر تمام قبائل کو متحد کر کے داخلی امن بحال کیا اور علاقائی استحکام کو فروغ دیا۔
ان کی بے مثال قیادت کے نتیجے میں 23 ستمبر 1932 کو سعودی عرب کے قیام کا اعلان ہوا، جس نے ریاست کو ایک نئے عہد میں داخل کر دیا۔ بعد ازاں شاہ عبدالعزیز اور ان کے جانشینوں نے ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا، اور آج شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں مملکت جدت اور خوشحالی کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔
یومِ تاسیس اور یومِ وطنی (قومی دن) دونوں اہم قومی تقریبات ہیں لیکن ان کے مقاصد اور تاریخی پس منظر مختلف ہیں۔ یومِ تاسیس ریاست کی پہلی بنیاد کے واقعے کی یادگار ہے، جو 1727 میں درعیہ میں رکھی گئی تھی۔ اس دن کا مقصد سعودی عوام کو اپنی ثقافت، روایات اور قدیم ریاستی ورثے کی یاد دلانا ہے۔
یومِ تاسیس کے موقع پر عوامی تقریبات، روایتی لباس کی نمائش، ثقافتی میلوں، گھڑ سواری، اور موسیقی کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں، جو ریاست کی قدیم عرب روایات کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسری طرف، یومِ وطنی ہر سال 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے اور یہ سعودی عرب کے باضابطہ قیام کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اس دن ریاستی اتحاد اور جدید ترقی کا جشن منایا جاتا ہے، جس میں سرکاری تقریبات، آتش بازی، قومی پرچم لہرانے کی تقاریب اور عوامی اجتماعات شامل ہوتے ہیں۔
یومِ تاسیس کی اہمیت محض ایک تاریخی یادگار کی حد تک محدود نہیں بلکہ یہ دن سعودی عوام کے لیے وفاداری، اتحاد اور فخر کا مظہر ہے۔ یہ موقع ریاست کے اس سفر کی یاد دلاتا ہے جو مشکلات، قربانیوں اور انتھک محنت سے عبارت تھا۔
موجودہ قیادت کی سرپرستی میں سعودی عرب نے (ویژن 2030) کے تحت معیشت، سیاحت، تعلیم، اور ثقافت کے شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے، جو نہ صرف ریاست کے تابناک ماضی کا تسلسل ہے بلکہ روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔
سعودی فاؤنڈیشن ڈے نہ صرف تاریخ کی ورق گردانی ہے بلکہ یہ دن ہر سعودی شہری کے لیے اپنی شناخت پر فخر کرنے کا لمحہ ہے۔ یہ موقع یاد دلاتا ہے کہ جدید ترقی اور عالمی سطح پر سعودی عرب کا ابھرتا ہوا مقام ان بنیادوں کا مرہون منت ہے جو تین صدیوں قبل قائم کی گئی تھیں۔
سعودی عرب کے لیے یومِ تاسیس اس عزم، اتحاد اور قربانی کی کہانی سناتا ہے جو ایک عظیم ریاست کی تشکیل کا سبب بنی، اور یہ دن ہمیشہ سعودی عوام کو ماضی کی کامیابیوں کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کا حوصلہ دیتا رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر راسخ الکشمیری یوم تاسیس سعودی عرب کی سعودی ریاست میں درعیہ کی تاریخ ریاست کی کو فروغ کی پہلی کے لیے کی یاد
پڑھیں:
صیہونی مخالف اتحاد، انتخاب یا ضرورت!
اسلام ٹائمز: امام خمینی (رح) اور رہبر انقلاب اسلامی نے ماضی اور حال میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کیخلاف بیت المقدس کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا ہے اور اس خطرے کو ناکام بنانے کیلئے امت اسلامیہ کے اتحاد کو واحد حکمت عملی قرار دیا ہے۔ صیہونی حکومت کیخلاف اسلامی ممالک کیطرف سے حقیقی اتحاد تشکیل دیکر امت اسلامیہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا اسوقت بہترین موقع ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے تو یہ امت اسلامیہ کے مفادات کو پورا کرسکتا ہے، صیہونی حکومت کے خطرات کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے وجود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور بالآخر مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بیت المقدس کو قابضین کے چنگل سے آزاد کرانے کا سبب بن سکتا ہے۔ تحریر: یداللہ جوانی جونی
ایک طرف "گریٹر اسرائیل" کے نقشے کی تصویر کشی اور کئی اسلامی ممالک کے خلاف فوجی حملے کی دھمکی اور دوسری طرف صیہونی حکومت کی طرف سے قطر کے خلاف حملے کو عملی جامہ پہنانے نے مغربی ایشیا کے خطے کو نئی اور ہنگامی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اب نہ صرف مظلوم فلسطینیوں کو اپنی مقبوضہ سرزمین کو قابضین سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیئے، بلکہ بہت سے دوسرے اسلامی اور عرب ممالک کو بھی صیہونی حکومت کے ہاتھوں اپنے وجود، علاقائی سالمیت، آزادی اور سلامتی کو شدید خطرے کے پیش نظر تیاری کرنا ہوگی۔ گذشتہ دو برسوں میں علاقے میں ہونے والی پیش رفت کے پیش نظر صیہونی حکومت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان کے لیے نئی زمینوں پر قبضہ کرنے اور دریائے نیل سے فرات تک حکومت کی تشکیل کے نظریئے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
نیتن یاہو، اپنی بھیڑیا صفت درندگی کے ساتھ، اب ہر چیز پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ بقول اس کے مقدس یروشلم کی قابض حکومت کے خلاف وجودی خطرات کو ختم کیا جا سکے۔ اس بھیڑیئے کے رویئے اور بے رحم وحشیانہ رویوں کی حمایت کرنے والا مغرب ہے، جو خود کو انسان دوست، انسانی حقوق کا علمبردار اور امن و سلامتی کا محافظ کہتا ہے۔ قطر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ٹرمپ کی اجازت سے صیہونی حکومت کے فوجی حملے نے بہت سے عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو ایک مبہم اسٹریٹجک صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے ترکی کو قطر کی طرح فوجی کارروائی کی دھمکی اور مصر میں حماس کے رہنماوں کو ختم کرنے کے لیے جو دہشت گردانہ دھمکیاں دی جارہی ہیں، وہ سب اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ قدس پر قابض حکومت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ دو وجوہات کی بناء پر اسلامی ممالک کے خلاف جارحیت انتہائی آسان، سستی اور ضروری ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کو ان جارحیتوں کو انجام دینے میں بااثر مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہدف والے ممالک میں ان حکومتوں جیسے قطر، مصر، ترکی، امارات، سعودی عرب، اردن وغیرہ کا دفاع اور سلامتی کے حوالے سے مغرب پر انحصار ہے۔ یہ انحصار کسی بھی سنگین ردعمل کے لیے صیہونی حکومت کے ردعمل کو کم کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلامی اور عرب ممالک کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں اور اپنے عوام کے مستقبل کے تحفظ اور سلامتی کے بارے میں حقیقت پسندانہ سوچ اپنائیں۔ اس سے پہلے کہ حکمت عملی کے فیصلے کرنے کے مواقع ختم ہو جائیں۔ ان حکومتوں، کو چاہیئے کہ اپنے عوام کے مستقبل کے بارے میں دانشمندانہ فیصلوں کی طرف قدم بڑھائیں۔ ایک ایسی حکومت جس نے اپنے ناجائز اور قابض وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تمام انسانی اور اخلاقی اصولوں کو پامال کیا اور غزہ میں نسل کشی کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت اپنے مقاصد اور مفادات کو آگے بڑھانے اور محفوظ کرنے کے لیے مغربی ایشیاء میں مغرب کی پراکسی ہے۔ صیہونی حکومت کے خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں ان ممالک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے عرب اور اسلامی ممالک کو فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان حکومتوں کے ساتھ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی دوستی اور اتحاد کے نتائج تمام شواہد کے ساتھ سامنے آچکے ہیں۔ بہرحال عرب اور اسلامی ممالک کے قائدین کی جانب سے مذکورہ بالا حقائق پر مبنی اسٹریٹجک فیصلوں کی روشنی میں نہ صرف ان ممالک کے خلاف صیہونی حکومت کی دھمکیوں کو بے اثر کیا جا سکتا ہے، بلکہ صیہونی حکومت کے خاتمے، القدس کی آزادی اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی تحریک کو نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ یہ اسٹریٹجک فیصلہ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی اور عرب ممالک کے حقیقی اور عملی اتحاد کی تشکیل کے سوا کچھ نہیں۔
موجودہ حالات میں ایسے اتحاد کی تشکیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بلکہ امت مسلمہ اور تمام اسلامی و عرب ممالک کے لیے ایک تاریخی ہنگامی صورتحال ہے، جس سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بعض اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ صیہونی حکومت نے ان کے وجود کو نشانہ بنایا ہے اور وہ تباہی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پیر 14 ستمبر کو دوحہ میں منعقد ہونے والی غیر معمولی عرب اسلامی سربراہی کانفرنس اس اتحاد کو بنانے اور "مشترکہ صیہونی مخالف آپریشنز ہیڈ کوارٹر" بنانے کا ایک قیمتی موقع ہے۔ امام خمینی (رح) اور رہبر انقلاب اسلامی نے ماضی اور حال میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے خلاف بیت المقدس کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا ہے اور اس خطرے کو ناکام بنانے کے لیے امت اسلامیہ کے اتحاد کو واحد حکمت عملی قرار دیا ہے۔ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی ممالک کی طرف سے حقیقی اتحاد تشکیل دے کر امت اسلامیہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا اس وقت بہترین موقع ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے تو یہ امت اسلامیہ کے مفادات کو پورا کرسکتا ہے، صیہونی حکومت کے خطرات کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے وجود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور بالآخر مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بیت المقدس کو قابضین کے چنگل سے آزاد کرانے کا سبب بن سکتا ہے۔
1۔ غاصب صیہونی حکومت اس وقت دنیا اور اقوام عالم کی رائے عامہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت کے طور پر جانی جاتی ہے۔
2۔ فلسطین کی آزادی کا نعرہ اب عالمی بحث بنتا جا رہا ہے۔
3۔ خطے کے بہت سے ممالک میں بالخصوص یمن، لبنان، عراق اور خود غزہ جیسے مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت مقبول ہوچکی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف موثر جدوجہد کے لیے اعلیٰ سطح پر ہم آہنگی اور نظم موجود ہے۔
4۔ صیہونی حکومت اندر سے کھوکھلی ہو رہی ہے اور اس کے تمام معاون ڈھانچے بوسیدہ اور متزلزل ہوچکے ہیں۔ اس حکومت کی فضائیہ کی طاقت کا دوسرے ممالک پر انحصار ہے (مغربی طیاروں پر) جو ایک مضبوط اور مستحکم ملک کی علامت نہیں سمجھا جاتا۔
5۔ امریکہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ 12 روزہ جنگ کے خلاف ایرانی قوم کے طاقتور دفاع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بیت المقدس کے غاصبوں کو شدید ضربیں لگائی جاسکتی ہیں، جس کو برداشت کرنے سے وہ قاصر ہیں۔
6۔ صیہونی حکومت کی اہم اور تجارتی شریانیں اسلامی ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ اس اتحاد کا پہلا قدم ان تمام اہم تجارتی اور اقتصادی شریانوں کو منقطع کرنے کا فیصلہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہوسکتا ہے۔