قرضوں کیساتھ ملک ترقی نہیں کریگا، دعا کریں صنعت و زراعت بڑھے، شہبازشریف
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
ڈیرہ غازی خان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2025ء)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قرضوں کے ساتھ پاکستان ترقی نہیں کرے گا، دعا کریں صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلے اور ملک ترقی کرے، ہمارے کسان فصلوں کی پیداوار بڑھائیں تاکہ ملک ترقی کرے۔وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کے جلسے میں سرائیکی زبان میں بھی خطاب کیا، انہوں نے کینسر ہسپتال اور یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو مہنگائی 40 فیصد پر تھی، نواز شریف کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ ملک کو بچائیں یا سیاست کو دیکھیں، لیکن انہوں نے سیاست قربان کرنے اور ملک کو بچانے کا فیصلہ کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ جب میں بیرون ملک جاتا ہوں تو میزبانوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیسے مانگنے آئے ہیں، ایک شخص نے کہا تھا کہ شہباز شریف باہر جاتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ قرضہ مانگنے گیا ہے، تو میں سوال کرتا ہوں کہ عمران خان کیا قرض بانٹنے جاتے تھی ۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے جو مہنگائی 40 فیصد تھی، آج 2.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شہباز شریف نے کہا کہ ملک ترقی انہوں نے
پڑھیں:
تاجروں اور صنعت کاروں نے بجٹ 2025-2026 پر تحفظات کا اظہار کردیا
کراچی، لاہور اور پشاور چیمبرز نے وفاقی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زراعت سمیت مختلف شعبوں میں سبسڈی نہ دینے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی تاجر اور صنعتکار برادری نے وفاقی بجٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو اور ٹیکس وصولیوں کے بلند اہداف پر سوال اٹھادیے۔
کراچی چیمبر آف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے جب گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے ایف بی آر کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے سختیوں کے علاؤہ کچھ نہیں، بجٹ میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی جبکہ ریونیو بڑھانے کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی تجارت سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروع پر کوئی بات نہیں کی گئی پاکستان کی مسابقت کو آسان بناکر ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی ابادی کو کیسے روزگا دیا جائے گا، بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہت پست رہی اس کی کیا وجوہات ہیں بڑی فصلوں میں نقصانات کو امپورٹ کرکے پورا کرنا پڑے گا، پی ایس ڈی پی کے اندر بڑی کٹوتیاں کی گئیں ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی پی ایس ڈی پی ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے ماحولیاتی آلودگی سے اس کے لیے بھی پانچ ارب روپے کا بجٹ ناکافی ہے۔ ایس آئی ایف سی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا میں سمجھتا ہوں کہ پروگریسو بجٹ ہے نئے اقدامات کیے گئے ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے لحاظ سے معیشت کیسے ترقی کرے گی عام طبقے تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے ان سوالات کا جواب بجٹ میں نہیں ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروارہے ہیں پچاس فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہورہا ہے مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا، زراعت صوبوں کی زمہ داری ہے اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار نوے کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایس ای ایف ایس اسکیم کہ وجہ سے کچھ ایکسپورٹ بڑھی ہے اس کو بھی اب خراب کیا جارہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گراتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے رکھے گئے جو ناکافی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کراچی سے پچاس فیصد کم ابادی والے شہروں کے لیے کراچی سے زیادہ بجٹ رکھا گیا، ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بہت سی تجاویز دیں لیکن نہیں مانی گئی جبکہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی گئی برین ڈرین روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
مہنگائی میں اضافہ روکا گیا اسے مائنس میں لانا ضروری ہے بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں 38 ارب ڈالر کی ترسیلات شامل کیے بغیر بجٹ بناکر دکھائیں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے۔
کراچی چیمبر کے صدر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔
سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا بجٹ میں ایکسپورٹ کو ریلیف نہیں دیا گیا۔
لاہور چیمبر کے صدر نے بجٹ میں دفاع کے شعبے کیلیے مختص رقم میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا اور ضم اضلاع پر جو 10 فیصد ٹیکس لگایا ہے اس سے ملک کی بزنس کمیونٹی کے تحفظات دور ہوئے ہیں۔
صدر لاہور چیمبر ابو ذر شاد نے کہا کہ حکومت نے ایک کامرس کو ٹیکس نیٹ میں لا کر بہترین کام کیا ہے، پانی کے منصوبوں کے لئے جو بجٹ رکھا گیا ہے اسکو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جتنی جلدی پانی کے منصوبے مکمل ہوں گے ،اس سے ملکی کو فائدہ ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپر ٹیکس میں کمی ہوئی ہے ،ہمیں اس پر حکومت سے زیادہ امیدیں تھیں، ٹیکس کسٹم ڈیوٹی کم ہو رہی ہے، کاٹن انڈسٹری کے لئے بھی حکومت کو ریلیف دینا چاہیے تھا۔
ابو ذر شاد نے کہا کہ جب تک بجٹ کی تفصیلات نہیں ملیں گی ابھی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، بیوکریسی اچھے خاصے کاروبار کو تباہی سے دو چار کر دیتی، وہی کاروبار پرائیوٹ سیکٹر میں بڑھتا ہے، رئیل اسٹیٹ میں کم کرنے سے عوام کو فائد ہ ہو گا ، لاگ بروقت رجسٹریاں کروائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 50 کروڑ تک کے کاروبار کے لئے بجٹ تقریر کوئی ریلیف نہیں آیا ہے، تنخواہ دار طبقے کے لئے جو ٹیکس کم کیا گیا ،یہ بھی اچھا قدم ہے، 15 ہزار سے زیادہ پٹرول پمپ ہیں ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، پٹرول پمپس پر کیرے لگا کر مانیٹرنگ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اکانومی ڈاکیومنٹ کرنا ہے تو 5 ہزار ، ایک ہزار والے کو بند کرنا پڑے گا، آئی پی پیز جس پر 24 ہزار ارب روپے خرچ کر چکے ہیں اس پر بجٹ تقریر میں کوئی پالیسی نظر نہیں آئی، ایف بی آر کے ٹیکس کولیکشن میں 1200 ارب روپے کا خسارہ آیا۔
ابو ذر شاد نے کہا کہ وفاقی وزرا کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کوارڈینیشن بہتر نہیں ہے، جو وزیر 400 ارب کا نقصان کرکے بیٹھا ہے اسکو فارغ کرنا چاہیے۔
تاجر رہنما میاں انجم نثار نے کہا کہ جب بجٹ دیا جاتا اس میں ڈائریکشن ہوتی ہے، اس بجٹ میں کوئی ڈائریکشن نظر نہیں آرہی، انڈسٹری اور زراعت کے لئے بھی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ ملک آئی ٹی انڈسٹری کی اسپیڈ بھی کم ہوئی ہے حکومت کی اس پر کوئی توجہ نہیں جبکہ اس انڈسٹری سے ہماری 3.1 ارب کی برآمدات ہیں، آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا ،سری لنکا سمیت دیگر ممالک آگے نکل گئے ہیں۔
میاں انجم نے کہا کہ جو لوگ پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان سے مزید ٹیکس لیا جارہا ہے، ایف بی ٹیکس نیٹ بڑھانے میں ناکام رہا۔ یں نہیں سمجھتا اس پالیسی سے ملک میں انویسٹمنٹ آئے گی۔
سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی بجٹ میں جو چھوٹے تاجروں پر بجٹ میں ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جسے مسترد کرتے ہیں، بجلی اور گیس مہنگی کرنے سے غریب عوام پر بوجھ مزید بڑھے گا۔
بجٹ تقریر کے بعد سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی سے مشاورت کے بعد وفاقی بجٹ پر بیانیہ جاری کرینگے، ان کا کہنا تھا بجٹ کیلئے وفاقی وزیر خزانہ کو تجاویز دی تھیں، ان پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر تفصیلی مؤقف جاری کریں گے۔
ان کا کہنا تھا وفاقی بجٹ میں فاٹا پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ ایف بی آر کے قوانین سے انڈسٹری کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے گا۔
اس موقع پر غضنفر بلور کا کہنا تھا کہ 18 فیصد سولر پینل پر ٹیکس لگایا گیا جبکہ پٹرول پر بھی غریب عوام سے ٹیکس لیا جائے گا جو کہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ پہلے سے چھوٹے کارخانہ دار رو رہے ہیں اور ان پر مزید ٹیکس لگایا گیا جس کی وجہ سے ملک سے مزید کارخانے دیگر ممالک کو منتقل ہوجائینگے، انکا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے پختونخوا کے تاجر برادری اس بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں۔
سرحد چیمبر آف.کامرس کے سینئر ممبر جلیل جان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سنیٹرز اور قامی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں 400 فیصد اضافہ کردیا انکا کہنا تھا کہ کوڈ بار کے بغیر سامان کے ضبظ کا فارمولا بھی ظلم کی انتہا ہے انکا کہنا تھا کہ صوبے کے چھوٹے اور بڑے کاروباری طبقہ اس وفاقی بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں اور ایک بار پھر حکومت سے اپیل کرتی ہیں کہ اس بجٹ کو دوبارہ ریوو کیا جائے .