اقبال اکیڈمی مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوئوں پر علمی تحقیق کرے گی، ڈاکٹر عبدالرئوف
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
ذرائع کے مطابق انہوں نے یہ بات جموں و کشمیر لبریشن سیل لاہور میں کشمیر سنٹر کے انچارج انعام الحسن سے ان کے دفتر میں ملاقات کے دوران کہی۔ اسلام ٹائمز۔ اقبال اکیڈمی پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرئوف رفیقی نے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے جدوجہد جائز ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے یہ بات جموں و کشمیر لبریشن سیل لاہور میں کشمیر سنٹر کے انچارج انعام الحسن سے ان کے دفتر میں ملاقات کے دوران کہی۔ انعام الحسن نے ڈاکٹر رفیقی کو جموں و کشمیر لبریشن سیل کے مقاصد اور سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ڈاکٹر رفیقی نے کہا کہ علامہ اقبال کی شاعری تحریک آزادی کے لیے رہنمائی کا کام کرتی ہے۔ انہوں نے کشمیر کاز کے فروغ کے لیے جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ساتھ تعاون کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقبال اکیڈمی مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوئوں پر علمی تحقیق کرے گی۔ ڈاکٹر رفیقی نے یونیورسٹیوں پر زور دیا کہ وہ اس موضوع پر نئے تحقیقی شعبے متعارف کرائیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیر کے بارے میں لٹریچر پاکستانی سفارت خانوں میں دستیاب کرایا جائے تاکہ سفارت کاروں کو اس کی موثر وکالت کرنے میں مدد ملے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جموں و کشمیر لبریشن سیل انہوں نے
پڑھیں:
آفات کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، پروفیسر ڈاکٹر حسن قادری
فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن کا کہنا تھا کہ جو سمندر حضرت موسیٰ کی اُمت کیلئے راستہ بنا فرعون اور حواری اسی میں غرق ہوئے، سچی توبہ کر لیں قدرت کاملہ سے یہی سیلاب اور بارشیں نفع بخش بن جائیں گی، آپؐ کی بعثت کا مقصد انسانوں کے اخلاق و کردار سنوارنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ایک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقدہ فکری نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آفات اور تکالیف کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، سچی توبہ کر لیں قدرت کاملہ سے یہی سیلاب اور بارشیں نفع بخش بن جائیں گی، جو سمندر حضرت موسیٰ ؑاور ان کے فرمانبردار امتیوں کیلئے راستہ بنا فرعون اور اس کے حواری اسی سمندر میں غرق ہو گئے۔ آپؐ کی بعثت کا مقصد انسانوں کے اخلاق و کردار سنوارنا اور انہیں گناہوں کی زندگی سے تائب کرنا تھا۔ انہوں نے فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب اخلاق رذیلہ غلبہ پا لیں تو پھر آسمان سے آفات نازل ہوتی ہیں اور انسانی نظم و نسق، معیشت اور معاشرت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ آج عالم اسلام وسائل کی کثرت کے باوجود انجانے خوف، عدم استحکام، بے اطمینانی اورآفات سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اُمت بدامنی، بیروزگاری، قدرتی آفات، غربت، بھوک، انجانے دشمن کی دہشت کے خوف میں مبتلا ہے مگر اس کے باوجود کوئی اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہونے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ نے زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے اخلاق کی ترغیب و تعلیم دی اور ہر اس عادت اور عمل سے منع فرمایا جو اللہ کی نافرمانی، فرائض و واجبات کی ادائیگی سے روکے اور دلوں کو فساد اور بگاڑ کا مسکن بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال سیلاب آتے ہیں، لاکھوں لوگوں کامال و اسباب پانی میں بہہ جاتا ہے، پل جھپکتے محلات والے سڑکوں پر آ بیٹھتے ہیں، مشکل کی گھڑی میں لوگ رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں مگر کتنے لوگ ہیں جو ان آزمائشوں کے بعد سچے دل کے ساتھ اصلاح احوال اور اللہ کی طرف لوٹ جانے کا مصمم عہد کرتے ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کی وبا آئی اور اس نے زندگی کا پہیہ جام کر دیا، لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے، لوگ بیماریوں کی وجہ سے مرنے لگے، ہر طرف خوف اور یاس کا عالم تھا، سوال یہ ہے کہ وباء کے خاتمے پر من حیث الجموع کتنے لوگ تائب ہوئے اور انہوں نے گناہ کی زندگی کو ترک کرنے کا ارادہ کیا؟ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اللہ کی طرف نہیں لوٹیں گے، گناہوں سے تائب نہیں ہوں گے تو پھر قدرتی آفات اور سیلاب مسلط ہوتے رہیں گے اور دشمن کا خوف ہماری نیندوں کو اُڑائے رکھے گا۔