پاک بحریہ کی مشق سی گارڈز 2025 کا آغاز 24 فروری سے ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک: پاک بحریہ کی مشق سی گارڈنز 2025 کا انعقاد 24 سے 28 فروری تک ہوگا۔
کراچی میں پاکستان نیوی ایکسر سائز سی گارڈ 25 کے حوالے سے بریفنگ میں ڈائریکٹر جوائنٹ انفارمیشن کوارڈینیشن سینٹر ( پاک بحریہ) کمانڈر عاطف خان نے کہا کہ یہ ایکسرسائز میری ٹائم کوآرڈینیشن میں اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ پاکستان کے میری ٹائم زون میں سیکیورٹی کا تجزیہ کیا جائے گا۔ مشقوں کے درمیان مختلف اسٹیک ہولڈرز کے کردار کو جانچا جائے گا۔ یہ مشقیں سمندری دفاع کو مزید محفوظ بنائیں گی۔
پاک سعودی تجارتی تعلقات مزید مضبوط؛ حجم 700 ملین ڈالر تک پہنچ گیا
انہوں نے کہا کہ میری ٹائم سیکیورٹی کے اعتبار سے چیلنجز بڑھتے جارہے ہیں۔ میری ٹائم سیکیورٹی کے مقاصد کا حصول ان مشقوں سے ممکن ہوسکے گا۔ ان مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ و دیگر ادارے بہتر انداز میں میری ٹائم سیکیورٹی کے چیلنجز سے نمٹ سکیں گے۔
پاکستان کوسٹ لائن کا رقبہ 2 لاکھ 90 ہزار اسکوائر کلو میٹر بنتا ہے۔ پاکستان کی کوسٹ لائن بھارت سے ایران تک محیط ہے۔ پاکستان کے میری ٹائم زون سے ہر سال 70 ہزار جہاز گزرتے ہیں۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم بہترین پورٹس ہیں جہاں ایل این جی جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔ 40 فش لینڈنگ سائٹس ہیں جن سے 10 لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
ویڈیو؛ بھارت سے شکست، مداح نے پاکستانی جرسی کے اوپر بھارتی شرٹ پہن لی
ڈائریکٹر جوائنٹ انفارمیشن کوارڈینیشن سینٹر ( پاک بحریہ) کمانڈر عاطف خان نے مزید کہا کہ میرین ٹائم پالوشین اینٹی نارکوٹکس جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ماضی میں اس میں ہمیں کچھ حادثات کا سامنا کرنا پڑا۔ہمیں گڈانی جیسے ماضی کے واقعات ہر قابو پانے کے لئیے اقدامات اور موٹر سدباب کرنا ضروری ہے۔ ان تمام مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئیے ہمیں تعاون کو بڑھانا ہے اور پاک نیوی کو جدید خطوط پر استوار کررھے ہیں ۔
پی آئی اے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا ایڈمن آرڈر جاری نہ ہوسکا
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پاک بحریہ میری ٹائم
پڑھیں:
پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک کی صفِ اوّل میں کھڑا ہے: شیری رحمٰن
— فائل فوٹوچیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی سینیٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک کی صفِ اوّل میں کھڑا ہے۔
شیری رحمٰن نے ماحولیات کےعالمی دن پر اپنے بیان میں کہا کہ جرمن واچ کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، بارشوں کا نظام بگڑ چکا ہے، فضا میں زہریلا دھواں عام ہو چکا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ راولپنڈی اسلام آباد میں حالیہ ژالہ باری اور طوفانی بارشیں اس ماحولیاتی بے ترتیبی کا مظہر ہیں، ہم نے عالمی آلودگی میں معمولی حصّہ ڈالا لیکن سب سے بھاری قیمت ہمیں چکانا پڑ رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں موسمیاتی تبدیلی کو بالکل سائڈ پر رکھ دیا گیا ہے، ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں سے ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک خاموش بیٹھے ہیں، پاکستان کو تنہا چھوڑا جا رہا ہے، ترقی یافتہ ممالک کی پیدا کردہ آلودگی کا خمیازہ غریب ممالک کیوں بھگتیں؟ اس تباہی کا خمیازہ بھگتنے والے ممالک کو بچائے جانے تک انصاف محض ایک خوش فہمی ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ قدرتی آفات ہمارے مکانات اور زندگیاں بہا کر لے جا رہی ہیں، 2022ء کے سپر فلڈز نے 33 ملین سے زائد افراد کو متاثر کیا، 1700 سے زائد جانیں گئیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ماحولیاتی خطرات سے تحفظ کی تربیت اب ہر فرد کا بنیادی حق اور ناگزیر ضرورت بن چکی ہے، پاکستان اس وقت ماحولیاتی ہنگامی حالت کی دہلیز پر کھڑا ہے، اپنی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ عالمی برادری کے مؤثر اشتراک کی ضرورت ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی صرف اُس وقت ممکن ہے جب ماحولیاتی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، لاہور کی زہریلی فضا ہمیں روزانہ بربادی کا منظر دکھا رہی ہے، ماحول کا تحفظ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کا مشترکہ فرض ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ بھارت نے جھوٹے دہشتگردی کے الزامات کو جنگ کے لیے جواز بنانا شروع کر دیا ہے، جھوٹے الزامات کو جنگ کا جواز بنانے کا سلسلہ معمول نہیں بننے دیا جا سکتا، ناصرف دو ممالک بلکہ پوری دنیا کو جنگ اور ہائپر نیشنل ازم سے خطرے میں ڈالنے کی بھارتی پالیسی ناقابل قبول ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ اگر صنعتیں اور تجارتی ادارے اب بھی خاموش رہے تو آئندہ کچھ باقی نہ بچے گا، تبدیلی کا آغاز ہمیں اپنے گھروں سے اپنی عادات اور طرز زندگی سے کرنا ہوگا، کوئی باہر سے ہمیں بچانے نہیں آئے گا، ہمیں خود ہی جاگنا ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ شہروں کی منصوبہ بندی، زراعت، پانی اور بنیادی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، حکومت، نجی شعبوں، میڈیا اور عوام سب کو مل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔
شیری رحمٰن نے مزید کہا کہ لازم ہے کہ ہم اپنے انفرادی و اجتماعی طرزِ فکر و عمل میں تبدیلی لا کر گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگی کے انسداد میں پوری سنجیدگی سے شامل ہوں۔
اُنہوں نے کہا کہ ہمیں وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم عملی اقدام کریں گے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک محفوظ اور خوشحال زمین پر سانس لے سکیں۔