اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) جرمنی کے مشرقی حصے میں بہت سے جرمن شہری یوکرین کی حمایت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور روس کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ یہی چیز سیکسنی، تھورنگیا اور برانڈن برگ میں انتخابات سے پہلے انتخابی مہم میں بھی حاوی نظر آئی۔

خارجہ پالیسی: ایک طویل عرصے تک، یہ ایک ایسا مسئلہ سمجھا جاتا تھا جس پر غور و خوض جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہوتا تھا۔

کیونکہ ملک کی سلامتی اور خارجہ پالیسی جیسے معاملات کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے بارے میں بحث بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان کی انتخابی مہموں میں حاوی رہی۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ تین جرمن ریاستوں کے سربراہاں حکومت اب یوکرین میں جنگ کے بارے میں اور روس کے صدر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی یا جنگ کے خاتمے کے امکان کے بارے میں زورو شور شے بات کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت تین مشرقی ریاستوں میں ایک اہم موضوع

وجہ: جرمن ریاستوں تھورنگیا، سیکسنی اور برانڈنبرگ میں ریاستی پارلیمانی انتخابات وفاقی انتخابات کے چند ہفتوں بعد ہی ہونا ہیں۔ اسی لیے ان تین مشرقی جرمن ریاستوں میں، یوکرین میں روسی جارحیت کی جنگ اور کییف کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی کا معاملہ ایک اہم سوال بن گیا ہے، یا شاید اس وقت کا سب سے اہم سوال۔

اور یہ سوال بھی کہ کیا بنڈس ویئر یعنی جرمن فوج کو اپ گریڈ کیا جانا چاہیے اور نئے امریکی ہتھیاروں کی تنصیب ہونی چاہیے؟ ان تمام سوالات پر جرمنی کے مشرقی حصے پر تذبذب اور بڑے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح ریاستی سیاست دان ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ جنگ یا امن کے سوال پر ووٹ؟

نئی وجود میں آنے والی جماعت ''بنڈنس سارہ واگن کنیشٹ‘ (بی ایس ڈبلیو) کی سربراہ سارہ واگن کنیشٹ نے اس سلسلے میں سب سے سے زیادہ شہرت حاصل کی۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی سابق سیاست دان کی اس نئی پارٹی کو، جس کی بنیاد اسی سال کے آغاز میں رکھی گئی، انتخابات سے دو ہفتے قبل ریاست تھورنگیا میں تقریبا 20 فیصد ووٹ حاصل تھے۔ لہٰذا توقع ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل میں اس جماعت کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔ واگن کنیشٹ نے حال ہی میں متعدد موقع پر کہا تھا کہ بی ایس ڈبلیو صرف اسی صورت میں ریاستی حکومت کا حصہ بنے گی جب نئی حکومت 2026 سے جرمنی میں نئے امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی کے منصوبوں کو واضح طور پر مسترد کرے۔

حالانکہ اس کا فیصلہ تھورنگیا کے ریاستی دارالحکومت ایئرفورٹ میں نہیں ہونا۔ روس کی جارحانہ پالیسی کے پیش نظر یہ ہتھیار 2026 سے جرمنی میں نصب کیے جانا ہیں۔ ڈوئچ لینڈ فنک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واگن کنیشٹ نے اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے نشاندہی کی: ''مشرقی حصے میں ہونے والے انتخابات جنگ اور امن کے سوال پر بھی ووٹنگ ہیں۔‘‘ دوسرے لفظوں میں، جو کوئی بھی جنگ کے شکار ملک یوکرین کی حمایت کرتا ہے، وہ جنگ کے حق میں ہے۔

واگن کنیشٹ نے کہا کہ ان کے ووٹرز توقع کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں کہ خود جرمنی میں جنگ کا خطرہ نہ بڑھے۔ چین اور بھارت کو پوٹن پر اثر انداز ہونا چاہیے، کریشمر

سیکسنی اور برانڈنبرگ کے وزرائے اعلیٰ، مائیکل کریشمر (سی ڈی یو) اور ڈیٹمر ووئیڈکے (ایس پی ڈی) نے بھی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے بیانات سے توجہ حاصل کی۔

مثال کے طور پر کریشمر نے وفاقی بجٹ کے پیش نظر یوکرین کو اسلحے کی امداد میں کمی کا مطالبہ کیا اور یوکرین تنازعے میں سفارتی اقدامات کو فروغ دینے کی بات کی۔ انہوں نے جرمنی کے ایڈیٹوریل نیٹ ورک آر این ڈی کو بتایا: ''میں ایک بار پھر سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر ہمیں چین اور بھارت کے ساتھ ایسے اتحاد کی ضرورت ہے جو پوٹن کو جنگ بندی کے لیے تیار کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکیں۔

ووئیڈکے نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا۔ سروے میں یوکرین کی حمایت کے بارے میں سخت شکوک و شبہات

ریاستی سیاست دانوں کی طرف سے خارجہ پالیسی کے بارے میں اظہار رائے کی وجہ عوام میں، ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی وفاقی اتحادی حکومت کی طرف سے یوکرین کے بارے میں پالیسی سے جڑے شکوک و شبہات ہیں، خاص طور پر، مشرقی جرمن ریاستوں میں۔

2022 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے، جرمنی نے انسانی بنیادوں پر امداد، ہتھیاروں اور براہ راست نقد ادائیگیوں کے زریعے، تقریباﹰ 23 بلین یورو کے ساتھ یوکرین کی مدد کی۔ یوں جرمنی امریکہ کے بعد یوکرین کی مدد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ رائے عامہ پر تحقیق کرنے والے ادارے فورسا کے مطابق مشرقی جرمنی میں 34 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ جرمنی یوکرین کی حمایت کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔

جبکہ 32 فیصد ٹینکوں جیسے بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کے حق میں ہیں۔ اے ایف ڈی اور بی ایس ڈبلیو، حکومت کی یوکرین پالیسی کے خلاف

اگرچہ وفاقی سطح پر سی ڈی یو اور سی ایس یو کی قدامت پسند اپوزیشن بڑی حد تک یوکرین کے حوالے سے حکومت کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے، لیکن دو جماعتیں ہیں جو یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کو مسترد کرتی ہیں اور روس کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرتی ہیں، ان میں حال ہی میں خاص طور پر مشرقی ریاستوں میں قوت پکڑنے والی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند 'متبادل برائے جرمنی‘ یعنی اے ایف ڈی اور سارہ واگن کنیشٹ الائنس۔

برلن کی حکمراں جماعت دی گرینز کے وفاقی چیئرمین اومید نوری پور خاص طور پر ان دونوں جماعتوں کے اس مطالبے سے ناراض ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے رابطہ کیا جائے اور انہیں امن مذاکرات کی پیش کش کی جائے۔ کریشمر کے علاوہ تھورنگیا کے حکمراں بائیں بازو کے وزیر اعظم بوڈو رامیلو کے بیانات کے جواب میں انہوں نے آر این ڈی سے کہا: ''آپ ایسا برتاؤ کر رہے ہیں جیسے آپ اپنا سر ریت میں گھسا کر امن حاصل کر سکتے ہوں۔

لیکن بزدلی سے امن نہیں آتا۔‘‘ درحقیقت پوٹن نے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ تھورنگیا میں امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی، ایس پی ڈی کے لیے تحفظات کا سبب

اس بحث کے زور پکڑنے کی ایک اور وجہ روسی جارحیت کے پیش نظر جرمنی میں 2026 سے نئے امریکی درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تعینات کیے جائیں گے۔

اس کا اعلان سب سے پہلے جولائی کے وسط میں امریکہ میں نیٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر کیا گیا تھا اور رواں ہفتے کے آغاز میں ایس پی ڈی نے، جو چانسلر اولاف شولس کی پارٹی ہے، اس تعیناتی پر اتفاق کیا۔ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ جارج مائر نے تاہم ڈوئچ لینڈ فنک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس فیصلے سے انتخابی مہم میں ہمارے لیے کوئی آسانی نہیں ہوگی۔

تاہم، حقیقت میں، انہیں اس تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں: ''قومی سلامتی کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے، میرے تحفظات اس بات پر ہیں کہ یہ بات کیسے سامنے آئی اور اسے کیسے بتایا گیا۔‘‘ اے ایف ڈی اور بی ایس ڈبلیو امریکہ مخالف اور روس مخالف ہیں، کیزے ویٹر

سی ڈی یو کے پارلیمانی گروپ کے خارجہ امور کے ماہر روڈرش کِیزے ویٹر نے تازہ صورتحال پر کہیں زیادہ پرسکون انداز میں ردعمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''یہ اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ جرمنی میں سکیورٹی پالیسی کی بحث کس قدر گھمبیر ہے، جہاں سکیورٹی پالیسی یا ڈیٹرنس کے بنیادی اصولوں کو ہر جگہ، یہاں تک کہ سیاسی طور پر بھی نہیں سمجھا جاتا اور اس کی بجائے فوری طور پر ایک جنونی رد عمل سامنے آتا ہے۔ میری رائے میں ہتھیاروں کی تعیناتی کے اس معاملے کا انتخابات پر اثر محدود ہے، کیونکہ بی ایس ڈبلیو اور اے ایف ڈی پہلے ہی امریکہ مخالف اور روس کے حوالے سے اپنے نکتہ نظر کے زریعے زیادہ سے زیادہ ووٹرز کو متاثر کرنے کی حد تک پہنچ چکی ہیں، اور یوں اس طرح کے فیصلے پر اتفاق رائے بڑھے گا۔

‘‘

یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس سے ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی حکمران جماعتوں کے بہت سے نمائندوں کے ساتھ ساتھ قدامت پسند سی ڈی یو نمائندے بھی مشرقی ریاستوں میں اپنی انتخابی مہم میں اتفاق نہیں کرتے۔ یہ جماعتیں یوکرین کی مزید حمایت اور جرمنی میں نئے امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی کے معاملے میں تیزی سے اکیلی ہوتی جا رہی ہیں۔

ژینس تھوراؤ (ا ب ا/ک م)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی ہتھیاروں کی جرمن ریاستوں خارجہ پالیسی بی ایس ڈبلیو ریاستوں میں کے بارے میں نئے امریکی اور روس کے پالیسی کے ایس پی ڈی اے ایف ڈی جرمنی کے سی ڈی یو کے ساتھ کے لیے جنگ کے

پڑھیں:

بی جے پی کی حکومت کو تمام جماعتوں سے بات چیت کرنی چاہیئے، ملکارجن کھرگے

کانگریس کمیٹی کے صدر نے کہا کہ کشمیر کے لوگ صرف سیاحت پر انحصار کرتے ہیں، اسلئے اس سال کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ انہوں نے وزیر داخلہ امت شاہ، جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ اور مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقہ کے سینیئر پارٹی لیڈروں سے پہلگام میں منگل کو ہوئے خوفناک دہشتگردانہ حملے سے متعلق تازہ صورتحال پر بات چیت کی۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ملکارجن کھرگے نے مرکزی حکومت پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے مل کر بات کرے۔ کانگریس کے صدر نے کہا کہ منگل کی رات دیر گئے، انہوں نے وزیر داخلہ امت شاہ، جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ اور کانگریس کے سینیئر لیڈروں سے پہلگام میں ہوئے قتل عام کے بارے میں بات کی جس میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔

ملکارجن کھرگے نے ایکس پر لکھا کہ گزشتہ شام دیر گئے، میں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ، ہماری پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر اور پارٹی کے دیگر سینیئر لیڈروں سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اس مشکل وقت میں ہمیں متحد ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے ہونے والے اس دہشتگردانہ حملے کا مناسب اور پُرعزم جواب دیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت کو جموں و کشمیر میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے بات کرنی چاہیئے اور سیاحوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ متعصبانہ سیاست کا وقت نہیں ہے، یہ اجتماعی عزم کا لمحہ ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر اپنی جانیں گنوانے والوں اور ان کے غم زدہ خاندانوں کے لئے انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ جموں و کشمیر کی سیاحت پر اس حملے کے برے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کھرگے نے کہا کہ گرمیوں کا موسم ابھی شروع ہوا ہے، یہ وہ وقت ہے جب سیاح خطے کا دورہ کرنے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی معیشت اور اس کے لوگوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے لوگ صرف سیاحت پر انحصار کرتے ہیں، اس لئے اس سال کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک
  • نہروں کا ایشو مشترکہ مفادات کونسل طے کرے گی
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے
  • بانی تحریک انصاف کی رہائی کا سب کو انتظار ہے، ڈاکٹر عارف علوی
  • جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا غزہ میں فوری امداد کی فراہمی شروع کرنے کا مطالبہ
  • بی جے پی کی حکومت کو تمام جماعتوں سے بات چیت کرنی چاہیئے، ملکارجن کھرگے
  • این اے 18 انتخابی دھاندلی معاملہ، عمرایوب نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا
  • این اے 18ہری پور میں انتخابی دھاندلی کا معاملہ، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا
  • پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ستمبر میں کرانیکا فیصلہ ، امیدواروں کیلئے تعلیمی قابلیت کی نئی شرط