بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے سڑکوں پر ناکہ بندی، کیا صوبائی حکومت ناکام ہوچکی؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
پاکستان کے شمال مغرب میں واقع صوبہ بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بد امنی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آئے روز پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کو صوبے سے ملانے والی قومی شاہراہوں پر عسکریت پسند عناصر ناکہ بندی کرکے کارروائیاں کر رہے ہیں۔
حالیہ چند عرصے کے دوران کالعدم تنظیموں کی جانب سے کارروائیوں میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ رواں ماہ کے دوران 19 فروری کو کوئٹہ پنجاب قومی شاہراہ پر بارکھان کے علاقے رڑکن کے مقام پر کالعدم تنظیم کی جانب سے ناکہ بندی کی گئی اس دوران کوئٹہ سے فیصل آباد جانے والی بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 7 افراد کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں پہلے بس سے اتارا گیا اور بعد ازاں گولیاں مار کر انہیں قتل کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بارکھان میں پنجاب کے 7 رہائشیوں کا قتل، آٹھواں کیسے بچ گیا؟
گزشتہ روز بھی عسکریت پسندوں کی جانب سے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر ضلع بولان کے علاقے میں 4 مختلف مقامات بی بی نانی، آب گم، پیرغائب اور گرین ہوٹل کے قریب مسلح افراد نے ناکہ بندی کی اس دوران گاڑیوں میں سوار افراد کی شناخت کی گئی۔
واقع میں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی لیاقت لہڑی کے محافظوں سے اسلحہ چھین لیا گیا تاہم بعد ازاں سیکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ سے 2 راہ گیر مارے گئے۔ اس کے علاوہ پیر کی شب ضلع قلات کی تحصیل منگوچر کے قریب کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر معدنیات لے جانے والے قافلے پر آئی ای ڈی سی حملہ کیا گیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے، اس سوال کے لیے وی نیوز کی جانب سے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جواب موصول نہیں ہو سکا، اس کے علاوہ وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی بھی مختلف تقریبات میں میڈیا کو نظر انداز کررہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان ایک طویل عرصے سے حالت جنگ میں ہے، ہرانے والی حکومت عوام کو خوشحالی کے خواب تو دکھاتی ہے لیکن بد قسمتی سے یہ حکومتیں عوام کی جانوں کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام ہورہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بارکھان دھماکا: 4 افراد جاں بحق 10 زخمی، وزیر اعظم کی مذمت
عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے مخلوط حکومت قائم کی اور یوں پیپلزپارٹی سے میرسرفراز بگٹی جو پہلے نگران وفاقی وزیرداخلہ اور صوبائی وزیرداخلہ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، اقتدار کی کرسی کو سنبھالا لیکن ان کے اس ایک سال کے دوران بدامنی کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ صوبے میں ٹارگیٹڈ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس کے باوجود آئے روز عسکریت پسندوں کی جانب سے قومی شاہراہوں کی ناکہ بندی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکومت عوام کی جان و مال کی تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
گزشتہ روز رکن صوبائی اسمبلی لیاقت لیڈی کے محافظوں سے عسکریت پسندوں نے اسلحہ چھین لیا، جب رکن صوبائی اسمبلی جن کی سیکیورٹی پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں وہ محفوظ نہیں تو عام عوام کی حفاظت بھلا یہ حکومت کیسے کرسکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بارکھان بلوچستان عسکریت پسند قومی شاہرائیں ناکہ بندی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بارکھان بلوچستان عسکریت پسند قومی شاہرائیں ناکہ بندی عسکریت پسندوں کی جانب سے ناکہ بندی
پڑھیں:
قانون سازی اسمبلیوں کا اختیار، کمیٹیوں میں عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں، محمد احمد خان
صوبائی دارالحکومت میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ ملک کا نظام آئین کے مطابق چل رہا ہے، جمہوری نظام عوام کے حقوق کا محافظ ہے، آئین میں وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کا کردار واضح ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپیکر پنجاب اسمبلی محمد احمد خان نے کہا ہے کہ قانون سازی اسمبلیوں کا اختیار ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹیوں میں عوامی مسائل حل کیے جاتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ ملک کا نظام آئین کے مطابق چل رہا ہے، جمہوری نظام عوام کے حقوق کا محافظ ہے، آئین میں وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کا کردار واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون کی سربلندی اولین ترجیح ہے، جمہوریت میں عوام اپنے حق کا استعمال کرتے ہیں، پارلیمانی کمیٹیوں کی بڑی اہمیت ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ قانون سازی اسمبلیوں کا اختیار ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹیوں میں عوامی مسائل حل کیے جاتے ہیں۔