تعارف: جنید علی کمپیوٹر سائنس گریجویٹ اور سافٹ وئیر انجینئر ہیں ۔ ایک عشرے سے زائد عرصے سے آئی ٹی انڈسٹر ی سے وابستہ ہیں۔ کمپیوٹر سلوشنز، پروگرام ڈیزائننگ کے ماہر ہیں ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مختلف کلائنٹس کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ امریکہ، یورپ، مشرقِ وْسطیٰ کی آئی ٹی انڈسٹری میں کام کر نے کا تجربہ ہے ۔ نت نئی ٹیکنالوجیز پر نظر رکھتے ہیں ۔ کمپیوٹر میں اپنی مہارت، شوق اور جستجو کی وجہ سے سافٹ وئیرز میں اختراعات اور تجربات کرتے رہتے ہیں ۔

سوال: آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنس میں عام آدمی زیادہ فرق نہیں کر پاتا، اس میں بنیادی شعبہ جات کیا ہیں؟

جواب: جی، یہ بات درست ہے ۔ عام آدمی کیلئے اس میں فرق کرنا مشکل ہے ۔ اب اس سیکٹر میں کافی ذیلی شعبہ جات متعارف ہو چکے ہیں۔ میں نے دو ہزار پندرہ میں یہ فیلڈ جوائن کی تھی ۔ اْسو قت ہمیں تین آپشنز ملتے تھے۔ آئی ٹی، سافٹ وئیر انجینئر نگ اورکمپیوٹر سائنسز ۔

سوال: ان تینوں میں فرق کیا ہے؟

جواب: ان تینوں میں فرق یہ ہے کہ آئی ٹی والوں کو نیٹ ورکنگ، سیکورٹی سائیڈ اور پھر کچھ مخصوص سپیشلائزڈ کورسز آفر ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کو کمپیوٹر آرکیٹکچر اور کچھ ایڈوانس کورسز اور سافٹ وئیر والوں کو سافٹ ویئر ڈیویلپمینٹ، انجنیئرنگ، پروجیکٹ مینجمینٹ وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر سائینسز میں متعارف ہونے والے نت نئے رجحانات اور ٹیکنالوجیز بھی اس فیلڈ میں کام کرنے والوں کے لیے جاننا ضروری ہے۔ اس میں مختلف ٹیکنالوجیز ہیں۔ اے آئی، ایم ایل، پائی تھان، میٹا ورس ٹیکنالوجی وغیرہ۔

سوال: آج کل مصنوعی ذہانت کا بہت ذکر ہے۔ آپ آئی ٹی اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں۔ یہ بتائیں کہ آرٹیفیشل اینٹلی جینس ہے کیا؟

جواب: آسان اور سادہ لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی بھی مشین جو ہیومن اینٹلی جنس کو ہو بہو کاپی کرنے کی کوشش کرے ، وہ آرٹیفیشل اینٹلی جنس ہے ، مارکیٹ، انڈسٹری اور دنیا میں یہ اس طریقے سے متعارف ہوئی کہ یہ اے آئی ہے۔ کچھ کام جو آٹو میٹڈ ہو لیکن اس کو ہم اے آئی نہیں مان سکتے۔ کیونکہ انیس سوپچاس میں ا س پر کام شروع ہوا۔ امریکن ماہر ایلن ٹورنگ (Alan Turing) نے اس پر کام شروع کیا تھا۔ اور پہلا جو کام انہوں نے کیا وہ چیس کی گیم تھا۔ جو اْس وقت چیس تھی، وہ کھیلنے کے قابل نہیں تھی، مگر انہوں نے ایک الگو (Algo) لکھ دیا تھا۔ وہ الگو ردہم تھا۔ ہدایات کا ایک سیٹ تھا۔ اس میں یہ تھا کہ اگر کوئی بندہ یہ چال چلتا ہے، تو اس کے خلاف ہمارے پاس کیا کیاآپشنز آتی ہیں۔

ہم نے اس کے خلاف کیا چال چلنی ہے۔ یہ ایک الگو تھا۔ جب ایلن ٹورنگ نے یہ چیزیں پیش کیں تو دنیا حیران اور پریشان ہو گئی کہ یہ ہمارے سامنے کیا چیز آگئی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے کوئی بندہ شکست دے رہا ہے گیم میں، مگر حقیقت میں وہ انسان نہیں ہے۔ وہ پروگرام ہے۔

Set of Instructions ہے، جوآپ کی موومنٹ کے خلاف چل رہی ہیں۔ پھروہ ایلن ٹورنگ کیا کرتے ہیں، وہ اپنے رولز کو کمپیوٹر سائنٹسٹس سے منظور کرواتے ہیں اور وہ ٹورین ٹیسٹ کے طور پر پاس ہو جاتے ہیں۔ ٹورین ٹیسٹ کیا کہتا ہے کہ کوئی بھی چیزیا پروگرام تب تک آے آئی کے دائرہ کار میں نہیں آئے گا جب تک وہ انسان کی فیلنگ (Feeling) نہ دے۔ میں نے خود ایک پروجیکٹ کیا، جس کے آخری مراحل میں، ہم نے ٹورین ٹیسٹ کیا۔ ستر، اسی لوگ موجود تھے۔ اور ٹرانسلیشن آرہی تھی۔ لوگ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ یہ انسان کی ٹرانسلیشن ہے کہ مشین کی۔ اس لیول پر کوئی پروگرام یا سافٹ وئیر پہنچتا ہے تو وہ اے آئی کی کیٹگری میں آئے گا۔

سوال: اے آئی اور آٹو میشن میں کیا فرق ہے؟

جواب: آٹومیشن اور اے آئی میں فرق ہے۔ لوگ مشینوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ کوئی صارف کسی شکایت کے حوالے سے کمپنی کو فون کرتا ہے اور اس کو پتہ لگ جائے کہ آگے سے مشین جواب دے رہی ہے تو اس کا اعتماد کمپنی پر ختم ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کمپنی کی سروس اچھی نہیں ہے۔ حالانکہ اس بات کا امکان ہے کہ بیک اینڈ پر یہی پراسس ہو کہ اس شکایت کے حوالے سے کوئی ٹکٹ جنریٹ ہوتی ہو، اور وہ کسی بندے کو اسائن ہوتی ہو، اور وہ بندہ اس کو حل کر رہا ہو، آٹو میٹڈ سسٹم ہو۔ مشین پر لوگ اعتماد نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ مشین جواب دے رہی ہے۔

میرا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اے آئی کو متعارف کروایا گیا ۔ یہ فیلنگ(Feeling) نہ آئے کہ یہ مشین ہے۔ مثال کے طور پر میں نے کمپنی کو کال کی کہ میرا انٹرنیٹ نہیں چل رہا ہے، آگے سے مجھے نہیں پتہ کہ بندہ بول رہا ہے یا مشین۔ اب کیسے جانیں گے کہ آگے بندہ ہے یا مشین۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ ریڈلائٹ جل رہی ہے۔ میں نے آگے سے بتایا کہ ریڈ بھی نہیں جل رہی، زرد لائٹ جل رہی ہے۔ دو گرین لائٹس جل رہی ہیں۔ اب میں نے اس کو اضافی معلومات دے دیں۔ ا ب وہ کیسے ردعمل دے گا۔ یہ اس کی اے آئی کو ڈیفائن کرے گا۔ اگر میرے جواب میں، وہ کہتا ہے کہ وہ دو لائٹس کیا کر رہی ہیں۔ وہ تیسری لائٹ کیاکر رہی ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اے آئی کی حد تک ناکام ہو گیا۔ تو اس وقت دنیا میں اس بات پر سرمایہ لگایا جا رہا ہے کہ ہم آٹومشین اور اے آئی کے درمیان پائے جانے والے فرق کو ختم کر دیں۔

سوال: اگر اے آئی کا کردار معاشرے میں بڑھ جاتا ہے تو کیا وہ انسان کا متبادل بن جائیگا؟

جواب: کسی حد تک، ایسا ممکن ہے۔ اگر کسی شخص کی صلاحیت یہ ہے کہ اس کو ری پلیس کیا جا سکتا ہے تو پھر اے آئی اس کو ری پلیس کر دے گی۔ جیسے کہ جنر ل موٹرز نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اپنے سسٹم کو آٹو میٹ کر دیا تھا۔ ان کی اسمبلی لائن میں پہلا روبوٹ آ گیا تھا۔ اتنا عرصہ پہلے روبوٹ آ چکا تھا۔

اسمبلی لائن میں پہلے روبوٹ نے آ کر انسان کو ری پلیس کردیا تھا۔ اس وقت بھی وہاں کچھ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی جاب کو سیکور(Secure) کر لیا ہو گا۔ انسان کی کچھ صلاحیتوں کو مشین ری پلیس نہیں کر سکتی۔ ڈیزائن انسان کریگا، تخلیقیت انسان لے کر آئیگا، کچھ نہ کچھ انسان کے پاس رہے گا جس سے وہ مشین کو شکست دے گا۔ انسا ن اتنا باصلاحیت ہے کہ وہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اڈاپٹ (Adopt) کر لے گا۔ جو اڈاپٹ (Adopt) نہیں کرے گا ، وہ فارغ ہو جائیگا۔ مثلاً کنٹینٹ رائٹرز ہیں۔ اگر وہ Creative نہیں ہے، تو پھر اے آئی اس کو ری پلیس کر دے گا۔ اگر تو وہ کنٹینٹ رائٹرر، اِدھر،اْدھر سے چیزیں لے کر کاپی کیا کرتا تھا۔ تو اب وہ کام چیٹ جی پی ٹی بھی کر رہا ہے۔ آپ اس سے پیرا گراف لکھوا لیں، کوئی جاب ڈسکرپشن لکھوا لیں، یہ لکھ دے گا۔ ا ب فرد کو مشین کے مقابلے میں Creative ہونا پڑے گا تبھی وہ اپنی گنجائش نکال پائیگا۔

سوال: اے آئی کی وجہ سے کون سے روزگار ہیں جن کا وجود خطرے میں ہے؟

جواب: فیکٹری میں جو کام مزدور یا ورکرز کیا کرتے تھے۔ اب ان کی جگہ روبوٹس لے چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی روبوٹس متعارف ہو چکے ہیں۔ مستقبل میں آٹو پائلٹ گاڑیاں بھی آ جائیں گی اور پھر ہوائی جہازوں کو آٹو پائلٹ پر منتقل کیا جائیگا۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں زراعت کیلئے روبوٹس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈرونز کے بڑھتے ہوئے استعمال سے فوجی اہلکاروں کی تعداد میں کمی آئے گی۔ روبوٹس اب آپریشنز بھی کر رہے ہیں تو مستقبل میں ڈاکٹرز کی جگہ ہو سکتا ہے کہ کوئی روبوٹ مریض کا آپریشن کر رہا ہو۔ ٹیلی مارکیٹنگ والے اور کسی کمپنی میں حساب کتاب رکھنے کے لیے اب سافٹ وئیرز کا استعمال ہو رہا ہے۔ تو جو لوگ یہ کام کرتے ہیں تو ان کی جاب بھی چلی جائے گی ۔ پروف ریڈرز اور سیکورٹی گارڈز کا وجود بھی خطرے میں ہے کیونکہ اب ان کی جگہ سافٹ وئیرز، ایپس اور روبوٹس متعارف ہو چکے ہیں۔

سوال: اے آئی کے ساتھ ہی مشین لرننگ (  Machine Learning) کی اصطلاح بھی آتی ہے۔ کیا دونو ں میں کوئی ربط ہے؟

جواب: ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی بھی الگوردہم یا سیٹ آف انسٹرکشنز ( Set of Instructions) تب تک ریپلیکیٹ (Replicate) نہیں ہو گا جب تک پائپ لائن میں ڈیٹا نہیں ہو گا۔ اے آئی تب اے آئی ہو گی جب اس کے پاس ڈیٹا ہوگا۔ اور وہ لرننگ (Learning) کے کچھ قوانین کو بار بار دہرا رہی ہو گی۔ کچھ بڑی لرننگ مشینز ہوں گی، کچھ لرننگ کے طریقہ کار ہوتے ہیں۔ مثلاً Cognitive اور Reinforcement باربار کر کے اس کو پختہ کیا جاتا ہے۔ جیسے شروع شروع میں جب چیٹ جی پی ٹی آیا ، تو لوگوں نے بڑا مذاق اْڑایا۔ اس کو سادہ سے جمع ، تفریق اور ضرب کے سوالات دیے۔

اب آپ کیا کر رہے ہیں۔ اب آپ اس کے ساتھ کھیل رہے ہو لیکن اس کو سکھا رہے ہو۔ اس کو میچور (Mature) کر رہے ہو۔ صحیح فیڈ کر رہے ہو یا غلط کر رہے ہو، آخر کار وہ الگوردہم ڈھونڈ لے گا کہ یہ چیز ٹھیک ہے۔ یہ جو آپ ا س کو ڈیٹا فیڈ کر رہے ہو، یہ مشین لرننگ(Learning   Machine) ہے۔ اس کو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ تو اس ڈیٹا کی بنیا د پر جو وہ Intelligently انتخاب کر کے لاتا ہے وہ اے آئی ہے۔ اور جو اس کے پاس پیچھے ڈیٹا ہے،سو کے قریب چیزیں ہیں، ان میں سے دو یا تین ٹھیک ہیں تو یہ مشین لرننگ کے زْمرے میں آئے گا۔ اے آئی اور مشین لرننگ اس طرح ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

سوال: اے آئی کا استعمال زیادہ کہاں ہے؟ اور سافٹ وئیر ز کی زیادہ مانگ کہاں ہے؟

جواب: پاکستان میں تو اس کی اتنی زیادہ ڈیمانڈ نہیں ہے ۔ ہم اس وقت جتنی بھی خدمات فراہم کر رہے ہیں ، وہ سب ملک سے باہر ہے۔ اے آئی اور ایم ایل ( Learning Machine) سے متعلقہ سٹارٹ اپس ملک سے باہر ہیں ۔ اے آئی یا ایم ایل کے فوائد فوری طور پر سامنے نہیں آتے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی پروجیکٹ بنایا ، اور فوراً ہی اس کے فائد ے آ گئے ۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ آتے ہیں ۔ اب چیٹ جی پی ٹی کی مثال لے لیں ، اب ہر کسی کی زبا ن پر اس کا نام ہے، لیکن آج سے دس سال پہلے کوئی اس کا نام نہیں لیتا تھا ۔ اس سرمایہ کاری نے وقت لیا ۔ جب ایلن مسک نے دوہزار پندرہ میں، اس میں ایک ارب ڈالر کی انویسٹمینٹ کی، تو تب لوگوں نے کہا کہ اوپن اے آئی کچھ کرنے جا رہی ہے۔ لوگوں کی زندگیاں آسان کرے گی۔ جی پی ٹی، ون آیا، پھر ٹو، تھری، فورآیا ۔ اب انہوں نے اس کے Paid Version متعارف کروا دیے ہیں۔

اگر آپ نے استعمال کرنا ہے تو پھر ادائیگی کریں ۔ کیونکہ انہوں نے اس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ شروع میں انہوں نے مفت خدمات دی ہیں ۔ وہ اس کو میچور (Mature) کروا رہے تھے۔ سب سے زیاد ہ قیمتی چیز ڈیٹا ہے ۔ ہم تو اپنا ڈیٹا بھی باہر بھیج دیتے ہیں ۔ فیس بک استعمال کر رہے ہیں، ہمار ا ڈیٹا ملک سے باہر جا رہا ہے۔ اے آئی، ایم ایل کو ہم اس طریقے سے استعمال نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں چیزیں آٹو میٹ (Automat) ہو رہی ہیں۔ جیسے موٹر ویز پر ایم ٹیگ ہو رہا ہے۔ موٹر وے میں آپ کا داخلہ اور اخراج آٹو میٹ ہو گا۔ آپریٹر کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ ایک Advancement ہے۔ ہمارے ہاں جو طلباء کو فائنل ائیر پروجیکٹ کروائے جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے پروجیکٹس کروائیں جو مستقبل میں کا م آسکیں۔ ایک گروپ نے کوئی کام کیا تو بعد والے اس کو آگے نہیں لے کر جاتے۔ وہ کاغذوں اور فائلز میں ہی رہ جاتا ہے۔ ایک سیریز ہونی چاہیے تسلسل کی تاکہ کام آگے چلے اور پاکستان میں ٹیکنالوجی میں بہتری آئے۔

سوال: اگر کوئی اس فیلڈ میں آنا چاہے، اے آئی، یا مشین لرننگ میں تو اس کے لیے تعلیم کونسی درکار ہے؟

جواب: اس معاملے میں پاکستان اور دنیا میں مختلف طریقہ کار ہے۔ دنیا میں ڈگری نہیں مانگی جاتی۔ پاکستان میں طلب کی جاتی ہے۔ امریکہ میں بوٹ کیمپس ہوتے ہیں۔ لوگ اس میں جاتے ہیں اور اپنے تعلیمی پس منظر کے برعکس جاب لے لیتے ہیں۔ پاکستان میں آپ کسی کمپنی میں جاب کے لیے جائیں گے تو وہ آپ کو کمپیوٹر سائنس کا بیک گراؤنڈ چیک کریں گے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس رجحان کو تبدیل کیا جائے۔ کچھ انڈسٹری کے لوگوں سے مل کر ہم یہ تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف تعلیمی پس منظر کے لوگ اس میں آ جائیں۔

الیکٹریکل، مکینیکل ، کیمیکل انجینئرز آئیں ۔ روزگار کے اتنے مواقع نہیں ہیں۔ وہ اتنا پڑھ لکھ کر کہاں جائیں۔ تو ہم کچھ بوٹ کیمپ کے ذریعے کوشش کر ر ہے ہیں کہ وہ بنیادی چیزیں سیکھ لیں۔ بنیادی چیز ہے کہ پرابلم کو حل کرنے کا فہم، Critical Thinking درکار ہوتی ہے۔ پھر لینگوئج یا فریم ورک ، وہ بعد میں سکھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی کمپیوٹر گریجویٹ بھی آتا ہے تو وہ بھی کمپنی میں آ کر ہی سیکھتا ہے۔ اگر کمپنی میں اے آئی، اور مشین لرننگ ہے اور وہ یونیورسٹی سے سیکھ کرآیا ہے تو یہ نہیں ہو گا کہ اس کو وہی چیز کمپنی میں مل گئی۔ ہو سکتا ہے ا س کو میٹا ورس میں کام کرنا پڑجا ئے، بلاک چین میں کام کرنا پڑے۔ تو ایسے نوجوان جن کا تعلیمی پس منظر کمپیوٹر سائنس کا نہیں ، انہیں کچھ چیزیں سیکھنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ کچھ ڈیٹا ہوتا ہے، الگورتھم ہوتا ہے وہ سافٹ وئیر میں کیسے کام کرتا ہے۔ اب تو ویب سائٹس ہیں، یو ٹیوب پر لیکچرز ہیں جن سے آپ سیکھ سکتے ہیں۔ آپ کو مستند اداروں سے سیکھنا چاہیے جہاں ملکی یا بین الاقوامی اساتذہ طلباء کو سکھاتے ہیں۔

سوال: پاکستان میں ا ے آئی سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟

جواب : ہیلتھ کئیر میں بہت بہتر ی آ سکتی ہے۔ مستقبل میں اے آئی، ایم ایل اور اے آر (Augmented Reality) کا امتزاج ہو گا۔ ایپل نے پرو وژن (ProVision ) لانچ کیا ہے۔ اس میں آپ نے کچھ پہنا ہوتا ہے اور آپ انگلیوں سے اس کو کنٹڑول کر رہے ہیں۔ اس لیول کی ترقی ہو چکی ہے۔ ایپل نے شروعات کی ہے۔ آگے اس بہتری آئیگی۔ مثال کے طور پر پاکستان کو گزشتہ سال نگلیریا کا سامنا تھا۔ اس میں آپ کو پانی سے بچنا ہوتا ہے۔ تو اب کیسے بچیں۔ تو اس طرح کی مشکل اور پیچیدہ صورتحال میں ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمینٹ سے بہتری آئے گی۔ ہیلتھ سیکٹر میں سرجریز آسان ہو جائیں گی۔ دوسری بہتری یہ ہو گی کہ جو لوگ بڑے بڑے تھیٹرز جاتے ہیں۔ وہ اب گھر بیٹھ کر پوری ہو رہی ہے۔ ایک اور سیکٹر ہے آٹو موبائل سیکٹر، اس میں ٹیسلا آگے ہے۔ آٹو میٹک کار انہوں نے متعارف کروا د ی ہے۔ آپ میٹنگز کر رہے ہیں۔

آپ اپنا کام کر رہے ہیں اور گاڑی چل رہی ہے۔ خود ہی بریکس لگا رہی ہے۔ لین بھی تبدیل کر رہی ہے۔ یواے ای اور سعودی عرب اپنے دوہزار تیس کے وژن میں ہوا میں اڑنے والی گاڑیا ں چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ پائلٹ لیس گاڑیاں متعارف کروا رہے ہیں۔ آپ اپنے مقررہ مقام کے آغاز اور اختتام کا اندراج کریں گے تو گاڑی آئیگی اور آپ کو مقررہ مقام تک پہنچا دے گی۔ پاکستان میں ہم نے ابھی اس کو ایکسپلور نہیں کیا۔ اگر ہم اس میں سرمایہ کاری کریں تو یہ فائدہ دے گی۔ صحت میں ایک پیش رفت یہ ہوئی کہ حال ہی میں اے آئی کی مدد سے انہوں نے بریسٹ کینسر سے منسلک کچھ نیا دریافت کیا ہے۔ ان کے پاس کینسر کے مریضوں کی ہسٹری کا ڈیٹا تھا جس کا انہوں نے تجزیہ کیا۔ لاکھوں لوگوں کا ریکارڈ تھا۔ تجزیے کے بعد پتہ چلا کہ ایک سیل ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے۔ ہم اس سیل کی اگر تشخیص کر لیں اور اس کا تدارک کرلیں تو کینسر نہیں ہوگا۔

سوال: آ پ نے میٹا ورس ٹیکنالوجی کا ذکر کیا تھا۔ کچھ بتائیں کہ یہ کیا ہے؟

جواب: میٹاورس ایک وسیع سبجیکٹ ہے۔ اس کا سادہ اور عام فہم مفہوم یہ ہے کہ آپ سنتے ہیں کہ مریخ پر زمینیں بیچی جا رہی ہیں یا آپ اپنی مرضی کا گھر بنائیں۔ اس کی عملی مثال ایپل کا پرو وژن ہے۔ جس میں آپ اپنے دماغ میں سوچیں گے اور خیالوں میں چیزیں بناتے چلے جائیں گے۔ پاکستان میں اس فیلڈ میں کام نہیں ہو رہا مگر باہر کی دنیا میں کام ہو رہا ہے۔     

سوال: بلاک چین ٹیکنالوجی کا کیا تصور ہے؟

جواب: بلاک چین،ٹیکنالوجی کی ایک شاخ ہے۔ ہم نے کرپٹو کرنسی کے متعلق سنا ہے۔ یہ سب بلاک چین کے ماڈل پر ڈیویلپ ہوتی ہیں۔ جس میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہے۔ اور یہ اس حد تک جڑی ہوتی ہیں کہ آپ اس سے گمنام شخص کے طور پر فنانشل ٹرانزکشنز کرتے ہیں۔ کسی کو نہیں پتہ کہ کس نے کس کو پیسے دیے ہیں۔ یہ صرف تصدیق کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ اچھا فلاں نے فلاں کو پیسے دیے ہیں۔ کیونکہ اس میں بلاکس ٹرانسفر ہوتے ہیں۔ ان کی آپس میں Connectivity Chains ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ پورا عمل بلاک چین کہلاتا ہے۔

پاکستان میں اس پر تھوڑا بہت کام ہوا ہے۔ مگرا پنے طور پر نہیں ہوا۔ کسی کلائنٹ کے کہنے پر چیزوں کو ڈیزائن کیا گیا یا کچھ تبدیلیاں کی گئیں ہیں لیکن آزادانہ طور پر پاکستان میں اس پر کام نہیں ہوا۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کا مرکز شاید امریکی شہر ڈیلاس ہے۔ ا س میں انفراسٹرکچر پر کام ہو رہا ہے۔ انفراسٹرکچر میں بہتر ی پر کام ہو رہا ہے۔ وہ ایسے کہ ایسی چِپس بنائی جائیں جو کہ ٹریلینز آف آپریشن ایک سیکنڈ میں کریں۔ جس سے اے آئی کی ایڈوانسمینٹ یہ ہو گی کہ ہمارے جن سوالا ت کا جواب اے آئی پانچ منٹ، دس منٹ یا زیاد ہ میں دے رہا ہے ، وہ سیکینڈز میں ہوں سکیں۔ جس کا مطلب ہے کہ جو پرانے پیچیدہ مسائل ہیں وہ بھی اب حل ہو جائیں گے اس اختراع سے۔ میڈیکل کی فیلڈ میں بہت آسانیاں ہوں گی۔ اگر سپیڈ اتنی زیادہ ہوگی تو پھر روبوٹس یا روبوٹک انڈسٹر ی میں کام زیادہ ہو گا۔ سرجریز میں جہاں وقت بہت اہمیت کا حامل ہے، وہاں روبوٹس سے سرجریز کروائی جائیں گی۔ اب دیکھیں، اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔

سوال: چین اور امریکہ کے درمیان ٹیکنالوجی کے میدان میں مسابقت کی دوڑ کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: یہ دوڑ تو جاری رہے گی مگر میدان اْ سی کے ہاتھ رہے گا جو بدلتے تقاضوں کے مطابق ڈھال لے گا۔ کیونکہ ٹیکنالوجی نے تو تبدیل ہونا ہی ہے۔ چین دراصل فنانشلی مارکیٹ کو ہولڈ کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کم پیسوں میں وہی کوالٹی دے اور زیادہ مقدار میں دے۔ اور چین اس میں کامیاب رہا ہے۔ مین پاور اور انڈسٹری میں چین کا ابھی تک کوئی مقابلہ نہیں کر سکا۔ سافٹ وئیر انڈسڑی کا حجم بہت زیادہ ہے ۔ اربوں ڈالرز کی یہ انڈسٹری ہے۔ دنیا بھر میں اس کی مارکیٹ ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی گیپ مل جاتا ہے۔ چین اسی گیپ کو فِل کرنا چاہتا ہے۔ چین کی یہی کوشش ہے۔ امریکہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تو یہ مقابلے کی دوڑ ہے۔

سوال: یورپ اس ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنا سرگرم نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: یورپ واقعی اس دوڑ کا حصہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ یورپ معاشی طور پر مضبوط ہے۔ یورپ کی گروتھ بہتر ہے۔ یورپ اس دوڑ میں اس لیے شریک نہیں ہے کہ وہاں انسانی حقوق کا معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ڈیٹا کے تحفظ کو وہ یقینی بناتے ہیں اور اس میں جرمانہ بہت زیادہ ہے۔ وہاں ڈیٹا قابلِ شناخت ہے۔ اور Identifiable Data میں چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اے آئی ڈیٹا پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی ماڈل کی میچورٹی کیلیے ڈیٹا آپس میں شئیر کیا جاتا ہے۔ کمپلائنس کی وجہ سے وہ کوئی بھی اے آئی بیسڈ (AI Based) سلوشن نہیں اپناتے۔

اے آئی کو ڈیٹا کے بغیر Train کیسے کریں گے۔ ڈیٹا کس چیز کا لیں گے۔ ڈمی ڈیٹا نہیں لیا جا سکتا۔ رئیل لائف ڈیٹا کے بغیر مشکلات ہیں۔ مگر ابھی یورپ میں بھی اس پر کام ہو رہا ہے۔ حال ہی میں فرانس میں ہونے والی کانفرنس میں اس پر پیش رفت ہوئی ہے۔ فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں، اے آئی کی فیلڈ میں، ایک سو نو بلین یورو کی سرمایہ کاری کریں گے۔ اسی طرح یورپ کی کچھ کمپنیوں نے مل کر EU AI Champions Initiative کو لانچ کیا ہے۔

سوال : کیا پاکستان میں اے آئی سے مدد لی جا رہی ہے؟

جواب: پاکستان میں اس سے مختلف طرح کی مدد لی جا رہی ہے۔ اب لو گ اکاونٹنٹ نہیں رکھتے۔ اس کی جگہ وہ اے آئی اسسٹنٹ رکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح آرکیٹکٹ کی فیلڈ ہے ۔ اس میں اگر آپ اسے بتائیں کہ میرے پاس اتنی جگہ ہے تو وہ آپ کو نقشہ بنا دے گا۔ انٹیرئیر ڈیزائننگ بھی متاثر ہو گی۔ کیونکہ اب آپ اے آئی کو بتا دیں کہ میرے پاس اتنی جگہ ہے، اس کو ڈیزائن کر دو۔ وہ کر دے گا اور ساتھ ساتھ آپ اس کو کمانڈ کرتے جائیں وہ، کرتا چلا جائے گا تو اے آئی سے کئی شعبہ جات متاثر ہوں گے۔ ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہو گا وگرنہ ہمیں بہت مسائل کا سامنا ہوگا۔

سوال: خواتین ہر شعبہ زندگی میں آگے آ رہی ہیں۔ کیا اس آئی ٹی انڈسٹر ی میں بھی خواتین ہیں؟

جواب: عمومی طور پر خواتین کوئی پروفیشنل ڈگری لیتی ہیں تو وہ دو، تین سال فیلڈ میں کام کرتی ہیں۔ پھر شادی کے بعد خانگی مصروفیات کی وجہ سے فیلڈ میں کام کر نہیں پاتیں۔ لیکن آئی ٹی کی فیلڈ ایسی ہے کہ آپ دنیا کے جس کونے میں بھی ہوں ، آپ کے پاس قابل بھروسہ انٹرنیٹ ہو تو آپ کام کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ خواتین کے لیے آئیڈیل ہے، تحفظ ہے، کام کرنے کا ماحول بہت اچھا ہے، وائٹ کالر جاب ہے۔ اور سب سے بڑھ کر کام کرنے کے لیے بہت آزادی ہے۔ فیملی سپورٹ مل جائے تو وہ بہت اچھا کام کر سکتی ہیں۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں اس کمپیوٹر سائنس پاکستان میں ا کام ہو رہا ہے فیلڈ میں کام سرمایہ کاری متعارف کروا میں اے ا ئی کو ری پلیس میں کام کر کر رہے ہیں ہے کہ کوئی سافٹ وئیر اے ا ئی کو اے ا ئی کی متعارف ہو ساتھ ساتھ وہ اے ا ئی کی وجہ سے کر رہے ہو کے طور پر ہوتے ہیں جاتے ہیں انسان کی دنیا میں انہوں نے کوئی بھی کے لیے ا ہے کہ وہ جی پی ٹی س پر کام یہ ہے کہ سکتا ہے ہیں اور میں بھی چکے ہیں کوشش کر ایم ایل رہی ہیں نہیں ہے ہوتا ہے نہیں کر کی فیلڈ جاتا ہے کریں گے میں بہت کے ساتھ نہیں ہو ا ئی ٹی ا ہے تو ہے کہ ا ہیں کہ اور وہ لیکن ا ہے ہیں کے پاس جل رہی کی جگہ تو پھر کیا کر رہی ہے ہیں تو کیا ہے جا رہی کر رہا کیا جا ہے اور

پڑھیں:

فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام

عیدالاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالٰی کے حضور پیش کی تھی۔ اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوںکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔

اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ صرف ایک والد کی طرف سے اپنے بیٹے کی جان دینے کا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عظیم آزمائش تھی۔

حضرت اسماعیلؑ کا رضا مند ہونا، حضرت ابراہیم ؑ کا صبر، اور پھر اللہ تعالیٰ کا فدیہ بھیج دینا ۔ یہ سب ایمان، وفاداری اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہی واقعہ آج بھی قربانی کی صورت میں دہرایا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے ہاں دو عیدیں منائی جاتی ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی…لیکن ان میں سے عید الاضحی کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کیوںکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور اللہ سے وفاداری کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن فقط ظاہری مسرتوں اور چمک دمک کا مظہر نہیں، بلکہ یہ اندرونی پاکیزگی، خلوص نیت، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا کرنے کا نام ہے۔

عید کے موقع پر جب لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں، دل کی کدورتیں دور کرتے ہیں، اور خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو یہ محض رسمی عمل نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے اتحاد، اخوت، اور بھائی چارے کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ عید الفطر، رمضان کے بابرکت مہینے کے اختتام پر خوشی کا پیغام ہوتی ہے، جہاں روزے داروں کو اللہ کی طرف سے انعام و انعام ملتا ہے۔ جبکہ عید الاضحی، ایمان کے ایک عظیم امتحان کی یادگار ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کیا۔ یہ واقعہ صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ اللہ کی رضا کے آگے ہر چیز ہیچ ہے، حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی۔ عید الاضحی دراصل قربانی کے فلسفے کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں پیش کر کے، اپنی بندگی، عاجزی، اور فرمانبرداری کا عملی ثبوت دیتا ہے۔

عیدِ قربان پر معاشی سرگرمیاں

عید الاضحی کا معیشت پر بھی نمایاں اثر پڑتا ہے۔ لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت، قصائیوں، چارہ فروشوں، اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کے لیے یہ دن معاشی سرگرمی کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی علاقوں سے جانور شہروں میں آتے ہیں، بازار سجتے ہیں، اور ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ اگرچہ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔ قربانی کے جانوروں کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق عید الاضحیٰ 2023ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.1 ملین (61 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 531 ارب روپے تھی۔ اس برس قربان کیے گئے جانوروں گائے اور بیل 2.6 ملین، بکرے 3 ملین، بھیڑیں 350,000، بھینسیں: 150,000 اور اونٹ: 87,000 تھے۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق، ان قربانیوں سے حاصل ہونے والی کھالوں کی مالیت تقریباً 7 ارب روپے تھی، تاہم شدید گرمی اور مناسب دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے کھالوں کا تقریباً 35 فیصد حصہ ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ یوں ہی پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ 2024ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.8 ملین (68 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 500 ارب روپے سے زائد تھی۔ قربان کیے گئے جانوروں میں 28 لاکھ گائے، 33 لاکھ بکرے، 1.65 لاکھ بھینسیں، 99 ہزار اونٹ اور 3.85لاکھ بھیڑیں شامل تھیں۔

عید الاضحیٰ 2025ء کے دوران پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی تعداد اور مالیت کے حوالے سے سرکاری یا مستند اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں تاہم، گزشتہ سالوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال بھی تقریباً 6.5 سے 7.0 ملین (65 سے 70 لاکھ) جانور قربان کیے جا سکتے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 500 سے 550 ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔

قربانی کی اصل روح

قربانی اسلام کا ایک عظیم شعائر ہے، جو صرف ایک رسم یا ظاہری عمل نہیں بلکہ انسان کے باطن کی پاکیزگی اور خلوص نیت کا امتحان ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اْسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (سور? الحج: 37)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا، عاجزی اور اخلاص کا اظہار ہے۔ قربانی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان صرف جانور ہی نہیں، بلکہ اپنے نفس کی قربانی دیتا ہے۔

اس میں وہ اپنی خواہشات، ضد، انا، حسد، خود غرضی، اور دنیاوی لالچ کو راہِ خدا میں چھوڑنے کا عہد کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت صرف بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری نہ تھی، بلکہ مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے کا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ آج بھی قربانی کی اصل روح ہے۔ اگر ہم اس عبادت کو صرف گوشت حاصل کرنے، یا رسم نبھانے کی حد تک محدود رکھیں گے تو ہم اس کے اصل مقصد سے محروم ہو جائیں گے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم دنیا میں اپنے مفادات اور نفس پر قابو پاتے ہوئے، خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔

عبادت یا دکھاوا؟

بدقسمتی سے آج کل قربانی جیسے عظیم اور پاکیزہ عمل کو ایک معاشرتی ’’ایونٹ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جہاں عبادت کی جگہ نمائش، اخلاص کی جگہ فخر، اور عاجزی کی جگہ برتری کا اظہار نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جانوروں کی ویڈیوز، ان کی قیمتوں کا دکھاوا اور غیر ضروری تشہیر نے اس مقدس فریضے کو سطحی اور مصنوعی بنا دیا ہے۔ جہاں پہلے قربانی خالص نیت سے کی جاتی تھی، وہیں اب کئی لوگ اسے محض دوسروں کو مرعوب کرنے اور اپنی حیثیت جتانے کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ قربانی کے جانور کی قیمت، جسامت یا نسل کبھی بھی عبادت کا معیار نہیں تھے۔

اصل عبادت تو نیت، تقویٰ اور عاجزی میں پنہاں ہے۔ جانور کو محبت سے پالنا، اس کی خدمت کرنا اور نرمی سے سنتِ ابراہیمیؑ کے مطابق ذبح کرنا، یہ سب وہ اقدار ہیں جو ہمیں قربانی کے ذریعے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر جب ہم اس عمل کو سوشل میڈیا پر ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ گویا روحِ قربانی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ عبادت کو دکھاوے سے پاک رکھنا ایمان کا تقاضا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔ لہذا اگر نیت خالص نہ ہو تو عمل خواہ کتنا بھی عظیم ہو، اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کو اس کے اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ انجام دیں۔

قربانی اور اسلامی مساوات

اسلام نے ہمیشہ معاشرتی مساوات کی تعلیم دی ہے اور عید الاضحی اس کا عملی مظہر ہے۔ قربانی کا گوشت صرف گھر والوں تک محدود نہ رہے بلکہ رشتہ داروں، ہمسایوں اور مستحق افراد تک پہنچے، کیوں کہ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔ اگر ہر صاحب حیثیت فرد سچے دل سے قربانی کرے اور گوشت کو صحیح طور پر تقسیم کرے، تو معاشرے میں بھوک اور محرومی کی شدت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

اجتماعی قربانی اور جدید رجحانات

آج کے تیز رفتار اور مصروف طرزِ زندگی میں جب وقت، جگہ، اور وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قربانی ایک قابلِ عمل، بامقصد اور بابرکت حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ، جنہیں نہ جگہ میسر ہے، نہ جانور کی دیکھ بھال کا وقت اور نہ ذبح و تقسیم کا تجربہ، وہ اجتماعی قربانی کے ذریعے نہ صرف اپنی عبادت ادا کر لیتے ہیں بلکہ بہتر نظم و نسق کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

مساجد، مدارس، سماجی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اجتماعی قربانی کے عمل کو نہایت منظم انداز میں سرانجام دیتے ہیں، جس سے جانوروں کی دیکھ بھال، اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح اور گوشت کی ترسیل، سب کچھ احسن انداز میں انجام پاتا ہے۔ اسی طرح یہ قربانی نہ صرف ایک فرد کی عبادت رہتی ہے بلکہ ایک اجتماعی فلاحی عمل میں ڈھل جاتی ہے، جہاں سینکڑوں مستحقین کے گھروں میں خوشیاں پہنچتی ہیں۔ مزید یہ کہ کورونا کے بعد کے دور میں، صحت اور صفائی کے خدشات کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی کو مزید پذیرائی ملی ہے۔ اس سے نہ صرف ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ جانوروں کے فضلے، خون اور باقیات کے بہتر طریقے سے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

آن لائن قربانی نے بھی انفرادی سطح پر ایک نئی سہولت مہیا کی ہے۔ اب لوگ موبائل ایپس، ویب سائٹس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے قربانی کا جانور منتخب کر سکتے ہیں، ادائیگی کر سکتے ہیں، اور ذبح کے بعد گوشت کی ترسیل بھی حاصل کر سکتے ہیں، تاہم اس سہولت کے ساتھ ایک اہم ذمہ داری بھی جڑی ہے کیوں کہ قربانی محض ’’ٹرانزیکشن‘‘ نہیں بلکہ عبادت ہے۔ اس لیے نیت کا اخلاص، اعتماد والے ادارے کا انتخاب اور شفافیت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔

کچھ افراد آن لائن قربانی کے ذریعے اپنی عبادت کو باآسانی مکمل تو کر لیتے ہیں، لیکن اس عمل سے دوری کی وجہ سے اس عبادت کی روحانی گہرائی کو پوری طرح محسوس نہیں کر پاتے۔ اس لیے، جہاں یہ سہولت کارآمد ہے، وہیں روحانی تعلق اور شعور کو قائم رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اجتماعی قربانی کا رجحان اگر خلوص، نظم اور مقصدیت کے ساتھ قائم رہے تو یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک ایسی سماجی عبادت بھی بن سکتی ہے جو انفرادی نفع سے بڑھ کر اجتماعی فلاح کا سبب بنتی ہے۔

خاندانی بندھن

عید الاضحی صرف عبادت اور قربانی کا موقع نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہوار ہے جو خاندان کے افراد کو قلبی طور پر قریب لاتا ہے۔ گھر کے تمام افراد، چاہے وہ بچے، جوان ہوں یا بزرگ، سب مل کر عید کی تیاریوں میں حصہ لیتے ہیں۔

جانور کی دیکھ بھال، چارہ ڈالنا، پانی دینا اور اس سے مانوس ہونا، یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو خاندان میں محبت، تعاون اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ خواتین کھانے کی تیاری میں مشغول ہوتی ہیں، مرد حضرات انتظامات سنبھالتے ہیں، اور بچے جوش و خروش سے گھومتے پھرتے ہیں۔ اس سب کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں وہ قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے جو عام دنوں میں شاید نہ ہو۔ یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، اور رشتہ داروں سے جڑا رہنا ہی معاشرتی سکون کا اصل ذریعہ ہے۔

خواتین کا کردار: قربانی، پکوان اور سخاوت

عید الاضحی کے موقع پر خواتین کا کردار قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کے اندرونی امور کو سنبھالتی ہیں بلکہ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم، سلیقے سے رکھنا اور پکوان کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تنظیمی صلاحیتیں اور وقت پر ہر کام کی انجام دہی قربانی کی مجموعی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ کئی خواتین اس موقع کو سخاوت اور ہمدردی کے اظہار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ضرورت مندوں کے گھروں تک گوشت پہنچاتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے روایتی کھانے نہ صرف ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ محبت سے بھرپور بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کی اصل رونق انہی کے دم سے ہے۔

جانوروں سے محبت دراصل بچوں کی تربیت

قربانی سے پہلے جانور سے تعلق قائم کرنا، اس سے شفقت سے پیش آنا اور اس کی دیکھ بھال میں دلچسپی لینا ایک ایسا تربیتی عمل ہے جو بچوں کی شخصی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب بچہ کسی جاندار کے ساتھ پیار کا رشتہ بناتا ہے اور پھر اس کے فراق پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ اس کے اندر ہمدردی، برداشت، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ عمل بچوں کو محض مذہبی معلومات نہیں دیتا بلکہ ان کے جذبات اور اخلاقیات کو نکھارتا ہے۔ یہ سبق وہ کتابوں سے نہیں بلکہ عملی تجربے سے سیکھتے ہیں کہ اصل قربانی یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو رضائے الٰہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

صفائی اور شہری ذمہ داریاں

عید الاضحی کے بعد شہروں اور محلوں میں صفائی کا جو منظر پیش آتا ہے وہ ہماری اجتماعی غفلت کی تصویر ہوتا ہے۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے صفائی کی مہم چلاتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم بطور ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔ گوشت کے فضلات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا، خون کو پانی سے دھونا، اور آس پاس کے ماحول کو صاف رکھنا صرف حکومت کا نہیں، ہر فرد کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کیوں کہ ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، اور قربانی جیسے مقدس موقع پر اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو یہ عبادت کی روح کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنے گھروں بلکہ گلی محلوں کو بھی پاکیزہ بنائیں تاکہ عید واقعی ایک خوشگوار تجربہ بن سکے۔

عید کا حقیقی حسن

عید کی خوشیوں کا اصل حسن تب نمایاں ہوتا ہے جب یہ صرف امیروں یا صاحبِ استطاعت لوگوں تک محدود نہ رہے، بلکہ غربا، یتامیٰ اور نادار افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں۔ اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا خاندان ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی بچہ عید پر نیا لباس نہیں پہن سکا، تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔

عید کے موقع پر احساس، درد مندی اور سخاوت وہ اقدار ہیں جو ہمیں ایک باوقار معاشرہ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسیوں، ملازمین، اور کمزور طبقات کو نظر انداز کر کے صرف اپنے خاندان کی خوشیوں میں مگن رہیں گے، تو یہ خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عید کو خدمتِ خلق، انفاق اور باہمی محبت کا ذریعہ بنائیں۔

خطبہِ عید

نمازِ عید کے بعد کا خطبہ محض رسمی خطاب نہیں بلکہ ایک بیداری اور اصلاح کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہزاروں افراد یکجا ہو کر دل و دماغ کے ساتھ بات سننے کو تیار ہوتے ہیں، اور اگر اس موقع پر دین کے ساتھ سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے تو ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر خطیب قربانی کی روح، معاشرتی اتحاد، صفائی کی اہمیت، اور معاشرتی ذمہ داریوں پر سیر حاصل گفتگو کرے، تو سننے والوں کے رویے اور سوچ میں فرق آ سکتا ہے۔ یہ موقع قوم کو متحد، باشعور، اور باعمل بنانے کا موقع ہے، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

عید الاضحیٰ کا بین الاقوامی رنگ

دنیا بھر میں عید الاضحیٰ مختلف ثقافتی رنگوں، زبانوں اور مقامی روایات کے ساتھ منائی جاتی ہے، لیکن اس کی اصل روح’’قربانی برائے رضائے الٰہی‘‘ ہر جگہ یکساں ہے۔ افریقہ میں قبیلے کے لوگ اجتماعی طور پر جانور ذبح کرتے ہیں، بنگلہ دیش میں پورا محلہ ایک ساتھ مل کر حصہ ڈالتا ہے، اور یورپ و امریکہ میں مسلمان تارکین وطن اپنی کمیونٹیز میں عبادت کے ساتھ اپنی شناخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان مختلف اندازوں کے باوجود جو چیز سب کو جوڑتی ہے وہ قربانی کی اصل نیت، وحدتِ امت، اور اخوت کا پیغام ہے۔ یہ عالمی منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم چاہے کسی بھی ملک میں ہوں، ہماری عبادت ایک ہے، اور ہمارا خالق بھی ایک۔

مہنگائی

گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی نے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے قربانی جیسے فریضے کو ایک کٹھن آزمائش بنا دیا ہے۔ جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، جس سے وہ ذہنی دباؤ اور سماجی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے استطاعت کو بنیاد بنایا ہے، اور جو شخص واقعی قربانی کا متحمل نہیں، وہ شرعی طور پر معذور ہے، محروم نہیں۔ دین ہمیں دکھاوے سے روکتا ہے اور نیت کے اخلاص کو سب سے بلند رکھتا ہے۔ اس مشکل معاشی ماحول میں وہ افراد جو صاحبِ حیثیت ہیں، ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسرے بھائیوں کو قربانی میں شامل کریں یا ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

قربانی کا گوشت

قربانی کے فوراً بعد اکثر گھروں میں گوشت کی بھرمار ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس گوشت کا درست انداز میں استعمال نہ ہو تو یہ نعمت ضیاع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوشت کو ذخیرہ کرنے کے لیے صفائی، درجہ حرارت اور مناسب پیکنگ کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فریزر میں بلاوجہ گوشت بھرنا اور مہینوں تک اسے ضائع کر دینا، اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم گوشت کی تقسیم میں توازن رکھیں، عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور مستحقین کو بھی شامل کریں، اور اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف نعمت کا شکر ادا ہو گا بلکہ دوسروں کا حق بھی ادا کیا جا سکے گا۔

نوجوان نسل کے لیے پیغام

عید کا دن نوجوانوں کے لیے محض تعطیل یا تفریح کا موقع نہیں، بلکہ تربیت اور کردار سازی کا ایک نادر موقع ہے۔ جب نوجوان قربانی کی تیاری، جانور کی دیکھ بھال، اور اس کے ساتھ محبت میں شریک ہوتے ہیں، تو ان کے اندر احساس، ذمہ داری، اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ انہیں یہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ قربانی صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی جہاد ہے، جس کا مقصد اپنے اندر کی خود پسندی، غفلت، اور دنیا پرستی کو ختم کرنا ہے۔ اگر نوجوان اس عبادت کے گہرے مفہوم کو سمجھ لیں، تو وہ اپنی زندگی کو خدمت، خلوص، اور قربانی کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں، جو مستقبل میں انہیں ایک بہتر انسان، شہری اور مسلمان بننے میں مدد دے گا۔  

متعلقہ مضامین

  • کم کیلوریز ڈپریشن کا خظرہ بڑھا سکتی ہیں
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • بجٹ میں ایسی اصلاحات لا رہے ہیں جن سے ملک آگے بڑھ سکے گا، محمد اورنگزیب
  • ایسی کیا شکایت تھی کہ 40 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ڈمبلز واپس منگوانے پڑگئے؟
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا