اسرائیلی فورسز نے حسن نصراللہ کو شہید کرنے کیلئے کی گئی بمباری کی ویڈیو جاری کردی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
JERUSALEM,:
اسرائیل کی فوج نے لبنان کی مزاحمتی تحریک کے شہید سربراہ حسن نصراللہ کو ستمبر 2024 میں بیروت میں نشانہ بنانے کی ویڈیو جاری کردی۔
اسرائیلی میڈیا نے فوج کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو نشر کی اور یہ ویڈیو ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب لبنان میں حسن نصراللہ شہید اور ان کے نائب سیف دین کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں شہریوں کا سمندر امڈ آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل کی 69 فائٹر اسکوارڈن کے ایف-151 کے طیاروں نے شام کو 6:20 بجے بیروت کے مرکز میں حزب اللہ کے زیرزمین ہیڈکوارٹرز پر تقریباً 100 بم گرائے۔
اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ اسی حملے میں حزب اللہ کی 32 سال سے قیادت کرنے والے حسن نصراللہ شہید ہوگئے اور مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک بھونچال آگیا، اس حملے کے لیے اسرائیلی فورسز اور موساد نے خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے دہائیاں گزار دی تھیں۔
مزید بتایا گیا کہ آخری وقت میں یہ حسن نصراللہ کو علاقے سے بحفاظت نکلنے کا موقع نہ دینے کے لیے یقینی اقدامات کیے گئے تھے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جنگی طیارے بم برسا رہے ہیں اور یہ بم مختلف مقامات پر گر رہے ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہو رہا ہے کہ آیا مذکورہ مقامات پر عمارتیں ہیں یا نہیں۔
https://www.facebook.com/reel/644880308034221
اسرائیل فوج نے بتایا کہ حسن نصراللہ شہید پر حملے کے لیے جی بی یو31 بنکر بسٹر بم بھی گرائے گئے تاکہ بیروت میں قائم رہائشی عمارت کی گہرائی تک اثرات پہنچیں کیونکہ حزب اللہ کا ہیڈکوارٹرز وہاں چھپا ہوا تھا۔
اسرائیلی فوج کے کمانڈر ہیٹزیرم ایئربیس بریگیڈیئرجنرل ایمیچائے لیوائن نے بتایا کہ اس وقت جنگی طیارے ہرسیکنڈ کے بعد بڑی تعداد میں بم گرا رہے تھے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ حسن نصراللہ زندہ نہ بچ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر اس دن ان کی سالگرہ تھی اور روایت سے ہٹ کر حسن نصراللہ اپنی سالگرہ کے حوالے سے مبارک بادیں وصول کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ کے سربراہ کو بم باری سے شہید کرنے کے بعد خدشہ تھا کہ حزب اللہ پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل پر جوابی وار کرے گی کیونکہ ان کے پاس ایک لاکھ سے زائد راکٹ ہیں جو جنگ سے پہلے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھے، لیکن اس نے محض 90 راکٹس فائر کیے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 27 ستمبر 2024 کو جنوبی بیروت کے علاقے میں ایک عمارت پر بمباری کرکے حسن نصراللہ کو شہید کردیا تھا اوررپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ اس حملے میں 85 ٹن دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا تھا اور 6 رہائشی عمارتیں ملیامیٹ کردی گئی تھیں۔
اسرائیل کے مذکورہ حملے میں حسن نصراللہ کے علاوہ ان کی بیٹی زینب اور دیگر کمانڈرز بھی شہید ہوگئے تھے اور بعد ازاں حزب اللہ کے نامزد سربراہ بھی شہید کردیے گئے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حسن نصراللہ کو حزب اللہ اللہ کے کی گئی کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر
تہران(انٹرنیشنل ڈیسک)ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں، انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تہران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے جاری رکھے گا۔
قطری نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پزشکیان نے کہا کہ ہم کسی بھی نئے اسرائیلی فوجی اقدام کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، اور ہماری مسلح افواج ایک بار پھر اسرائیل کے اندر گہرائی میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایرانی صدرنے کہا کہ وہ اس جنگ بندی پر انحصار نہیں کر رہے جو 12 روزہ جنگ کے اختتام پر ہوئی تھی۔
مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں ہیں، اسی لیے ہم نے خود کو ہر ممکنہ منظرنامے اور کسی بھی ممکنہ ردعمل کے لیے تیار کیا ہے، اسرائیل نے ہمیں نقصان پہنچایا، اور ہم نے بھی اسے شدید ضربیں لگائی ہیں، لیکن وہ اپنے نقصانات کو چھپا رہا ہے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ اسرائیل کے حملوں (جن میں اعلیٰ فوجی شخصیات اور جوہری سائنسدانوں کی اموات اور جوہری تنصیبات کو نقصان شامل تھا) کا مقصد ایران کی قیادت کو ختم کرنا تھا، لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
جون کے مہینے میں اسرائیل کے حملوں میں ایران میں 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، جب کہ اسرائیل میں کم از کم 28 افراد مارے گئے اس سے پہلے کہ 24 جون کو جنگ بندی عمل میں آئی۔
افزودگی کا پروگرام جاری رہے گا
صدرپزشکیان نے کہا کہ ایران بین الاقوامی مخالفت کے باوجود یورینیم کی افزودگی کا پروگرام جاری رکھے گا، اور اس کی جوہری صلاحیتوں کی ترقی بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں کی جائے گی۔
ایرانی صدرنے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں اور ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، ہم جوہری ہتھیاروں کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ہمارا سیاسی، مذہبی، انسانی اور تذویراتی مؤقف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے مستقبل کے کسی بھی مذاکرات ’ون-ون‘ منطق کے مطابق ہونے چاہئیں، اور ہم دھمکیوں یا جبر کو قبول نہیں کریں گے۔
پزشکیان نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ ایران کا جوہری پروگرام ختم ہو چکا ہے، محض ایک فریب ہے، ہماری جوہری صلاحیتیں ہمارے سائنسدانوں کے ذہنوں میں ہیں، تنصیبات میں نہیں۔
صدرپزشکیان کے بیانات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ان بیانات سے بھی ہم آہنگ تھے جو انہوں نے پیر کے روز امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں دیے۔
عراقچی نے کہا تھا کہ تہران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کا پروگرام ترک نہیں کرے گا، لیکن وہ ایک ایسے مذاکراتی حل کے لیے تیار ہے، جس میں وہ اس پروگرام کو پرامن ثابت کرنے کی ضمانت دے گا اور اس کے بدلے پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔
اسرائیل نے ایرانی قیادت کو نشانہ بنایا
پزشکیان نے 15 جون کو تہران میں سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران اسرائیل کی جانب سے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر بھی بات کی، جس میں انہیں معمولی زخم آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی کمانڈرز کا ایک حصہ تھا تاکہ ایرانی قیادت کو نشانہ بنا کر ملک میں افراتفری پھیلا دی جائے اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حملوں کے جواب میں ایران کی جانب سے قطر کے العدید اڈے پر کیے گئے حملے قطر یا اس کے عوام پر حملہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ذہن میں کبھی یہ تصور بھی نہیں آیا کہ قطر اور ہمارے درمیان کوئی دشمنی یا رقابت ہو، اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حملوں کے دن قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو فون کر کے اپنی پوزیشن واضح کی تھی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ میں صاف اور دیانت داری سے کہتا ہوں کہ ہم نے قطر پر حملہ نہیں کیا، بلکہ اس امریکی اڈے پر حملہ کیا، جس نے ہمارے ملک پر بمباری کی، جبکہ قطر اور اس کے عوام کے لیے ہمارے جذبات ہمیشہ مثبت رہے ہیں۔
یورپی طاقتوں سے مذاکرات بحال ہوں گے
عباس عراقچی نے پیر کو کہا تھا کہ ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم اب بھی یہ جائزہ لے رہی ہے کہ گزشتہ ماہ کے حملوں نے ایران کے افزودہ مواد کو کس حد تک متاثر کیا، اور تہران جلد ہی اس کی تفصیلات عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون بند نہیں کیا، اور اگر ایجنسی دوبارہ معائنہ کار بھیجنے کی درخواست کرے گی تو اسے پرکھا جائے گا۔
آئی اے ای اے کے معائنہ کار اس ماہ کے آغاز میں ایران چھوڑ گئے تھے، جب پزیشکیان نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے والا قانون منظور کیا تھا۔
دریں اثنا، ایران، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات جمعہ کو ترکی میں ہونے والے ہیں۔
یورپی فریقین، جو ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے (جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن) کا حصہ تھے، کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران نے مذاکرات دوبارہ شروع نہ کیے تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
Post Views: 4