کراچی(نیوز ڈیسک)کراچی: آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے سب سے اہم میچ میں قومی ٹیم کی ناکامی پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی افسردہ ہوگئے۔

دبئی اسٹیڈیم میں ہونے والے پاک بھارت میچ میں قومی ٹیم کی 6 وکٹوں سے شکست کے بعد اپنے ردعمل میں گورنرسندھ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی قرضے کی قسط لینا آسان ہے لیکن ٹیم کا اگلے مرحلے میں جانا مشکل ہوگیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم اگر جیت جاتی تو بہت خوشی ہوتی، شائقین کے ساتھ میرا دل بھی ٹوٹا ہے۔

کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ ٹیم پاکستان جیت جاتی تو ایک کروڑ روپے کے ساتھ اس کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیتا۔ پاکستان جیت جاتا تو گورنر ہاؤس میں ارشد ندیم پر انعامات کی بارش والی تاریخ دہراتا۔

انہوں نے کہا کہ آج کا میچ دیکھ کر سارا مزہ کرکرا ہوگیا، اب قومی ٹیم کا اگلے مرحلے میں جانا بہت مشکل لگتا ہے۔

محسن نقوی نے جیسے ریکارڈ ٹائم میں اسٹیڈیم بنائے اگر ایسی ٹیم بھی بنا لیتے تو اچھا ہوتا، ٹیم میں جان لڑا دینے والے بلےبازوں، بولرز اور فیلڈرز کی ضرورت ہے۔

گورنر سندھ نے کہا کہ ایک بار اعلیٰ ترین معیار اپنا کر قومی ٹیم بنالی تو پھر شائقین کرکٹ کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھارت کیخلاف کامیابی پر قومی ٹیم کیلئے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔

لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں لندن میں موجود ہوں لیکن میری دعائیں اور دل پاک بھارت ٹاکرے پر لگا ہوا ہے۔

کامران ٹیسوری کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت پوری قوم اپنی ٹیم کی جیت کے لئے دعاگو ہے، کھلاڑی اپنی پوری لگن سے کھیلیں، جیت انشاءاللہ ہماری ہوگی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کامران ٹیسوری گورنر سندھ نے کہا کہ قومی ٹیم ٹیم کی

پڑھیں:

آسان دین کو مشکل بنانے والے کون؟

دین اسلام واقعتا بڑا آسان دین و مذہب اور انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار بھی ہے، اور یہ بات صدرمملکت،وزیر اعظم ،آرمی چیف،چیف جسٹس سے لے کر سیکولر شدت پسند کالم نگاروں ،تجزئیہ کاروں،ملحد اینکروں اور اینکرنیوں کی فوج ظفر موج تک کی طرف سے قوم کو بار بار بتائی بھی جاتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس آسان ترین مذہب کے خوبصورت احکامات پر یہ خود کتنا عمل کرتے ہیں؟اس لئے میرا یہ دعویٰ ہے کہ دین کو مشکل مولویوں نے نہیں،بلکہ دینی احکامات پر عمل نہ کرنے والی اشرافیہ لنڈے کے لبرلز اور ملک میں طاقتور سمجھی جانے والی قوتوں نے بنایا ہے ، آئیے پڑہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات ہیں کیا؟حضرت ابو رمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کو ضرر پہنچائے، اللہ تعالیٰ اس کو ضرر پہنچائیں گے اور جو شخص دوسروں پر مشقت ڈالے اللہ تعالیٰ اس پر مشقت ڈالیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ملعون ہے وہ شخص جوکسی مومن کو نقصان پہنچائے یا اس کیخلاف کوئی سازش کرے۔حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کے گھر میں بکری ذبح کی گئی‘حضرت عبداللہ گھر تشریف لائے تو فرمایا؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی ہمسائے کو بھی گوشت بھیجا کہ نہیں؟ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جبریل علیہ السلام مجھے ہمسائے کے بارے میں ہمیشہ وصیت وتاکید فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ اسے وارث بنا کے چھوڑیں گے۔
حضرت عائشہ ام المومنین صدیقہ بنت صدیقؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جبریل علیہ السلام مجھے ہمسائے کے بارے میں ہمیشہ (حسن سلوک کی)وصیت وتاکید فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ اس کو وارث بنا دیں گے۔تشریح: یعنی ہمسائے کے حقوق کے بارے میں اتنی تاکید فرماتے رہے کہ مجھے گمان ہوا کہ جس طرح کسی شخص کے مرنے پر اس کے عزیز واقارب وارث ہوتے ہیں اسی طرح ہمسائے کو بھی وارث نہ بنادیا جائے، اس حدیث سے ہمسائے کے حقوق کی حفاظت میں مبالغہ مقصود ہے۔ ہمسایہ عموما ًاس شخص کو کہا جاتا ہے جس کا گھر اس کے گھر سے ملا ہوا ہو، ہمسائے کا لفظ مسلم اور کافر، عابد اور فاسق، دوست اور دشمن، اجنبی اور شہری، عزیز واقارب اور اجنبی سب کو شامل ہے اور حسب مراتب ہر ہمسائے کے حقوق کی نگہداشت لازم ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں، ایک وہ ہے جس کا ایک ہی حق ہے اور وہ کافر ومشرک ہمسایہ ہے جس کے ساتھ قرابت کا کوئی تعلق نہ ہو، اس کا صرف ایک ہی حق ہے یعنی ہمسائیگی کا حق اور ایک وہ ہے جس کے دو حق ہیں، یہ مسلمان ہمسایہ ہے اس کا ایک حق ہمسائیگی کا ہے، دوسرا اسلام کا اور ایک وہ ہے جس کے تین حق ہیں، یہ وہ مسلمان ہے جو رشتہ دار بھی ہو، اس کا ایک حق ہمسائیگی کا ہے، دوسرا اسلام کا اور تیسرا قرابت کا۔شیخ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’ہمسائے کی نگہداشت کمال ایمان میں سے ہے، اہل جاہلیت بھی اس کی نگہداشت کرتے تھے اور ہمسائے کے بارے میں جو وصیت فرمائی گئی ہے اس کی تعمیل اس طرح ممکن ہے کہ حسب طاقت اس کے ساتھ نوع درنوع حسن سلوک کیا جائے، مثلا ہدیے دینا، سلام کہنا، بوقت ملاقات خندہ پیشانی سے پیش آنا، اس کی خبر گیری کرنا اور جن چیزوں کی اس کو ضرورت ہو ان میں اس کی مدد کرنا اور اس نوعیت کے دوسرے امور۔ نیز ہمسائے کی ایذا کے اسباب کی مختلف قسمیں ہو سکتی ہیں حسی بھی اور معنوی بھی۔ ان تمام اسباب ایذا سے باز رہنا اور آنحضرتﷺ نے اس شخص سے ایمان کی نفی فرمائی ہے جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو اور اس بارے میں ایسا مبالغہ فرمایا ہے جس سے ہمسائے کے حق کی عظمت کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ ہمسائے کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے اور ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں نیک اور برے ہمسائے کی حالت میں فرق ملحوظ رہے گا۔‘‘ ۔حضرت ابو ذر غفاری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا(یہ غلام اور نوکر)تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے زیردست بنادیا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے زیردست ہو اسے چاہئے کہ اس کو اپنے کھانے میں سے کھلائے اور اپنے لباس میں سے پہنائے اور اس کے ذمہ ایسا کام نہ لگائے جو اس کی ہمت سے زیادہ ہو، پس اگر اس کی ہمت سے زیادہ کام اس کے ذمہ لگادیا تو اس کی مدد کرے۔تشریح: اس حدیث کے ساتھ حضرت ابوذر غفاریؓ نے اپنا قصہ بھی بیان فرمایا ہے، موردبن سوید کہتے ہیں میں ربذہ میں حضرت ابوذرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا کہ انہوں نے ایک حلہ پہن رکھا ہے اور ٹھیک ویسا ہی حلہ اپنے غلام کو پہنا رکھا ہے، میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میری ایک غلام کے ساتھ تلخ کلامی ہوگئی تھی، میں نے اس کو ماں کا طعنہ دیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا!ابوذرؓ تجھ میں جاہلیت پائی جاتی ہے، تو نے اس کو ماں کا طعنہ دے ڈالا؟آگے وہی ارشاد ہے جو اوپر آچکا(صحیح بخاری ومسلم) اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ ان کو وہی کھلائو، جو خود کھاتے ہو اور وہی پہنائو جو خود پہنتے ہو، یہ حکم استحباب پر محمول ہے۔حضرت ابوبکرصدیقؓ آنحضرتﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جو اپنے غلاموں اور ماتحتوں سے بدسلوکی کرنے والا ہو۔تشریح:غلاموں اور ماتحتوں سے بدسلوکی کرنا اور ان کو مارنا پیٹنا نحوست اور ہلاکت کا موجب ہے جیسا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا برکت وسعادت اور جنت کا موجب ہے۔ ابن ماجہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ’’غلام کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘تو صحابہؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ!کیا آپﷺ نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ اس امت میں غلام اور یتیم پہلی امتوں کی بہ نسبت زیادہ ہوں گے؟ (اور عموماً غلام لونڈیوں سے لوگ اچھا سلوک نہیں کیا کرتے، اب اگر ان سے بدسلوکی جنت سے محرومی کا ذریعہ ہے تو اس امت کے زیادہ لوگ دوزخ میں جائیں گے(فرمایا، ہاں)! اس امت میں غلام اور یتیم تو ساری امتو ںسے زیادہ ہوں گے،اس لئے تم ان سے ایسا شریفانہ برتائو کرو جیسا کہ اپنی اولاد سے کرتے ہو اور ان کو وہی کچھ کھلائو جو خود کھاتے ہو، صحابہ نے عرض کیا، پس ہمیں کون سی چیز دنیا میں نفع دے گی؟ فرمایا وہ گھوڑا جس کو تم اس مقصد کے لئے رکھو کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو اور تمہارا غلام تم کو کافی ہے اور جب وہ نماز پڑھے تو تمہارا بھائی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں 9 محرم الحرام کا مرکزی جلوس اختتام پذیر ہوگیا
  • کنگ سلمان ریلیف سینٹر نے پاکستان میں فوڈ سکیورٹی سپورٹ پروجیکٹ کے تیسرے مرحلے کا آغاز کر دیا
  • عمران سے نوازشریف کا کچھ لینا دینا نہیں، عرفان صدیقی، اڈیالہ جانے کی بات غلط، رانا ثناء 
  • عمران خان سے نواز شریف کا کچھ لینا دینا نہیں نہ وہ ملنے اڈیالہ جیل جارہے ہیں، عرفان صدیقی
  • کنگ سلمان ریلیف سینٹر کی جانب سے پاکستان میں راشن پیکجز کی تقسیم کے تیسرے مرحلے کا آغاز
  • نوازشریف کی عمران خان سے ممکنہ ملاقات کیلئے رضامندی کی خبر سیاق و سباق سے ہت کر پیش کی گئی: کامران شاہد 
  • آسان دین کو مشکل بنانے والے کون؟
  • پاکستان کو ابراہیمی معاہدے پر عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے، رانا ثنا
  • گورنر سندھ کی ایرانی سفارتخانے آمد، اسرائیلی جارحیت پر شدید مذمت اور یکجہتی کا اظہار
  • پاکستان کو ابراہیمی معاہدے پر عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے. رانا ثنا اللہ